پھر موسمِ گل رختِ سفر باندھ رہا ہے

 

پھر موسمِ گل رختِ سفر باندھ رہا ہے
پھر قافلہ کاندھوں پہ یہ گھر باندھ رہا ہے

بدلے سے مجھے لگتے ہیں قدرت کے ارادے
دستار کسی اور کے سر باندھ رہا ہے

یہ کون اندھیروں میں چھپا کھیل رہا ہے
ماتھے پہ میرے شمس و قمر باندھ رہا ہے

لگتا ہے ستاروں سے پرے ہے کوئی فنکار
پریوں کے بدن پر نئے پر باندھ رہا ہے

وہ میرے ارادوں کی تجلّی سے ہے خائف
وہ میرے خیالات میں ڈر باندھ رہا ہے

کیا خوب کہ مٹی کے درختوں کے لئے وہ
پانی کے ستونوں پہ ثمر باندھ رہا ہے

راتوں میں شعاو¿ں کا مسافر کوئی شوھاز
جگنو سا ہے تاروں کی خبر باندھ رہا ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*