رسترانی کانفرنس

انسان جوں جوں سماجی سائنس کی گہرائیوں میں اترتا جاتا ہے ، اُس کا سماجی ذمہ داری کا احساس بڑھتا جاتا ہے۔ چنانچہ مست تﺅکلی اب ایک غیر روایتی بلوچ بنتا جارہا تھا۔ جسمانی اور نفسیاتی دونوں صورتوں میں مونچھوں کا تائو نارمل ہوتا گیا ۔ اُس کی قبائلی گردن کی اکڑکا تشنج نرم پڑتا گیا۔پیشانی کے بل کھلنے لگے ۔جاہ و جلال کے لوازمات ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے ،شہرت و نمود کے سامان اُسے ہیچ لگنے لگے اور مال و متاع اُسے پست لگنے لگے ۔اب اُس کے لیے سٹیٹس ، احترام، وقار اور مقدس ترین لفظ تھا:سمو۔۔۔۔ اُسی کے نام کا وردکرنا ،اُسی کے تذکرے جپنا،اسی کے نام کی نیازیں بانٹنا اور اُسی سے مانگنا،چاہنا،گڑ گڑانا،روٹھنامنانا۔باتوں میں تسلسل نہیں،سوچوںمیں یکسوئی نہیں ،معمولات میں قرار نہیں….تﺅ کلی ایک بہکا بہکا ،بکھرا بکھرا،مست مست سا شخص بنتا جارہا تھا۔
محمد خان پیر داذانڑیں اور حاجی بختیار خان سومرانڑیں نے مجھے بتا یاتھا کہ مست کے لنگوٹیے دوست بہار خان سے اُس کی یہ بے سُری، اور بے تال رقصاں حالت دیکھی نہ گئی۔ اُس کے اِس دوست، ہم جولی اور ہم نوا کو اپنے یار کی تکلیف بے کل کرتی جاتی تھی۔ پس وہ علاقے کے ”بڑے“ یعنی شادی ہان کے پاس چلا گیا اور اس سے تﺅکلی کی یہ حالت بیان کرکے مدد چاہی۔ شادی ہان جو علاقے کا سفید ریش تھا،سربراہ تھا،معتبر اور باور والا وڈیرہ تھا،اس نے ایک بزرگ کی حیثیت سے سمو کو قاصد بھجوادیا کہ”مائی(خاتون)! میرا تم سے قرآن ہے،بدی اور بدکاری کی کوئی بات نہ ہوگی ۔ بس تم اسے ذراسادید ار کرادو۔ یہ کہتا رہتا ہے کہ میں عاشق ہوگیا ہوں،درویش ،بزرگ،ولی ہوگیا ہوں۔ تم اسے ملناشاید یہ ٹھیک ہوجائے“ ۔
اُس وقت کا انسان اپنی زبان کے بھرم کا بہت خیال کرتاتھا۔انسان کودوسرے انسان پہ بھرپور اعتماد ہوا کرتا تھا ۔ مردوں اور عورتوں دونوں میں ایک شان ہوا کرتی تھی۔ اور پھر شادی ہان تو بڑی شان والا تھاتھا،بہت باوقار ،عزتوں کا رکھوالا۔ اپنے لوگوں کا خیر خواہ ،ان کے غم خوشی کا خیال رکھنے والا۔
پُراعتماد سمو نے بزرگ و سفید ریش کی بات کو عزت دی اور ملاقات کا دن طے ہوا ۔ تب بہار خان نے مست سے کہا،”آئو تمھیں سمو سے ملوادوں“۔ دونوں دوست مسافت طے کرکے ماوند سے سمو کے علاقے رسترانی گئے۔ اور ایک ٹیکری پہ واقع سمو کے خیمے سے اترائی میںذرا دور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اُس کا انتظار کرنے لگے۔ مست کی نظر یں ٹیکری پہ موجودخیمے پہ مرکوز،ہپناٹائزڈ۔
جونہی سرزمینِ محبت کی شہزادی اپنے خیمے سے روانہ ہوئی اور مست و بہار خان سے محض تیر کش کے فاصلے تک پہنچ گئی تو یہاں مست بے ہوش ہوگیا۔ خاتون قریب آئی ،اُسے بے ہوش دیکھا تو اس کا نام لے کر پکارا”تئوکلی ۔۔۔۔تئوکلی“۔ مگر کوئی سُدھ،کوئی افاقہ نہیں۔ وہ یونہی بے سُدھ نیلا پڑا ہوا تھا۔ دیوی نے اس کا سراپنی گود میں رکھا، ”نذغ“و”مزن سر“و”گُن“ کی خوشبودار جھاڑیوں سے معطر ہاتھوں نے اس کی آنکھوں،بالوں اور چہرے کو سہلایا،فائدہ کچھ نہیں،افاقہ کچھ نہیں۔ مہذب انسان کچھ دیر بیٹھی رہی۔ حسن خود عشق بیماری کے تھپیڑے کا شکارتھا ،وہ کسی کی تقدیر کیا بدل پاتا۔ پیار کی ملائم طاقت کے سامنے صرف درندے شکست نہیں کھاتے،سمو تو اشرف المخلوقات میں بھی اشرف تھی۔ اس نے سر کو خم دے کر پیارکے دیوتا کی کمٹ منٹ کے چرن چھوئے اور بہار خان سے کہا ”ابا(بھائی، بیٹا)یہ اب کسی کام کا نہ رہا“۔ واہ واہ ۔ یہ فقرہ تو گویا قبیلہِ عاشقاں میں قبولیت کی سندہے ۔ کتنے سارے فہمیدہ اور جہاندیدہ لوگ واپس جوان ہونا چاہتے ہوں گے، اور اِسی فقر ے کا تمغہ اپنے سینے پر لگا نا چاہتے ہوں گے ۔ مگر ہر سینے کی قسمت میں ایسی نعمت کہاں !
Saint سمو نے تﺅکلی کی Saint hood کی تصدیق کردی۔
”مائی‘تمہیں اجازت ہے“۔ جواب تھا بہار خان کا۔ آسمان کا چہرہ پڑھ لینے والے ہی تو بہار خان کہلواتے ہیں ۔مست کا ساتھ کسی ڈفر ،کسی غبی کو کیا نصیب ہوگا؟ ۔
کوہ سلیمان کی لیلیٰ چلی گئی اور جونہی وہ اپنے مہذب خیمے میں داخل ہوئی تواِدھر مست کو ہوش آگیا ۔
بہار خان نے پوچھا: ”تئوکلی کیا ہوگیا تھا؟۔۔۔۔ سمو‘سمو پکارتے تھے۔ سمو آئی تو بے ہوش ہوگئے۔ وہ بیٹھ بیٹھ کر بالآخر چلی گئی “۔
کہا:”بہار خان! عشق گدھا گدھی والی جنسی بات نہیں ہے۔ دوست تھی،آنکھیں ملیں ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھے دیکھا میں نے اُسے دیکھا ‘بس ہوگیا وصل“۔(1)۔
تب رسترانی پہاڑ کی چوٹی کے اوپر اُڑتی بدلی نے ‘پرپغ کے پھول پہ بیٹھی تتلی نے‘بارش کے پُرخ نامی ننھے قطرے نے،افق سے اُفق تک کھچی قوس قزح کی لکیر نے، بلوچ کی غربت کی علامت واحد بھیڑ کے گلے میں بندھی گھنٹی نے، اور رسترانی کی بے کراں خاموشی نے بہار خان کے کان میں اذان دی ۔”مست ولی ہے۔۔۔۔مست درویش ہے۔۔۔۔مست فلسفی ہے۔۔۔۔مست عاشق ہے“۔
ایک جھلک دیکھی کشتی ڈبو بیٹھا،خیمے کا ہیولادیکھا تو منزل پاگیا۔ اتنی مختصر گھڑی میں اور اس قدر آٹو میٹک انداز میں خاکی تﺅکلی کو‘آفاقی مست بنادیاگیا۔ کدھر ہے ریاضت،کہاں ہے میرٹ؟۔ ارے باباعشق کے دربار میں اپوائنٹ منٹ آرڈرز، انٹرویو سے صدیوںپہلے ہی ٹائپ ہوچکے ہوتے ہیں۔معروض و موضوع راہبر کے منظر عام پہ آنے سے بہت پہلے کمیتی کاروائی جاری رکھے ہوتے ہیں۔
مہر یونیورسٹی کے اس پر وقار کنوو کیشن کے بعدمست اور بہار خان وہاں سے لوٹ آئے۔ بہار خان کی ڈیوٹی گمنامی کی لگی اور مست دائمی پائیداری اور کائنات کی ابدی شہریت کا ”کارڈ ہولڈر“ بنا۔دونوں مہر کے ہاتھوں سے ودیعت کردہ اپنی اپنی ڈیوٹی میں جُت گئے ۔ مست ایسے کام میں لگ گیا جہاں قرار ‘اورآرام کا گزر نہیں ہوتا۔ اپنے مشن میں ایسے منہمک کہ آج ،موت کے دو سو سال بعد بھی اپنی پارٹی کی ممبر شپ مہم میں مگن ہے۔میں اور اے میرے قاری آپ، اُس کی پارٹی کے latestممبرز بنے ہیں!!۔مبارک ہو۔
مست نے سمو سے محض ایک جھلک لی اور اسے اس قدر Enrich کیا کہ اس روشنی سے دو صدیوں سے دنیا فیض لے رہی ہے، مگر آج تک اس میں کوئی بریک ڈائون کوئی لوڈشیڈنگ نہ ہوئی۔ اِس کا کوئی کھمبانہ گرایاجاسکا۔محبت کی کرامت ملنا تو چُنے ہوئے لوگوں کا حصہ ہے ہی مگراسے تسلسل سے نبھانا بھی صرف مقدر والوں کی میراث ہوتی ہے ۔ اور بلوچ تو شہ مرید سے مست تﺅکلی تک اِسی مہر کی زندگی میں زندہ رہے ہیں۔ یہی ہے بلوچستان۔ یہی ہے بلوچ آئیڈیل معاشرہ۔ ہم اسی میں جیے ہیں ہم حتماً اسی میں جئیں گے۔ سرمایہ کے عبوری دبیز پردے کو پیوند لگتے لگتے معدوم ہوہی جانا ہے۔ ہم اُسی معاشرے کو قائم کر کے رہیں گے،جب شادیھان قول دیتا ہے کہ ”کوئی بدی برائی نہیں ہوگی‘آدمی پاگل ہے سمو‘تم اس سے ملو گی تو ممکن ہے ٹھیک ہوجائے“۔ تو سمو باور کرلے ‘چل کر آئے سرگود میںلے لے۔ یہی تو وہ بات تھی جو وکٹر ہیوگو نے اپنی لامزر یبل میں لکھی تھی کہ ”پہاڑوں میں ایک عجز بھراکمیون موجود ہے“۔ مست کے جنون کے صدقے ‘بہار خان کے قول کے صدقے،سموکے یقین کے صدقے،بلوچ کے کمیون کے صدقے ، بلوچ کمیون ازم کے صدقے۔
ایک بات بار بار دہرانی ضروری ہے ۔ اور وہ یہ کہ مست اور سمو کی یہ محبت خلا میں نہیں زمین پہ وقوع پذیر ہوئی کہ زمین خلا سے پاک تر ہے۔ اور یہ محبت زمان کی چو کھاٹ ہی میں رونما ہوکر پروان چڑھی تھی کہ انسانی واقعات وقت کے تانے بانے ہی میں سرزد ہوتے ہیں۔ زمین کے جس قطعے پر مستیں تﺅکلی امر ہوگیا وہ مشرقی بلوچستان کہلاتا تھا، جہاں زمان نے خود پہ انیسویں صدی کا لیبل لگا رکھا تھا۔ زمان جغرافیہ کو اپنا پنگھوڑا بنائے رکھتا ہے اورجغرافیہ خود پہ بسنے و الوں کی معاشی معاشرتی زندگی کا خالق و پالنہار ہوتا ہے ،یہ انسان کی پیداواری سرگرمیوں کے لیے رحمِ مادر ہوتا ہے ۔ وقت ،جغرافیہ اور انسانی پیداواری سرگرمی،تینوں مل کر اپنی مطابقت اور تقاضوں کے تحت حالات کو ہی نہیں بدلتے بلکہ اپنے آپ کو بھی سربلند کیے رہتے ہیں۔ انہی عناصر نے مستیں تﺅکلی اور سمو کے کردار تخلیق کیے ،انہیں وسیع سماجی تبدیلی کا ذریعہ بنایا،خود انہیں تقدس و عظمت کے نمونے میں ڈھال دیا اور ان کی داستان کو ابدیت عطا کی۔ مہر تو بس بہانہ بنی ۔
مگر یہ بہانہ محض ایک سادہ سا بہانہ نہ تھا۔ یہ تو مست و سمو کو سو سو بار مار کر پھر حیات عطا کرکے گھڑا گیا تھا۔ محبت نے ان دو ہستیوں کواپنے کانٹے دار شکنجے میں بھینچ ڈالا۔اُن پر سے دنیاداری کی پوشاک اتار پھینکی۔انہیں بار بار زمین پہ پٹخا،پھٹکا، چھانا اور جب انہیں خوب صاف کردیا تو پھر ……..فراق کے ابدی درد کی چکی میں انہیں باریک آٹے میں پسوا ڈالا۔ ہجر کی اذیت سے اتنا گوندھوادیا کہ ان میں لوچ پیدا ہوگئی۔ اگلا مرحلہ انہیں مقدس آگ میں ڈالنے کا تھا جس سے وہ سماجی جدوجہد کے مقدس دسترخواں کی مقدس روٹی بن گئے۔ وہ یسوع کی طرح”زندگی کے دل کا ایک جزو“ بن گئے۔(2)۔ مگر دلچسپ بھید دیکھئے کہ یسوع اپنے بارہ چیلوں کو اپنے ساتھ رکھ کر کھلانے پلانے کے باوجود انہیں ہارس ٹریڈنگ سے نہ بچا سکا اور ”زیتون کے باغ “ میں صرف 30دینار پر اُس کاسب سے وفادار شاگرد بک گیا۔ مست یسوع نہیں، اُس کے لولاکی پیغام کا ایک بلوچستانی سیکریٹری جنرل تھا۔ کامیاب سیکریٹری جنرل، اس لےے کہ وہ دو سو برس بعد بھی دنیا سے منقطع پہاڑوں میں گھرے بلوچوں کو اپنا حامی بناتا جاتا ہے!۔
انہی پہاڑوں میں کاہنوں،فقیہہ فریسیوں،ھیر ودیس اور پیلا طوس کے خلاف اُس سماجی بغاوت کا جنم ہوا جس سے مروجہ سماج کی شاہ رگیں پھٹ جایا کرتی ہےں۔ انقلاب ،جس کے پھڑ پھڑاتے پھریروں بینروں پہ”مِہر انقلاب“، ”عشق انقلاب“ کے سنہرے حروف کندہ تھے۔ محبت کا یک نکاتی انقلاب۔ مہر و محبت جسے قبائلی رواجوں اور فتح و برتری کی کرخت و کھردری چٹانوں میں یرغمالی بنایا گیا تھا۔مہر جو لب اور سیاہ کاری کی کال کوٹھڑیوں میں محبوس رہی تھی ۔ محبت جو زیر زمین،خفیہ اور شرمناک سرگرمی گردانی جاتی تھی۔ اسی مہر،اسی محبت، اور اسی عشق کے نام پہ ایک انقلاب بپا ہوا تھا میرے ماوند میں ،جسے نوٹ نہ کرنے والا مورخ ہاتھوں کے رعشے میں مبتلا ہو گا۔ ارے بھائی ! محبت تو بغاوت کی احسن ترین صورتوںمیں سے ایک ہے۔ تبدیلی کی ایک ایسی قوت جو بڑے سے بڑے خندق میں محفوظ سیاسی سماجی نظام کو چیلنج کرسکتی ہے۔
مست نے یک روزہ فرہادی نہ کی، یہ تو ایک مسلسل انقلا ب تھا۔وہ عشق کا لانگ مارچ کرتا کبھی دہلی ہوتا،کبھی مکہ،کبھی سہون،کبھی ڈیرہ۔ جلومیں سینکڑوں لوگ لیے ثقافتی انقلاب کے مظاہرے کرتے ہوئے چار دہائیوں تک وہ خود اس انقلابی لانگ مارچ کی قیادت کرتا رہا۔ ایک ایسا انقلاب جس میں خون کا ایک قطرہ نہ بہا ،بلکہ وہ ہر سازش ،ہر کھسر پھسر کو حاجیوں کے جہاز سے پہلے کعبے پہنچ کربے نقاب کرتا رہا۔ اس انقلاب میں نہ پاسداران تھے نہ کمیسار،ہر بشر کی شراکت کاری کا انقلاب تھا یہ، جسے دو سیلابی دریائوں کے سنگم سے”شاہ“کے زور سے بچ نکل کر تزکیہِ نفس اور انتہا درجے کی کمٹ منٹ کی لازوال مثالیں قائم کرتے ہوئے سینچا گیا تھا۔ محبت کی زبان غلامانہ زبان نہیں ہوتی مگر یہ آمرانہ بھی نہیں ہوتی ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مست کے یہاں ہر انقلابی آرڈیننس کسی فرمان کی صورت نہیںبلکہ شعر کی صورت نازل ہوا،برملا ،برمحل ،ببانگِ دھل و دنبورہ۔ مست تیرے مجسمے ،کولتار کی سڑکوں کے چوکوں پہ ایستادہ نہیں بلکہ احساس بھرے دلوں کی غزالی دھڑکنوں کے بیچ متمکن ہیں۔

ریفرنسز

1۔ سومرانڑیں، بختیار خان ۔۔۔۔ انٹرویو۔
2۔ خلیل، جبران ۔ النبی ۔ 1977۔ آئینہِ ادب، چوک مینار۔ انار کلی لاہور ۔ صفحہ 26

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*