پرست ۔۔۔ ڈاکٹر انوار احمد

 

اگر زندگی نمک پانی ریت سے ملے بے رنگ سے شیشے کی طرح ہوتی۔ مگر کیوں ہوتی۔رب دو جہا ن نے اس کائنات میں علم، محبت، عاشقی کے دیپ جلائے…… شہر ملتان کا دریچہ وا کرکے دیکھیں۔ تو ایک مقدس، معظم سی روشن مسند دکھائی دیتی ہے۔ جہاں ہمارے عالیٰ ذی وقار اساتذہ تشریف فرما دکھائی دیتے ہیں۔ محبت فاتح عالم ڈاکٹر انوار احمد‘ علم و ہنر کی جوت جگاتا…… دبستانِ نور۔

ایسے تو نہیں عشق تیرے ملتان کیساتھ

شمس کے شہر میں کچھ شمس نما رہتے ہیں

بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو کو اگر ایک کتاب تصور کیا جائے تو اس کتاب کا سرورق محترم سر انوار احمد ہیں۔ انسان اپنی آنکھ میں قید ہوتا ہے۔ سرورق کی آنکھ دولت گیٹ کے حیران زدہ بچے کی مقناطیسی چمکیلی آنکھ ہے۔ جو پیدا ہوتے ہی رشتوں ناتوں کے ہچکولے کھاتا سٹپٹا کر رہ گیا۔ مگر نانا حسین بخش کے پیار نے اس آنکھ کی حیرانی کو محبت کے دائرے میں منضبط کردیا کہ آج تک محبت کے دائرے نے حیرانی کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ 11جون 1947ء ملتان کے ایک محنت کش با تہذیب گھرانے میں جنم لیا۔ چوتھی جماعت کی ملوکڑی سی عمر میں یتیمی کی حالت میں 10 سالہ سرپرست پہ سفید رنگ کی نئی نکور دستار یتیمی ایسی سجی کہ تاثیر بھی روح میں سرایت کرگئی۔ جبھی تو میرے محترم اُستاد بھرا مجمع ہو یا نئی بھرپور کلاس کسی بھی یتیم کو پہچان کر اپنے دستِ شفقت کی دستار اس کے سر پہ رکھ دیتے ہیں۔ نانا حسین بخش نے اس گھرانے کی حفاظت اس طرح کی جیسے کوئی کسان اپنے کھیت کھلیان کو اُودھ بلاؤں کی ٹامک ٹوٹیوں اور چیل کوؤں کی یلغار سے بچانے کیلئے ہاتھ میں چھڑی لیے عارضی چھجوں اور پتلے بنانے کیلئے کوشاں رہا۔ اُستاد محترم کسی بھی شخص کا پہلی ملاقات میں ہی ”سچل سرمست“ ساخوش آمدید کہتے ہیں جو ان سے …… جڑگیا…… جڑ گیا…… جو مڑ گیا وہ تاحیات ان کی طرف مڑ مڑ کے دیکھتا ہی رہا۔ شعبہ اُردو میں داخلے سے پہلے ہی میں اپنے ایک کزن سے مسلسل ذکرِ انور سن کر حقیقتاً مرغوب ہوچکی تھی۔ مگر قطعاً اندازہ نہ تھا کہ اُستاد محترم کی آنکھ جام جمشید کے جم کے پیالے کی سی ہوگی جن کے توسط سے ہم دنیا بھر کا نظارہ کرسکیں گے…… علم کی دنیا کا …… ادب کی دنیا کا سچ مچ کی جلتی بھجتی دنیا کا۔ میرے لیے پہلے دن کمرہ جماعت! گویا البرٹ ہال میں ”ملتانی شکپیئر“ کی ڈرامائی کرشمہ سازیاں دم بخود کررہی تھیں۔ پہلی ہی کلاس میں سر انور صاحب تو مجھے بہت ہی اُستاد لگے۔ داستانِ باغ و بہار جادو نگری کے جادوگر کی آنکھ کا نظارہ بنی۔ نیئر نگی خیال، فلسفی و فکر ٹھوس دلائل بھاری الفاظ کی بجائے نرم و ملائم روانیاں لیے کیفیات بیان کرتے ہی چلے جاتے۔کبھی امراؤ جان ادا جھلملاتا سرسراتا آنچل اوڑھے ہمارے درمیان آدھمکتی۔ تو کبھی ہادی رسواء کی لمحاتی بوکھلاہٹ لطف دیتی۔ کبھی درزی کا لطیفہ معنی خیز ہوجاتاتو کبھی خیام کی رباعی سرور دیتی۔ محترم سر کی تدریس بارش کی پھوار کی طرح تیز دم، مدہم اور کبھی بس مطلع ابر آلود…… زندگی کی بے قراریوں اوربے ترتیبیوں کو مزاح کی لطافت پہ مسکاتی اور پرساز آنکھ سے مستند لہجے پر اختتام پذیر کرتے۔ اُستاد، ہجوم کو گروہ میں بدلنے کی نفسیاتی قوت کے مالک ہیں۔ وہ کلاس ہو یا کوئی محفل یا کوئی تقریب،شرکاء کی محویت کو ”یکساں آنکھ“ بناکر دکھ دیتے ہیں۔ اپنے اطراف موجود شاگردوں، دوستوں کو گرداب کی سی کیفیت سے نکال کر ساحلوں کی ہوا کی تازگی سے ہمکنار کرکے خوش دم کردیتے ہیں۔ حکمت بھرا مزاح ان کی شخصیت کا جلترنگ ہے۔ وہ اپنے شاگردوں میں بھی انداز فقیرانہ کی بجائے شاہانہ عاجزی پسند فرماتے ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد مایوسی کو اٹھکیلیاں نہیں کرنے دیتے۔ پیش قدمی ان کی خصوصی صفت ہے۔

خصوصاً زندگی کی ناہمواری میں جکڑے شاگردوں کیلئے ”جگنو اور بلبل“ کی نظم جیسی رہبری کی تمثیل بن جاتے ہیں۔

تخلیہ کسی بھی تخلیق کار کا لمحہِ تخلیق ہوتا ہے۔ تخلیہ خود کلامی کیفیت سے اظہار…… ایسے میں لمحہِ کرب کو لمحہِ طرب کی تخلیقی کو نپل میں ڈھالنے کے تمثال گرہیں۔ لمحہِ طرب کے راہی نے اپنے دکھ درد کو جذب کرکے آرزو مندی کے ساتھ خود بھی جینا سیکھا اور اپنے شاگردوں کو بھی سکھلایا۔

انسان کی زندگی میں رشتے آئینے کی طرح ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ رشتہ ادھورا اور آئینہ مکمل ہوتا چلا جاتا ہے۔ شیشے کے آر پار نظر آتا ہے جبکہ آئینے کو دیکھتے ہی آنکھ اپنی ہی آنکھ سے زنجیر زنی کرتی ہے تو پھر عکس پر ماتم زنی کے نشانات ثبت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے ہم نفس جانِ جاں …… دشمنِ جان سے جانِ زیاں بنتا ہی چلا جاتا ہے۔ ”یادگار زمانہ ہیں جو لوگ“ کتاب میں ہمسائی کا خاکہ پڑھنے کے بعد تیر کی طرح وار کرتا لفظ…… ہمسائی تو ہمسائی ہے جسے نہ تو بدلا جاسکتا ہے اور نہ ہی اغواء کیا جاسکتا ہے۔

بہر حال میری ساری ہمدردیاں قابل احترام ”محترمہ ہمسائی“ کیساتھ ہیں۔ میاں بیوی کا رشتہ غالب و مغلوب کا رشتہ ہے بیوی کا شوہر پہ ذہنی و جذباتی غلبہ…… اور مرد کا اپنی عورت پہ جسمانی، ذہنی، جغرافیائی اور آب و ہوا سمیت ہر طرح کا غلبہ۔ عورت اپنے محبوب کے دل پہ مالکانہ حقوق حاصل نہ کرپائے تو ہمسائی کہلاتی ہے۔جب بھی ان کے بارے میں لکھنا چاہا احساس کے آبگینے ان کی ہمسائی کی دیوار سے ٹکڑا کر کرچی کرچی ہوگئے اور یوں یہ کرچیاں میری آنکھوں میں کھب جاتیں جیسے غروب آفتاب سمے سمندر کے تھکن زدہ پانیوں پہ ہلکورے لیتی بنا پتوار کشتیاں …… کیونکہ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ انتظار کے پھڑ پھڑاتے پرندے کو صبر کے تابوت میں قید کرتے سمے جاں لبوں تک آہی جاتی ہے۔ اُستاد محترم نے حقوق العباد کے چلے کاٹ کاٹ کر…… کاٹ کاٹ کر یہ رائیگانی کما ڈالی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ بظاہر عائلی قوانین کی دفعہ نمبر ”Love U 2“ کی خلاف ورزی ہے مگر دراصل یہ دل و جاں کی اسیری ہی اسیری ہے جبھی تو اپنے دادا کے ”رلدّو‘ آستانہِ نشاط“سے ماحولیاتی حدود کی خلاف ورزی کے متحمل نہ ہوسکے۔ بقول خسرو۔ تاب ہجراں ندارم……! شعبہ اُردو میں اُستاد انوار احمد کے رفیق اور ہمارے استاد سر عبدالرؤف شیخ علمی وجدان کے پیامبر ایک ”آگاہ“ انسان تھے۔ محترم سر عبدالرؤف شیخ کے تو جہان ہی سر انوار تھے جبکہ سر انور صاحب تو ٹھہرے جہاں گرد……! اُن دونوں رفقاء کے مابین نفسیاتی، جذباتی اور قلبی گھپاؤں نے جہاں گردی کی مکمل آگہی حاصل کرلی تو ایک ”چھنا کہ“ سا ہوا جس میں ملول سے سر رؤف اور ”سجن بے پرواہ“ سے سر انوار برآمد ہوئے…… صد افسوس ہمارے استاد سر رؤف صاحب تاریک راہوں میں مارے گئے…… مگر جاتے جاتے تاسف کا ایک پھپھولہ اُستاد محترم کی ہتھیلی پہ دھر گئے۔ مگر دوستو! اُستاد محترم اے بی اشرف جیسے عظیم اُستاد نے اپنے سقراطی جملہ ساز شاگرد اعظم کے اندازِ دلبرانہ کے بارے میں فرمایاکہ ”انوار اپنے دوستوں کو ان کی موت کے بعد بھی منا لینے کا ہنر جانتا ہے!

اُن کی اضافی خوبی ان کا فیاض ہونا ہے کسی بھی تہی داماں کی مخبری کو بشارت اور التجاء کو سعادت سمجھ کر ضرورتمند کی ”پوری پڑنے تک“ حیلہ بھی کرتے رہتے ہیں اور وسیلہ بھی!

فیس بک کے روزانہ کے متحرک رابطے پہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سر سبز و شاداب باغیچہ میں ہری بھری چھاؤں میں سویرے سویرے رنگ بہ رنگے پروں والے تیتر، بٹیر، فاختہ، مینائیں اور مورنیاں پھریریاں بھرتے پرندے منتظر ہوتے ہیں کہ باغبان بالکونی میں جلوہ افروز ہونگے اور کب کوکونٹ Coconut – Cokies جیسے خستہ نثرپارے…… اور وطن عزیز کی نبض شناسیاں دانے دنکے کی صورت عطا ہوں گی۔ اُستاد 18 کتابوں کے تخلیقار ہیں خاکہ نگاری کی کتاب براہ راست تخاطب سے جملہ در جملہ کتاب ششدر کردینے والے جملوں سے مزین ہے۔

اُردوافسانہ ایک صدی …… ایک بلند و بالا کتاب ہے۔ اُستاد سرائیکی شعبے کے ڈائریکٹر رہے۔ انقرہ چیئر پہ فائز رہے۔ 2 سال جاپان جیسے مشینی ملک کے شہراوساکا میں ”اُردو سازی“ کی گراریاں فٹ کرتے رہے۔ ستارہ امتیاز بھی ملا۔ ایمرسن کالج سے وابستگی کو فخر گردانتے ہیں تو ایمرسن کالج کا بھی آپ فخر ہیں۔ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے فعال سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ترکی جیسے رومان پرور ملک میں اُردو ادب کی ایسی پوجا پاٹ کی کہ آج تک انقرہ شہر کے مندروں سے نقرئی گھنٹیوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔

مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشیں رہے۔ سیالکوٹ میں گجرات کیمپس کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض سنبھالے۔ علامہ اقبالؒ کی والدہ ”امام بی بی“ کے نام سے شکالر شپ کا اجراء کیا۔ میرا دعویٰ ہے محترم سر By Birth یہودی کی طرح سرائیکی ہیں اور سرائیکی ہی رہیں گے اُردو ادب کے عظیم اُستاد اور اُردو زبان کے متوالے ہیں؟ سالوں سے بابا فرید ؒ کے من پسند شاعرانہ حوالے ”پیلوں“ اور ثریا مولتانیکر کی گائیکی کی لذت آفرینی سے جڑے ”پیلوں“ میگزین میں اُردو، پنجابی، سرائیکی اور ہریانوی زبان کے لکھاری قاری اور پجاریوں کو ”آچنوں رل یار“ کی دعوت عشق دیتے رہتے ہیں۔

قصہ مختصر…… میرے اُستاد محترم کا نام ”انوار احمد“ نہ ہوتا تو پرست ہوتا۔ وہ سچ مچ کے پرست ہی تو ہیں ملتان پرست، کتاب پرست، اُردو پرست، سرائیکی پرست، انسان پرست، دوست پرست، یار پرست، دشمن ِجاں پرست اور کبھی کبھی دلدار پرست!۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*