سیاسی کارکن اور مایوسی؟

ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنے سیاسی احباب کومایوسی میں ،سماج کے سکوت اور جمود کی شکایتیں کرتے سنتے دیکھتے ہیں ۔ اور وہ سچ کہتے ہیں ۔ آپ سو سال قبل انگریزوں کے خلاف بلوچ مبارزین کے رپورٹر شاعر رحم علی کا سماج دیکھیں ، اور آج کی حالت دیکھیں ایک صدی میں سماج سیاسی طور پر ایک ملی میٹر بھی آگے نہ گیا ۔ لگتا ہے کوانٹٹی کوالٹی میں ڈھلنا ہی بھول گیا ہو ۔

جو لوگ سماجی ترقی کی راہ کو ہموار بنانے کی کوشش کرتے کرتے مرگئے ، سو امر ہوگئے ،خواہ نامور لوگ تھے یا گمنام سپاہی ۔ اور پھر بہت سارے لوگ دیو ہیکل پتھر کو ہٹانے ہلانے میں ناکام ہو کر دل برداشتہ ہوئے اور کونے میں بیٹھ گئے ،یا مخالف کیمپ میں شامل ہوئے ،اُن کی مایوسی بھی سمجھ میں آتی ہے ۔

مگر جو سخت جان نیک لوگ ابھی قلعہ خالی نہیں کر گئے وہ تو بہت ہی معزز و محترم لوگ ہیں ۔ اُن کی طرف سے بہ یک وقت امید اورمایوسی میں گندھی گفتگو یکدم مسترد کرنے کی نہیں ہوتی ۔ ان کی باتیں اس لیے مستند ہیں کہ وہ مورچے کے اندرسے آتی ہیں ۔ مالک ِمکان بول رہا ہوتا ہے ۔ سفرکے راہی کاسچ ہوتا ہے یہ ۔

تاریخ میں مصلح، خیر خواہ اور بشر دوست لوگ آج سے نہیں سینکڑوں ہزاروں سالوں سے موجود رہے ہیں ۔ وہ بھی سماج کے بڑے خاموش اور کمزور کردہ اُس حصے کو سیاست میں حصہ دلانا چاہتے تھے جنہیں حکمران گروہ نے ریاستی سیاست سے خارج کر رکھا ہوتا تھا ۔ سب کامیاب ہوئے کیا ۔ سب نے اپنی زندگی میں اپنی تعلیمات کی کامیابی دیکھی کیا ؟ ۔ نہیں ۔ اس لیے کوئی صلیب چڑھا، کسی نے خود پہ مذاق برداشت کیے ،اور کسی نے زہر پیا ۔ بہت عرصہ بعد کہیں جاکر سماج نے انہیں سچا قرار دیا اور اپنی سمت درست کرلی ۔

دراصل ،سماج کوئی مفعول پالتو جانور نہیں ہوتا کہ دُم ہلاتے ہوئے سیٹی کے پیچھے فوراً چل دے ۔ سماج توکھٹور جانور ہوتا ہے ۔ اپنی ضرورتوں کو نقارے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے دیکھے تبھی حرکت کرتا ہے ۔ عام تصور کے برعکس ،سیاست توحتیٰ کہ اپنے ضروری ضرورت یعنی معاشیات کی بھی آٹو میٹک انداز میں تابعداری نہیں کرتی ۔ حالانکہ گذشتہ ایک سو سال سے کماڈٹی نامی بھوت ،خون کے پیاسے اپنے دیوتاءوں کے ساتھ ،سماج کے سب سے متحرک حصے (مڈل اور لوئر کلاس) پر مسلسل حملہ آور ہے ، مگر ہم پرومیتھی اَس کی طرح اگلی صبح پھر ڈھانچے سے گوشت پوست میں بدل جاتے ہیں تاکہ کماڈٹی اور اس کے خونیں کرگس اُسے شام تک نوچ کر ڈھانچہ بنادیں ۔

سو سال سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔ یوسف عزیز مگسی سے لے کر کمال خان شیرانی تک کتنے مصلح ، مبلغ ،اور انقلابی آئے ، زندگیاں ٹی بی تھوکتے گزریں مگر سماج کو نہ بدل سکے ۔ زی ;207;اَس کا گِدھ بار بار لوٹ آتا ہے ۔ کبھی بھٹو کے منہ بولے ایوب کی صورت، کبھی نواز شریف کے مربی ضیاء الحق بن کر ، اور کبھی بغل میں کتے اٹھائے مشرف کی شکل میں ۔ اور کبھی تو بالکل نامعلوم شکل وصورت کے ساتھ ۔ یہ لوگ وہی باتیں دھرا کر سماج کو لوریاں دیتے چلے جاتے ہیں جو ان کے اقتدار والے آباو اجداد دیا کرتے تھے ۔ تبدیلی چاہنے والے یوسف عزیز اور صمد خان پہ جو الزامات لگے تھے، بعین ہی وہی الزامات بزنجو اور فیض پہ لگے ، اور وہی سدابہار فقرے دہشت کے راج والے موجود ہ دور میں اُن کے پیروکاروں پر لگائے جار ہے ہیں ۔

وہی ہے حال بے ڈھنگی ، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔ تو کیا سچ بولنا چھوڑدیا جائے ؟ ۔ نیکی والے سماج کے قیام کی کوشش ترک کردی جائیں ۔ انسانی تاریخ میں اچھے لوگوں کے تاریخی کاروان سے علحدگی اختیار کی جائے ؟

نہیں ۔ ایسا کرنا نہ صرف سائنسی طور پر غلط ہے بلکہ یہ تو دھج کو سلامت نہ رہنے دینا ہے ۔ ایسا کرنا انسانی وقار کے خلاف ہے ۔ زخم دکھاتے رہنا اور کچھ نہ کرنا اپنے ضمیر کی توہین ہے ۔

ہاں ، ضرورت دو باتوں کی ہے ۔ ایک : یہ آدرش برقرار رکھنا کہ ’’ظلم سے پاک معاشرے کا قیام ممکن ہے ‘‘ ۔ اور دوئم: یہ کہ اپنے قول وفعل کوسماجی ضرورت سے ہم آہنگ کیے ہوئے آگے بڑھتے رہنا ۔

دوسرے ممالک میں تبدیلیوں کی مثالیں دیتے وقت ایک بات یاد رکھنے کی ہے ۔ کسی بھی دو ملکوں کی سیاستیں ہو بہو ایک طرح نہیں ہوتیں ۔ انقلابات ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہونے کے باوجود بہت مختلف ہوتے ہیں ۔ ہر انقلاب کا اپنا مزاج ہوتا ہے، اپنی اپنی سست یا تیز رفتاریاں ہوتی ہیں ۔ اُن کی جیومیٹریاں تک مختلف ہوتی ہیں ۔ بظاہر ایک ہی پس منظر میں دیکھیے تو ایک انقلاب سیدھی لائن چلا تھا مگر دوسرا انقلاب وہیں موڑ کاٹ گیا ۔ ایک کی قوتیں متحد ہوکر کامیاب ہوئیں ، دوسرا دو میں اور پھر دس میں تقسیم ہوگیا ۔ ہرانقلاب کے راستے اپنے اپنے گرہوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ اپنے اپنے واقعات سے حاملہ ہوتے ہیں ۔

وسطی اور جنوبی ایشیا کے ہمارے سماج ایک بہت ہی دلچسپ مرحلے سے گزر رہے ہیں ۔ یہاں ہر طرح سے ، اور بہت احتیاط سے تبدیلی کا ہر دریچہ بند کر دیاگیاہے ۔ اور اُن دریچوں میں سب سے اہم عوام کی سیاسی پارٹی ہوتی ہے ۔ اسی لیے ہر طرح سے اُس پارٹی کے تصور ، اُس کے بننے ، منظم ہونے اور عمل کرنے کی راہیں سمینٹ کی جاچکی ہیں ۔ سیاسی عمل میں غیر سیاسی مداخلت تسلسل سے جاری ہے ، ریاستی سطح پہ روایت وفرسودگی کے احیا کی کوششیں استقامت کے ساتھ جاری رہی ہیں ، اور ہر فاشسٹ طرز کو گلوری فائی کیا جاتا ہے ۔

لہذا مایوسی فطری ہے ۔ چاروں طرف سے ، اور آٹھوں پہرہم ہر دانشور سے ایسی باتیں سنتے رہتے ہیں ۔ نہ صرف یہاں بلکہ خود مغرب میں بھی ۔

مگرہم ایک بات بھول جاتے ہیں ۔ ارتقا یاتبدیلی ایک متعدی مظہر ہے ۔ ہر مظہر کی داخلی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اُس کے اندر تبدیلی نامی اس خوشبونے پھیلنا ہے ۔ اس کا ایک راستہ بند کرو، یہ دوسرے راستے سے پھوٹ پڑتا ہے ۔ اگر آپ اس کے سارے روایتی راستے بند کردو تو یہ غیر روایتی راستوں سے کِھل اٹھتی ہے ۔ اور کبھی کبھی تو ایسے راستوں اور طریقوں سے کہ خود اس تبدیلی کے لیے کام کرنے والے لوگ حیران رہ جاتے ہیں ۔ تبدیلی غیر متوقع ترین واقعات برپاکرجاتی ہے ۔ اس لیے کوئی نہیں جانتا کہ کونسی چنگاری کس جگہ سے ، اور کب ،شعلے بھڑکا دے گی ۔

ہم شاید اپنا رول بڑھا چڑھا کر جتا رہے ہوتے ہیں ۔ انقلاب کون لاتا ہے : فرد یا عوام؟ ۔ جی بالکل عوام تبدیلی یا انقلاب لاتے ہیں ۔ مگر کب ؟ ۔ میری آپ کی فرمائش پر ؟ ۔ نہیں ۔ اُس کی اپنی ضرورت کے وقت ۔ اُس وقت جب مہنگائی ، بے روزگاری ، سیاسی سماجی گھٹن اُس کی برداشت سے باہر ہو جائے ۔ یعنی جب نچلے طبقات پرانے طرز سے مکمل بیزار ہوتے ہیں ، اور بالائی حکمران طبقات پرانے نظام کو برقرار نہ رکھ سکتے ہوں ،اُس وقت ۔ ۔ یعنی جب ایک مکمل قومی بحران پیدا ہوجائے ۔ اس سارے عمل میں سیاسی ورکر عوام کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے ۔

ایک اگلی شرط ہے انقلابی سیاسی پارٹی کی مضبوطی ۔

دانشور اور سیاسی ورکر تو یہ سب کچھ کرنے میں ، مدد دیتا ہے ۔ نچلے طبقے کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یہ ہے اُس کا اصل کام ۔ نہ کم نہ زیادہ ۔

لہذا مایوسی اپنی جگہ ،مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سماج کے جدلیاتی قوانین ہمارے مزاجوں کے اتار چڑھاءو کے محتاج نہیں ہوتے ۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے ماڈرن اور سائنسی اصولوں کے ساتھ ساری ممکنات کو برانگیخت کرنے کا کام جاری رکھیں ۔ عوام الناس کے ساتھ رہتے ہوئے اُسے جامع طور پر تیار کرنے اور انہیں سارے اوزاروں سے لیس کرنے کا کام جاری رکھنا ہوگا ۔

طبقاتی سیاست والے کارکن اور دانشور طبقاتی سیاست کے سٹریٹجکل آپریٹر ہوتے ہیں ۔ وہ تضادات کو تیز کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ۔ انہیں اس فریضے سے چشم پوشی کا کوئی حق نہیں ۔ انہیں اپنا یہ رول ترک کر کے ہر طرف بھاگتے رہنے کا وطیرہ بدلنا ہوگا ۔ آج کا دانشور اس لیے کنفیوز اور مایوس ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہوتا ہے ماسوائے اپنی جگہ کے ۔ اُسے اپنی معین جگہ چھوڑنے کا کوئی حق نہیں ۔ نہ اخلاقی اور نہ سیاسی ۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*