جوانسال بگٹی

دنیا میں جس نے سٹیٹس کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ دو قسم کے رویے روا رکھے گئے۔ پہلی تو یہ کہ اس کو کافر ، ملحد ، زندیق ، غدار وغیرہ قرار دے کر سولی پر چڑھایاگیا یا سنگسار کیا گیا۔ اور دوسرا رویہ یوں ہوا کہ سٹیٹس کو چیلنج کرنے والا شخص سماج سے مڈبھیڑ کرنے کے بجائے سماج میں ہی رہ کر اس کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے لگا۔ یوں وہ خود تو سماج کے قہر سے محفوظ رہا لیکن سماج نے اس کی تعلیمات سے بچنے کے لیے اس کی شخصیت کے خول میں پناہ لینا بہتر سمجھا۔ یوں وہ ایک طرف تو اسے ولی ، بزرگ اور پہنچے ہوئے سمجھنے لگے لیکن دوسری طرف اس کی تعلیمات کو یکسر خاموشی سے جھٹلاتے رہے۔
جوآں سال بگٹی کو بھی یہی دوسری صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ جوآں سال نے جب قبائلی زندگی کی ناہمواریوں اور فریب خوردہ سماج کو اس کی غلطیوں پر ٹوکنا شروع کیا تو سماج اس کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بجائے اس کی شخصیت کے خول میں چھپنے لگی۔ لوگوں نے یہ تو کہنا شروع کیا کہ جوآں سال فقیر ہے، اولیاءہے۔ فلاں کرامت دکھائی۔ لیکن اس کی تعلیمات کو جو سماج کی مجموعی بھلائی کے لیے تھیں ، یکسر قبول کرنے سے انکار کیا۔
سندھ میں شاہ لطیف کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ شاہ صاحب نے جب شاہ عنایت شہید کی شہادت کے بعد جب سماج کا باریک بینی سے مطالعہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ شاہ عنایت کی طرح ٹکر نہیں لے سکتا۔ تو اس نے اس بوسیدہ سماج کو جھنجھوڑنے کے لیے انقلابی شاعری شروع کی
سماج نے اس کی تعلیمات قبول کرنے سے تو انکار کیا البتہ اس کی شخصیت کے خول میں پناہ لیتے ہوئے اسے ولی درویش اور صوفی پکارنا شروع کیا۔
اگر جوانسال کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کی شاعری میں صوفیانہ کلام کم مگر سماج کو اس کی غلطیوں پر جھنجھوڑنے والی شاعری زیادہ ہے۔
وہ جب موت اور قبر کی ہولناکیوں کا تذکرہ کرتا ہے تو لوگوں کو ان کے برے اعمال کا انجام یاد دلا کر برے کاموں سے روکنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ جوانسال ایک مصلح اور انقلابی شاعر تھا۔ وہ سماج کی تمام پرتوں میں بنیادی تبدیلیاں لاکر ایک خوبصورت اور پرامن سماج کی تشکیل چاہتا تھا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*