اینٹی کلائمیکس

کالے کوے کائیں کائیں کر کے
سوچ کے پنچھیوں کو اُڑاتے رہتے ہیں
اور مہا کالی آندھیاں
خیال کے خون سے ہونٹ رنگتی رہتی ہیں
احتجاجی آواز دستور زمانہ کے مُطابق
سولی پہ لٹکا دی جاتی ہے
یا کسی نا معلوم قبر میں گاڑ دی جاتی ہے
آواز کے قتل کا
خود ساختہ شعور سارا تماشہ دیکھتا ہے
مگر بزدلوں کی طرح انجان بنا
اپنی پناہگاہوں میں چُھپا رہتا ہے
مگر ذرا ٹھہرو
یہ کلائمیکس نہیں اینٹی کلائمیکس ہے
کہ غزالانِ دشت
مجنوں کے مرنے کی کہانی
ہمیشہ یاد رکھتے ہیں
چراغ بُجھ بھی جائے تو
سوچ اور خیال کبھی نہیں مرتے
منصور ہر دور میں جنم لیتا ہے
اَن اُلحق کی کہانی دُھراتا ہے
وقت کے جبر کے آگے سر نہیں جُھکاتا
اور نئے سرے سے
پُرانی کہانی رقم کرتا ہے
کیا ہوا گر وہ پالنے میں ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*