نظم

جب احتجاج کرتے میرے ہم وطنوں کا ہجوم گزر چکا
تو میں نے اس جگہ کی مٹھی بھر مٹی اٹھا لی
مٹی میرے ہم وطنوں کے آنسوو¿ں سے نم تھی
جہاں جہاں سے وہ گزرے تھے
وہاں وہاں
اک اک زرّہِ خاک میں وہ اپنا دکھ چھوڑ گئے تھے
میں نے اس نم مٹی کو گوندھا
اک شبیہہ بنائی
وہ بلکل ایسی ہی نکل آئی جیسے میرے ہم وطنوں کے چہرے
میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے
اپنے حصّے کی آدھی سانس اسے دی
اس نے اک گہری سانس بھری
اور میرا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑا ہوا
چل سکھی!
احتجاج کرتے ہم وطنوں کی خاکِ پا مٹھی بھر بھر اٹھاتے ہیں
وطن کی مٹی سے کئی اور ہم وطن بناتے ہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*