جلتی کُڑھتی نظم

میرے پاؤں دوکمروں کے درمیان
رات دِن مسلسل چکراتے رہتے ہیں
تمہارا کمرہ اور میرا کمرہ
خیال اُس خیال سے چِڑتا ہے جھگڑتا ہے
جب وہ خود کو تمہارے کمرے میں کہیں نہیں پاتا
ماتھے کی شکنوں میں اضافہ چُپکے سے کہتا ہے
وقت کے ساتھ بہت کُچھ بدلتا ہے
اور سوچ اُس سوچ پہ تلملاتی ہے
کہ تمہاری کسی سوچ میں اس کا گزر تک نہیں ہے
پھر وہ تمام نظمیں جو تمہارے لیئے لکھتی رہتی ہوں
سورج کی طرح سوا نیزے پہ آ کر
آگ کی برسات کرتی ہیں
دھوئیں کے بادلوں میں گھرے وجود سے
لپٹیں نکلتی ہیں
بستر کاٹنے کو دوڑتا ہے
تو گھبرا کر میں بستر چھوڑ دیتی ہوں
اپنی بے چینی اور تمہاری یاد کا تکیہ سنبھالے
ننگے فرش پہ بیٹھ کر
رات بھر اپنے ہونے پہ کُڑھتی ہوں
اور یہ سوچتی ہوں کہ
میں یہاں ہوں نہ وہاں ہوں تو پھر کہاں ہوں؟

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*