آکٹوپس

ماحول میں عجیب سے بو رچی تھی ،نئی قسم کی جراثیم کش ادویہ کا چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا انہیں امید تھی کہ وہ جلد ہی اسے سدھا لیں گے
وہ سب اکھٹا ہو کر دعاؤں میں مصروف ہو گئے
گروہ در گروہ اپنے اپنے انداز میں اندیکھے دشمن سے نمٹنے کے لئے اپنی روحوں کو صیقل کرنے کے ہتھیار اٹھائے آگے بڑھ رہے تھے
اذانوں کی آوازیں آ رہی تھیں
کہیں گرجا گھروں کی گھنٹیاں بجائی جا رہی تھیں
پوتر پانی میں غوطے لگانے والے پوری طرح تیار تھے
کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ بے ضرر چیونٹیاں کھا کر گزارا کرتا تھا چند دن پہلے ہی ایک ویران جزیرے سے نکلا اور اب کسی آکٹوپس کی طرح لجلجاتا بل کھاتا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا ایک سے دس اورپھر سو سے ہزار کی گنتی پوری کرتا مسلسل تقسیم در تقسیم تھا اتنی تیزی سے سروں کو جکڑتا ، چھلانگیں لگاتا ہوا پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوتا جا رہا تھا-
اب تو اس کے تیور پہلے سے کہیں زیادہ خطرنا ک تھے –
کسی نے کہا صرف بوڑھے آدمیوں کو کھاتا ہے
کچھ اسے خیالی ہیولا سمجھ رہے تھے
وہ مطمین تھی
ابھی تیس سال ہی کی تھی – چھوٹا بھائی تو اس سے بھی پانچ سال چھوٹا تھا
احتیاط کا دامن تھامنے کی کیا پڑی ۔ میلے ٹھیلوں سے لطف اندوز ہونے کے دن یہی تو ہیں
پھر
غم کی پہلی ضرب لگی گو کاری تھی بہت پر جھیل گئے وہ۔۔
امی ۔۔۔۔ دو دن پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے دفن کر کے آیا تھا –
پتا ہی نہیں چلا کب وہ اس کے پھپھڑوں کو کھانے لگا
وہ ہواؤں میں تیر چلا رہے تھے کوئی نظر نہیں آ رہا تھا مگر اس کے کاری وار انہیں بے حال کرتے جا رہے تھے
آنا ً فانا ً سر سے پاؤں تک پلاسٹک کے تھیلوں سے بنے ملبوس میں خلائی مخلوق دکھائی دینے والے کچھ ہیولے اس کے سر پر کھڑے تھے –
کہیں سے آواز آئی
یہ آخری دور ہے اس کے آگے کچھ نہیں –
اسے لگا کلمہ پڑھ لے فرشتے لینے آ گئے ہیں
اس کی بند ہوتی آنکھوں اور کانوں کی درزوں سے ہوا کا ارتعاش کچھ اور کہہ رہا تھا –
ہم تمہیں ہسپتال لے جانے آئے ہیں – لیکن ہسپتال میں تو کوئی وینٹی لیٹر ہی نہیں آکسیجن کے ٹینک خالی پڑے ہیں –
انہیں آپ کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں –
حفاظتی غلاف والے جیسے بے جان گڈوں میں تبدیل ہو گئے ان کی ساری محنت اکارت چلی گئی تھی –
اس نے خود ہی ہمت کی کانپتے ہاتھوں سے فون تھاما – آنکھیں بوجھل تھیں اور سانس رک رک کر آ رہی تھی –
سوشل میڈیا پر اتنے چاہنے والے ہیں کوئی تو مدد کرے گا – لرزتی انگلیوں سے لکھا
کوئی ہے جو مجھے بتائے ، ایسے ہسپتال کا پتا، جہاں آکسجن مل جائے مجھے سانس نہیں آ رہی ہے –
بے ربط سانسوں کے درمیان ایک پل سکون کا ڈھونڈنے کی کو شش کی – زور لگا کر آنکھیں کھولیں
کوئی کمنٹ نہیں آیا
البتہ لائیک کرنے والے مسلسل ٹسوے بہاتی اسمائیلی بھیج رہے تھے –
دوسرے دن
اس کے جنازے میں کندھا دینے کے لئے وہی چار پلاسٹک کے گڈے نما انسان آگئے تھے – وباء سے مرنے والوں کو ٹھکانے لگانے کی بیرون ملک سے خصوصی تربیت لے کر آئے تھے –
افسوس اور دعائے مغفرت کے کمنٹس کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں پہنچ گئی –
ہجوم پہلے سے بھی زیادہ جوش سے پوتر پانی میں اتر رہا ہے ان کے نعروں میں تیزی آ چکی ہے
سڑکوں پر ایک دوسرا ہجوم جن کے سر پر دستاریں ہیں – ڈنڈے اور لاٹھیاں لئے اپنے اوپر ہی وار کر رہا ہے –
اندیکھا آکٹوپس اب لا تعداد بازؤوں والا عفریت بن چکا ہے – جوں ہی کوئی مرتا ہے اس کے جسم پر ایک اور بازو کا اضافہ ہو جاتا ہے جو میلوں پر پھیلتا جا رہا ہے –

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*