بلوچی لوک کہانیاں اور متھ

انسان جو ازل سے نیچر کے ساتھ دست و گریباں ہے ۔ اپنے علم و تجربہ اور انتھک جدوجہد سے قدرت کے سر بستہ رازوں کو عیاں کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔
علامہ اقبال نے کہا
” تو شب آفریدی چراغ آفریدم“
شب تاریک کو شکست دینے کے لیے ” چراغ آفریدم “ کے سفر میں انسان نے نہ جانے کب یہ محسوس کیا کہ نادیدہ قوتوں نے اس کی کاوشوں اور یقینی کامیابیوں کو ناکامی اور زندگی کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے ۔ نہ جانے عقل و ادراک اور تحقیق و جستجو کے کس مرحلے میں یہ بات اس کے لیے ناگزیر ہوگی کہ ان نادیدہ قوتوں کی آشیر واد حاصل کیے بغیر ، فطرت کی سختیوں سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ تجربے نے نہ جانے کب اسے ”دار وسون “ یا ”شرک وپال“ پر یقین دلا کر ان قوتوں کو خوش کرنا سکھایا ۔اس عمل کے دوران انسان نے نہ جانے کیا کیا تجربات کیے ؟ کن کن مشاہدات کا صدیوں تک مطالعہ اور فطرت کی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے کن کن عقائد ، مذاہب اور Mythsکا سہارا لیا ؟ انسانی تحقیق اب تک ان سوالوں کے حتمی جواب تک نہیں پہنچ سکا۔
یوں بھی آثار قدیمہ کی زبان سمجھی جائے تو معلوم ہو کہ نہ جانے اس روئے زمین پر کتنے اقوام آئے ۔ اپنے اپنے ادوار میں اُوجِ ثریا کو چھونے کے بعد قعر مذلت میں گم ہوگئے ۔ زبانیں ، جنہوں نے ایک عہد ( عصر ) تک راج کیا ۔ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور آج ان کا ایک بھی بولنے والا باقی نہیں رہا، مذاہب نے کہاں کہاں کیسے راج کیا؟
اپنے اپنے عقیدوں پر یقین کامل رکھنے والے ( کہ وہی نادیدہ طاقتوں کے پسندیدہ ہیں) وقت کے سمندر میں غرق ہوگئے اور آج امن کا ذکر کبھی لفظ ”شاید “ سے شروع ہو کر ” ہونگے “ کے غیر یقینی صیغے پر ختم ہوتی ہے ۔
میتھ ” Myth“ کے بارے میں انسا ئیکلو پیڈیا میں لکھتا ہے ۔
Myth means One Concerning the early history of a people or explaining some natural or social phenomenon, and typically involving super natural beings or events, unfold part of the world, view of a people or explaination of a practical belief .
Myth consists of a people’s asumed knowlegde about the universe and the natural and super.natural worlds and humanitys place in these worlds.
مشہور محقق اور دانشور سید سبط حسن کا خیال ہے کہ تمام تر Mythیا عقیدے اور واہمے دراصل ابتدائی غاروں میں رہائش کے زمانے میں (Hunting and gathering society)میں شروع ہوئے ۔ جس غار میں شکار کا گوشت رکھا جاتا ہے ۔ اور ضرورت کے مطابق سب میں تقسیم ہوتا تھا ۔ اس غار نے ایک زمانہ گزرنے کے بعد عبادت گاہ اور تقسیم کرنے والے نے پہلے (دینے والا ) اور پھر پالنے والے کاروپ دھار لیا ۔ اس پروہت سے خوراک حاصل کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اور سلیقے عاجزی اختیار کی گئی اس نے عبادت کی شکل اختیار کرلی۔
پھر ایک دور ایسا بھی آیا کہ انسان نے ”خوف“ کو پوجنا شروع کیا جسے ماہرین علم المذہب fear worshiping periodکا نام دیتے ہیں ۔یہ ناگ دیوتا ، گالی ماتا ، کالی ماتا، وغیرہ اسی دور کے Mythہیں ۔بابلی تہذیب پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو کہ ان نادیدہ قوتوں کو خوش کرنے کے لیے صرف سومیر میں ڈھائی لاکھ لوحیں نکلی ہیں۔ جن کا بڑا حصہ، گیتوں ، دعاﺅں ، اور داستانوں پر مشتمل ہے ۔ (سبطِ حسن)
نہ جانے ان تمام تجربات کے ساتھ ساتھ انسانی اعضا کی پرستش مصر بابل اور ہندوستان میں کب تک رائج اور کب انسان نے نا معلوم بلندیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر رحمت یزداں سے مددطلب کی ؟۔ یہ سبھی تقریباً وقت کے قبرستان میں دفن وہ سوالات ہیں کہ جن کا کھوج لگائے بغیر شاید مذاہب اور واہموں کی اصل تاریخ معلوم نہ ہوسکے گی۔
الغرض دنیا کی تمام اقوام کی طرح بلوچ بھی ایک مخصوص Mythologyرکھتے ہیں۔ بلوچ بھی ایک عہد کے تجربات اور مشاہدات پر کامل یقین رکھتے ہیں ۔یہ تحقیق اور ریسرچ کا عہد ہے ۔ بلوچ معاشرے میں موجود مختلف Mythsاور عقیدوں نے صدیوں کے تجربات اور مشاہدات کے بعد آہستہ آہستہ Normsکا مقام حاصل کر لیا اور پھر یہ Normsبعض موقعوں پر مذہب سے زیادہ مضبوط ہوگئے ۔
بلوچی ادب کی فوک داستانوں اور دیومالائی قصوں (گیدی قصوں) میں بھی Mythنے اہم رول ادا کیا۔ اس سلسلے میں اولین کا وش جناب ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ کی ہے ۔ جنہوں نے بلوچی دنیا کے ” شرک و پال “ تحریر میں لاکر تحقیق اور جستجو کے نئے دروا کیے ۔ ڈاکٹر صاحب نے تمام بلوچ علاقوں کے مختلف متھ Mythجمع کئے اورانہیں خوبصورتی سے کتاب کی شکل دی ہے ۔
ڈاکٹر عبدالبصور بلوچ چیئرمین بلوچی ڈیپارٹمنٹ یونیورسٹی آف بلوچستان اپنی کتاب ” شرک وپال“ میں لکھتے ہیں۔
” ان شرک وپال (Myth) کو سامنے لانے کا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ مسترد شدورسومات کو دوبارہ زندہ کیا جائے ، البتہ ان کی مدد سے بلوچ راج کے مختلف ادوار میں عقائد اور ایمانات کو محققین کے سامنے لایا جائے ۔ جس سے ان خانہ بدوشوں کی طرز زیست اور سوچنے کے انداز کو سمجھنے میں آسانی ہوگی“۔
جناب ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ نے جن رسومات اور Practicesکو ” شرک وپال“ کہا اور انہیں یقین یا عقیدہ کی بلندی سے نیچے اتارا ان کے بابت مشرقی بلوچستان کے شاعر اور دانشور اللہ بشک بزدار فرماتے ہیں:
”شاں وختا پیشا کہ مئے جہانے “
شے داروسون آں یقیں سِذغ بی
یا عشق زانت ئے چراجنغ بی
جناب اللہ بشک بُزدار اُن Beliefکو نہ صرف اہم گردانتے ہیں بلکہ سماجی اور معاشرتی سٹیٹس کو ” ٹھہراﺅ“ میں Mythاور ” داروسون“ کو ایک اہم ستون تسلیم کرتے ہیں ۔ بزدار کا خیال ہے کہ ہمارے پاس یہی موہوم سہارے تو ہیں۔ جب تک کہ ہم یورپ کے اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں معاشی ترقی کی منزلیں حاصل کرلیتے ۔ ہمیں ان Mythsکی قدم قدم پر ضرورت رہتی ہے ۔ جن سے ہمیں ”جھوٹی سی “ تسلی اور اطمینان تو حاصل ہے ۔
بلوچی ادب کی فوک کہانی بھی ایک خاص معاشرتی Myth کے زیر اثر تخلیق ہوتی ہے ۔ کہانی بیان کرنے اورکہانی بنانے کے بارے میں مشہور ہے کہ :
Story telling, is the most earliest literature of human being . At first is was the efforts of women to entertain their kids and make them sleep in endless winter nights.
ہاں ، درست ہی ہے کہ ”ماں “ سے جو قربت ہے وہ دراصل لولیوں ، دعاﺅں اور نہ ختم ہونے والی سردیوں کی راتوں میں سحرانگیز اور خوب آور کہانیوں کے سبب ہے ۔ ان کہانیوں نے شروعاتی ادوار میں تفریح کی ضرورتیں پوری کی ہیں۔ اور پھر مائتھالوجی کے زیر اثر اصلاح معاشرہ کا بیڑا اٹھایا ۔ یہی نہیں بلکہ بلوچی ادب کے اس تُبر کو زیبائی اور گہرائی بھی اسی متھالوجی نے عطا کیا۔
میری ماں نے مجھے اس شخص کا قصہ سنایا۔ جسے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاﺅں پر غور کرے گا لیکن تھوڑا انتظار کرو کہ رب ِ کریم سو (100) اونٹ سولی کے باریک ناکے ” سوراخ “ سے گزار کر فارغ ہوجائے ۔ اس شخص کا دلبر داشتہ ہونا ۔۔۔ پھر بیوی کا اس سے کہنا کہ میں بچے کو دودھ پلا کر سُلا دونگی اور پھر مچھلی پکاﺅں گی ۔ ۔۔ تب تک تم دریا سے پانی بھر کر آجاﺅ۔
الغرض دریا پھر نہاتے ہوئے اس شخص کا ڈوب جانا، دریا میں بہہ کر دوسرے کنارے پر ایک دھوبی کے ہاتھ لگنا اور ایسی حالت میں ہوش میں آٹا، جبکہ اس کا جنس (Gender) تبدیل ہوچکاہوتا ہے ۔ دس سال تک اس دھوبی کے گھر پر رہنا چار بچوں کی ماں بننا اور پھر ایک دن اسی جادوئی دریا میں بہہ کر اسی مقام پر واپس آجانا، جہاں اس کا گھڑا اور کپڑے دریا کے کنارے ویسے ہی پڑے تھے ۔۔۔اب کے وہ دوبارہ مرد بن چکا تھا۔ گھر آتا ہے تو بیوی اسے دیکھ کر حیران ہوتی ہے ۔ ” تم اتنی جلدی واپس بھی آگئے ۔ میں نے تو ابھی تک مُنے کو بھی نہیں سُلایا“۔
اس شخص کا حیران ہونا اور اپنی پوری داستان سُنانے کے بعد یہ کہنا ہاں اب سمجھ آیا کہ رب کریم کس طرح (100) اونٹ سوئی کے ناکے سے گزارتے ہیں ۔
ان بلوچی لوک داستانوں اور قصوں کے بعد بلوچی مائتھالوجی کا یہ پہلو سجھ میں آتا ہے کہ کس طرح ، کہاں اور کیونکر وقت کی ٹِک ٹِک رک جاتی ہے یہی معاملہ اس عہد کے بابت ہماری کہانیوں میںموجود ہے ۔ جیسے عرف عام میں “ سچانی زمانغ “ کہا جاتا ہے ۔قصہ گوہر بے جان شئے کو زبان دیتی ہے ۔
” اے زمانگا ، درشک ، دار، سنگ ، آف ، آس ، مار، مور، مُرگ جنگ ئے رستر ۔۔ ہر شہ ئَ زوان ات ۔ (محقق کی والدہ ) یہ وہ زمانہ تھا جب درخت ، لکڑی ، پتھر ، پانی۔ آگ ، سانپ چونٹی ، پرندے ، جنگل کے درندے ہرچیز زبان رکھتی تھی۔
بلوچ مائتھالوجی کے زیر اثران کہانیوں نے جہاں ایک عرصے تک ہمیں تفریح کا سامان مہیا کئے رکھا، وہاں ایک دور ایسا بھی آیا جب گیدی قسہ نے متھ سے بہتر تصورات حاصل کر کے اصلاح احوال اور تحفظ فطرت کا بیڑا اٹھایا۔
لانک ورتھ ڈیمز نے مشرقی بلوچستان سے جو قصے جمع کئے گئے ان میں درج ذیل نقاط توجہ اور تحقیق طلب ہیں ۔
1۔ بلوچی لوک کہانیوں میں ، مذہب اور مذہبی رسومات سے نہایت والہانہ قربت کے باوجود ، مذہب کے نمائندہ ”مُلّا “ کا کردار متنازعہ اور کسی حد تک نفرت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ بے ایمانیں ملا۔۔ عاشقیں ملا۔۔۔ تھی ماث ئِ آڑتھ کُٹث غاں ۔۔۔ وغیرہ اس سوچ کی عکاس ہیں۔
2۔ نہ جانے کیوں بلوچ معاشرہ الف لیلوی کی طر ح عورت ذات کو اپنے قصوں میں عدم اعتماد not to be trustedکے مقام تک لے جاتا ہے ۔ قبائلی معاشرے میں یہ نظر بھی آتا ہے ۔
3۔ اصلاح احوال کے لیے بے جان اشیاءکوبھی بولتے اور تبصرہ کرتے دکھایا گیا ہے ، جس میں کسی ظالم یا طاقتور کو سچی بات کہنی مقصود ہے ۔
ڈیمز کی جمع کردہ ہر کہانی میں ایک مائتھالوجی بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے جن میں ” سر یا لیں مرد“ ہم چیزے بج ، ہواں بادشاہ کہ دیم ئے دانغے ثی ، مرددرائیں شفا آف لافا۔ بیثہ ، چیار مرد کہ زالے ئِبُت ٹاپنیت اش، سریا لیں چھورو ، سے بے عقل “ شوانگ ئے کہ بادشاہ بیثہ ، نادر شاہ ئے پیرا ، پیریں زال ، بادشاہ او وزیرے پچ ، بادشاہ او چیاردُز ، بے ایمانیں ملا، قسمت پری ، جوفہ خوریں وزیر الغرض ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی Mythموجود ہے ۔
بلوچ زندگی کا انحصار ہمیشہ سے مالداری ، بارش ، چراہ گاہ پر رہا ہے اس لیے تو بلوچ شوانک بُدھا سے مخاطب ہے ۔ اللہ بشک بزدار کہتے ہیں ۔
ہ”مئی جیذ شاغیں : میری چراغہ گاہیں وسیع ہیں
پرواہ دراژیں
مئی گوخ کاریخ مال بازیں: میرے پاس بیل ، گائے اور ریوڑ زیادہ ہے ۔
مئی بخت دودیم بیث زائیث: میری خوش قسمتی کی انت ہے کہ جانور دو دو بچے دے رہے ہیں
نی آزمانے سرا گوزیث بل گواریث
اب آسمان سر پر گرنا ہے تو گرنے دو
بلوچوں نے اپنی زندگی سے متعلق تمام عوامل کے لیے دار وسون (Myth) بنا رکھے ہیں۔ وہ جانوروں کی افزائش نسل ہو، یا بارشوں اور بیٹوں کے لیے مانگی جانے والی بے رعیا دعائیں ہوں ، بیاباں میں اگر کوئی جانور ریوڑسے بچھڑ کر ررہ جائے تو مشکیزے کے منہ پر گھاس کاٹنے والا اوز ار (لُور) باندھ کر بھیڑئیے کے جبڑے بند کئے جاتے ہیں ۔ آج بھی کالی کھانسی کے لیے کسی گھوڑسوار سے دوا پوچھا جاتا ہے اس کے منہ سے جو بھی الفاظ نکلیں وہ علاج کا کام دیتی ہے ۔ منگل وار یا بدھ وار کو عورتیں کپڑے نہیں دھوتیں ، جمعرات کو جانور دینا، گھر سے باہر جاتے ہوئے پیچھے سے آواز دینا منحوس سمجھا جاتا ہے ۔ ۔۔ سانپ کی مدد سے آج بھی مشرقی بلوچستان میں عورت کے رحم میں بچے کی جنس معلوم کی جاتی ہے ۔ مری بلوچوں میں سُرخ رنگ کے سنگ چوڑ کو مارنا منع ہے ۔ ۔۔ عورت ہی پیدا وار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے کسانوں کو بیج تیار کر کے خاتون خانہ دیتی ہے ۔
ایک نیم سفید رنگ کا پرندہ ” گہانچ“ اگردائیں جانب آکر راستے میںبیٹھ جائے تو اسے خوشخبری سمجھا جاتا ہے ۔
آج بھی بلوچوں میں شاہ مرید اور اس کی اونٹنی ، زندہ پیر ، بیہوپیر زندہ جاوید سمجھتے جاتے ہیں۔ ہماری عجیب Mythیہ ہے کہ ایسے کردار فطرت اور موت کو شکست دے کر جاوداں ہوگئے اور صدیوں سے لوگوں کو ان کی موجودگی کا احساس رہا ہے ، درباروں پر بہشتی دروازے ۔۔ موسیقی سے جنات پر قابو پانا، بارشوں کے لیے کالے کھن برووغیرہ کی رسومات ہماری مائتھالوجی کی زندہ علامتیں ہیں۔
زچہ اور بچہ کے سرہانے کوئی اوزاریا ہتھیار رکھنے سے ہمیں تسلی ہوتی ہے کہ جن جاتو وغیرہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ ملیریا بخار کا علاج منتروں یا قصوں سے کیا جاتا ہے ۔
خسرہ کے مریض کو لولی دینا اور مرض کو ایک ہندو خاتون سمجھنا آج بھی زندہMythہے ۔ اگرچہ تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ تمام غیر عرب اقوام کی طرح بلوچوں پر بھی نامعلوم بلندیوں سے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں بھیجا گیا ، تاہم آگ کا احترام اور آگ سے ( دروغ راست) سچائی معلوم کرنے کےلئے ہماری مائتھالوجی میں یقین کی حد کو چھونے والی قدریں پیدا ہوئیں۔ یو ں آگ سے کھیلنا ، آگ میں تھوکنا یا آگ کی طرف پاﺅں کرنا، آگ میں لکڑی کو پاﺅں سے آگے کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے ۔ یوں یہ کہنا زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے کسی موڑ پر مجوسیت یا زرتشیتت کا اَہرمن ویزداں ہم پر سایہ فگن رہے ہوں گے اور ہماری مائتھالوجی میں اندھیرے سے خوف اور روشنی کا احترام جزوِ لازم بن گیا ہے ۔
حوالہ جات۔
1۔ ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ کی کتاب ”شرک وپال‘
2۔ سید سبط حسن۔ ماضی کے مزار
3۔ اللہ بشک بزدار۔ ھشکیں رکھ سوز بنت
4۔ انٹرنیٹwww.Myth.com

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*