ساحر عورتوں کا شاعر

ہر دن ایک کہانی ہے۔ کچھ دن مگر متھ بن جاتے ہیں؛ہماری یادداشت کا ایک انمٹ حصہ۔ایسا ہی ایک دن آٹھ مارچ کا ہے۔ یہ دنیا بھر میں محنت کش خواتین کے حقوق کی جدوجہد کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ آٹھ مارچ کا نام آتے ہی ہمارے ذہنوں میں عورت تحریک کا پس منظر سامنے آ جاتا ہے۔ شعر و ادب کے داعی مگر اس دن کو اُردو شاعری کے ایک اور حوالے سے بھی یاد کرتے ہیں۔ یہ ایک زمانے میں اپنی شاعری سے کئی نسلوں کو سحرزدہ کرنے والے ساحر لدھیانوی کا جنم دن بھی ہے۔ ہمارے ہاں ایک متھ یہ بھی ہے کہ بچے کی پیدائش کے دن اور نام کا اثراس کی شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔ جیسے جمعرات کو پیدا ہونے بچے کو مبارک سمجھا جاتا ہے۔ جمعرات کو پیدا ہونے والے کئی بچوں کو ’جمعراتی شاہ‘ بھی کہتے ہیں۔ ساحر کی پیدائش کا دن اس کی شخصیت پر کچھ ایسا ہی اثرانداز ہوا۔ یوں 8مارچ 1921ءکو جنم لینے والا عبدالحئی مستقبل کا ساحر، ایک عورت دوست شاعر کے بطور سامنے آیا۔ اور یہ ساحر کا وہ روپ ہے، جس پہ بہت کم بات ہوئی ہے۔ عموماً اسے انقلاب اور رومانس کا شاعر کہا جاتا ہے۔ اور یہی اس کی شاعری کے حاوی عناصر بھی ہیں۔ مگر ساحر کی عورت دوستی بہت کم گفتگو میں آتی ہے۔ جو اس کی شاعری کا ایک اور مرکزی پہلو ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ شاعری بنیادی طور پر جذبات کے لطیف اظہار کا نام ہے۔ خواہ محبت کا اظہار مقصود ہو یا نظریے کی تبلیغ‘ اگر حسِ لطافت کو مَس نہ کرے توشعر نہیں بنتا، شاعری نہیں ہوتی۔ اچھی شاعری اپنے عہد کی ترجمان ہوتی ہے تو بڑی شاعری ہر عہد کی ترجمانی کرتی ہے۔ تبھی وہ کلاسیک کہلاتی ہے۔ شاعراپنے عہد سے جڑت رکھتے ہوئے جب زمان و مکان سے ماورا ہو جائے ‘ تبھی کلاسیک کے درجے کو پہنچتا ہے۔ساحر کے ہاں کلاسیک کے عناصر بھرپور طور پر پائے جاتے ہیں، جن میں سے ایک اس اہم عنصر عورتوں کے حقوق کا شعور بھی ہے۔
ساحر کی شاعری کے عروج کا زمانہ بیسویں صدی کا وسط ہے۔اور یہ وہ زمانہ ہے جب دنیا بھر میں عورتوں کی موومنٹ ابھی اپنے ابتدائی عہد میں تھی۔ 1928ءمیں برطانیہ سمیت یورپ میں پہلی بار عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے نمٹنے کے بعد عورتوں کی برابری کا شعور ابھی نیا نیا پنپ رہا تھا۔ عالمی سطح پر علمی برتری والے یورپ میں بھی عورت ابھی مرد کی برابری کی جدوجہد میں تھی۔ برصغیر کے فیوڈل سماج میں تو یہ مکمل طور پر دوسرے درجے کی مخلوق تھی(اور ہے)۔ خود اُردو کی ادبی دنیا میں ابھی خواتین کی آواز اتنی توانا نہیں ہوئی تھی۔ اختر شیرانی جیسے شاعر سلمیٰ اور سلطانہ کے نام لے کر محبوباو¿ں کوبرسرعام پکار تو رہے تھے مگر مجموعی طور پر عورت کا تصور Passive یاObject کے بطورہی تھا۔ ولی© دکنی سے لے کر داغ© تک اور اختر شیرانی سے لے کر ناصر کاظمی تک عورت بطور محبوبہ ایک passive character ہی رہی۔ حتیٰ کہ فیض صاحب بھی جب کہتے ہیں، ”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“ تو محبوب ایک مجہول کردار کے روپ میں محسوس آتا ہے جو محبت ’کر‘نہیں رہا، محبت ’مانگ‘ رہا ہے۔ گویاپرانی ہندی یا پاکستانی فلموں کی طرح محبوبہ‘عاشق کے پیچھے کھیتوں میں دوڑی دوڑی پھر رہی ہے اور عاشق صاحب مونچھوں کو تاو¿ دیتے ‘خالص مردانہ انداز میں منہ پھلائے کھڑے ہیں۔
ایسے میں ایک شاعر اپنی محبوب عورت سے محبت کے اعتراف کو کچھ یوں مخاطب ہوتا ہے؛
ہزاروں خواب حقیقت کا روپ لے لیں گے
مگر یہ شرط ہے کہ تم مسکرا کے ہاں کہہ دو
تو یہ بالکل ایک نیا لہجہ ہے، جو اپنے عہد میں منفرد اور یکتا و یگانہ ہے۔یورپ میں عورت تحریک کا نعرہ ’No means No‘ تو اب کہیں جا کر اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں معروف ہوا‘ ہمارا شاعر بیسویں صدی کے وسط میں ہی پیار اور رومانس کو محبوب کی ’ہاں‘ سے مشروط کر رہا تھا۔۔۔ اور محض سر جھکا کر اثبات والی ہوں ہاں نہیں، ’مسکرا کے ہاں‘ کہہ دینے والی محبوبابہ ہاں۔ ’مسکرا کر ہاں‘ کہہ دینے میں محض ہاں نہیں ، عورت کا مکمل وجود اور اس کی مکمل رضا شامل ہے۔ اس کا پورا وجود مع شعور شامل ہے۔ شاعر اپنے ہزار خوابوں کی حقیقت کو اس مسکرا دینے والی ہاں سے مشروط کر کے گویا عورت کے شعور کے سامنے خود کو سرنڈر کر دیتا ہے۔ یہ صنفی شعور کی انتہا ہے۔ اس کے بعد عورت مرد کی تفریق نہیں رہتی۔ دونوں جینڈر کی بنیاد پر یکساں اہمیت کے وجود قرار پاتے ہیں۔ دونوں انسان بن جاتے ہیں۔
ساحر کے اس صنفی پہلو پر پہلی بار حال ہی میں اس کی سویں سالگرہ کے موقع پر بی بی سی کی انڈین زبانوں کی ٹی وی ایڈیٹر وندنا نے اپنے ایک مضمون میں اس کی نغمہ نگاری کے تناظر میں جائزہ لیا۔ جس کا آغاز اس نے ساحر کے ایک گیت کے اس بول سے کیا؛
پیار پر بس تو نہیں ہے میرا پھر بھی
تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
یہ1958ءمیں ایک اور خاتون لکھاری عصمت چغتائی کی لکھی ہوئی ایک ہندی فلم ’سونے کی چڑیا‘کا گیت ہے۔ ندنا کے بقول، ”ایک ایسے معاشرے اور فلمی دنیا میں جہاں عورت کی ’ہاں‘ کوئی خاص معنی نہیں رکھتی ہے،وہاں پچاس کی دَہائی میں نغمہ نگار ساحر نے رشتوں کی دنیا میں عورت کی مرضی کو وہ درجہ دیا جس کی جنگ آج تک جاری ہے۔
بڑا شاعر اپنے عہد کے مسائل سے جڑت رکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بینی کا کام کرتا ہے، یہی کچھ ساحر نے کیا۔ سن پچاس کی دہائی میں حقوق نسواں کا ایسا شعور اُردو شاعری میں ایک نیا رجحان تھا، جسے آج تک کسی تنقیدی دبستان میں درخورِ اعتنا نہیں جانا گیا۔ ماضی کا معاملہ ہو یا حال کا رویہ، مرد شاعر عورت سے تعلق کے معاملے میں ہمیشہ حاکمانہ رویے کا حامل رہا ہے۔ وہ خود بھلے درجنوں بستروں کی شکنیں اتار آیا ہو، عورت کے جسم پر کسی اور بستر کی شکن اسے گوارا نہیں ہوتی۔ یہ فیوڈل سماج کے پروردہ مردکا وہ رویہ ہے، جس سے وہ شاعری میں بھی دامن نہیں بچا سکا۔ یورپ کی تعلیم اور سی ایس ایس بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ مگر ایک جاگیردار کے گھر میں پلنے والے ساحر میں ہی یہ جرا¿ت تھی جو محبوب سے کھل کر کہہ سکا؛
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
میرے ہم راہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
یہ رویہ اُردو شاعری کے عمومی مزاج کے برعکس ہے۔ اُردو شاعری کی تاریخ کھنگال لیجیے، شاعر محبوب کو تو اس کا ماضی یاد دلا کر اسے شرمندہ کر کے اپنے سامنے ہارمنوانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ملے گا، اپنی ’گزری ہوئی راتوں کے سائے‘ کا تذکرہ بھول کر بھی نہیں کرے گا۔ ساحر نے اس روایت کو الٹ دیا۔ اس نے عورت کو اوبجیکٹ سے نکال کر برابری کے سبجیکٹ کے بطور مخاطب کیا۔ اُس کی گزری ہوئی راتوں کے سائے کے تذکرے سے پہلے اپنے ماضی کی رسوائیوں کا تذکرہ کر کے اسے کسی قسم کی ندامت میں گھرنے نہیں دیا۔
عورت کی ’ہاں‘ اس کے لیے کتنی اہم ہے اس کی اظہار اس کی ایک اور نظم ’مضمحل خواب‘ میں دیکھیے۔ اس کے پہلے بند میں وہ محبوب سے مخاطب ہو کرکہتا ہے؛
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں
یعنی وہ یک طرفہ محبت کو دو طرفہ محبت میں بدلنے کو محبوب کی مکمل رضامندی کا خواہاں ہے۔محبوبہ کب کی اس کے خوابوں کے جھروکوں کو سجا چکی، مگر وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے خوابوں میں بھی شاعر کا کوئی گزر ہے کہ نہیں۔ وہ یہ ’مردانہ مطالبہ‘ نہیں کرتا کہ کیوں کہ میرے خوابوں کے جھروکوں میں تم موجود ہو، اس لیے تمہارے خوابوں میں بھی لازماً میرا گزر ہونا چاہیے، بلکہ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ محبوب کے خوابوں میں اس کا گزر ہے یا نہیں۔ مزیدیہ کہ وہ چاہتا ہے کہ محبوب خود اپنی آنکھوں سے پوچھ کر بتائے کہ ’میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں‘۔ یعنی میری راتوں میں سحر کا سبب تمہاری آنکھوں کی روشنی ہی ہے، مگر تم خود ان سے پوچھ کر بتاو¿ کہ کیا وہ ایسا چاہتی ہیں؟یہ استفسار دراصل عورت کی مرضی و رضامندی کا عکاس ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عورت اپنی مکمل رضا و خواہش کے ساتھ اپنا فیصلہ کرے۔ ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے مجہول نعرے کی ایسی لطیف شعری مثال بھلا اور کیا ہو گی!
اور پھر اسی نظم کے اختتامی بند میں وہ کہتا ہے؛
میری درماندہ جوانی کی تمناو¿ں کے
مضمحل خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو
ترے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی
میرا حاصل مری تقدیر بتا دے مجھ کو
شاعر اپنی جوانی کے خواب محبوب پر تھوپنا نہیں چاہتا، بلکہ وہ انہیں درماندہ جوانی کے مضمحل خواب بتا کرمحبوب سے ان کی تعبیر مانگتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ محبوب کے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی، اس کے حصے میں کیا ہے، یہ بھی محبوب پہ منحصر ہے۔ عورت کے مجموعی مزاج اور حقِ خودمختاری کو ان سطروں میں سمو دیا ہے ہمارے عورت دوست شاعر نے۔
اور پھررومانوی تعلق کے خاتمے پر عموماًجس طرح عورتوں کو لتاڑا جاتا ہے، ہر قسم کا الزام یک طرفہ طور پر عورت کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے، کیوں کہ ایک پدرسری سماج میں عورت نہ توایسے کسی الزام کی تصدیق کر سکتی ہے نہ تردید، اس لیے مرد ہر قسم کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ ساحر نے اس معاملے میں بھی کسی قسم کی الزام بازی کو رد کرتے ہوئے نہایت معتبر انسانی رویہ اپنایا اور تعلق کے بوجھ بننے سے پہلے اسے خوب صورت موڑ کی صورت اختتام دینے کی تجویز دی؛
تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوب صورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
آج جب کہ ملاقات سے بستر تک آتے ہی تعارف روگ اور تعلق بوجھ بننے لگتا ہے، اور محبت کا ہر افسانہ المیہ انجام سے دوچار ہونے لگتا ہے، ایسے میں ساحر کی خوب صورت موڑ کی تجویز ایک تعویز یا نسخہِ کیمیا کی صورت ہر پیار کرنے والے کو تعلق کے آغاز میں ہی دے دینی چاہیے کہ اسے آموختے کی صورت دہراتے رہیں تو تعلق میں کسی قسم کی بدہضمی سے محفوظ رہیں گے۔
صرف یہی نہیں، ساحر نے عورت کو جس بھی روپ میں پورٹرے کیا، نہایت احترام کے ساتھ اور مکمل انسان کی صورت پیش کیا۔ خواہ وہ محبوبہ ہو، بیٹی ہو، ماں ہو یا طوائف۔ سب کے ساتھ اس کا رویہ دوستانہ رہا۔ اس کی نظمیں ’چکلے‘ ، ’مادام‘، ’تاج محل‘ اور ’حوا کی بیٹی‘ اس کی گواہ ہیں، کہ اس نے عورت کے ہر روپ میں اس کی مظلومیت کا ساتھ دیا۔ وہ ہر لحاظ سے ایک عورت پرست انسان تھا۔اس کی ایک گواہی اس کی اکلوتی پھوپھی زاد بہن انور سلطانہ نے ایک انٹرویو میں بھی دی ہے۔ وہ بتاتی ہے؛
”عورتیں اپنے گھر کی ہوں یا دوسروں کی، سبھوں کی حرمت کا انہیں بے حد خیال تھا۔ میں دیکھتی تھی کہ وہ لڑکیاں جو اُن کی فین ہوتی تھیں تو ان کے فون کا نہ صرف خود اچھی طرح جواب دیتے تھے بلکہ ہم لوگوں سے بھی کہا کرتے تھے کہ کسی سے جھڑ ک کر یا سخت لہجے میں بات نہ کیا کرو۔ یہ لڑکیاں اگر گھر آ جاتی تھیں تو بھائی جان کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔وہ ان کو آٹو گراف دینے یا ان سے باتیں کرنے کے بجائے اٹھ کر چلے آتے تھے اور ہماری سرزنش کیا کرتے تھے کہ تم اٹھ کر کیوں چلی آئیں، جاو¿ تم ان لوگوں سے بات کرو، ان کی خاطرمدارت کرو۔ ۔۔۔اپنی نظموں میں بھائی جان نے عورتوں یعنی مریم اور سیتا کی بیٹیوں کے تقدس کے ساتھ ان کی مجبوریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔انہوں نے زمانے کا سردو گرم دیکھا تھا اور اپنے ملک و معاشرہ کی برائیوں سے واقف تھے، خاص کر عورتیں اس سماج میں کس قدر مجبور و غیرمحفوظ ہیں، اس سے وہ بخوبی واقف تھے۔“
(بحوالہ، مضمون”انور بی بی کے بھائی جان“ از، محمود ایوبی، مشمولہ”ساحر لدھیانوی، فن اور شخصیت“ ترتیب؛ صابر دت، سرور شفیع، فروری1985ئ، ساحر پبلشنگ ہاو¿س، بمبئی)
یہ ہے ہمارا ساحر اور عورتوں سے متعلق اس کا برتاو¿۔ شاعری سے لے کر عمومی زندگی میں اس کارویہ عورتوں سے متعلق اس کے سماجی شعور کا آئینہ دار ہے۔آج کی عورت تحریک کے نعرے لکھنے والے واقعی بدذوق ہو چکے ہیں۔ وگرنہ ایک ساحر ہی ان کے پوسٹرز کو معتبر و مو¿ثر بنانے کو کافی تھا۔
ساحر کی تو محبوب سے چھیڑخانی بھی بس اتنی ہوتی ہے کہ؛
پھر نہ کیجیے مری گستاخ نگاہی کا گلہ
دیکھیے، آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو
اور ایک طرف آج کا’ جدید شاعر‘ لڑکی کو محض جینز پہننے کا مشورہ دے کر ’ماڈرن‘ کہلاتا ہے۔یہی آج کا سماجی شعور ہے۔ ۔۔اور یہ کس قدر پست شعور ہے۔ سماجی جدیدعہدکی عورت کے مسائل شاعر سے محض اس کے ہم آوازہونے کا تقاضا نہیں کرتے، اصل بات یہ ہے کہ آپ عورت کو برابر کا انسان سمجھتے ہوئے اسے ایک سنگی ساتھی کے بطور برتنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ شاعری اور عملی زندگی میں یہی سنجیدگی آپ کے باوقار ہونے کی علامت ہے۔ ساحر کی شاعری ہمیں اسی شعور کے ساتھ جوڑتی ہے، عورتوں سے متعلق ہمیں باوقار بناتی ہے۔ آج کی عورت تحریک کو ایسے ہی جینوئن سنگی ساتھی شاعر کی ضرورت ہے۔۔۔ساحر کی ضرورت ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*