ایک یونانی عورت کے لیے

ایسی سرد سویر تھی
پیڑوں رستوں اورکونوں، کھدروں میں
جہاں کہیں پانی نے رُک کر سانس بھری
اب کانچ کے قتلے پڑے ہوئے تھے
بس سٹاپ کے بائیں جانب
ننھی کرنوں نے اب تک
ڈھلوان چھتوں کو چھوا نہیں تھا
موٹی اور بدرنگ سی جیکٹ پہنے
کھچڑی بالوں والی
پستہ قامت عورت
بس کا رستہ تکتی مجھ کو
وہیں ملی تھی
میلا سا کوئی رنگ تھا چہرے پر ۔۔۔
ہاتھوں میں نیلی نُکیلی گانٹھیں
دل سے اک مانوس سی ہُوک اٹھی
"تم کون دیس سے آئی ہو”
میں نے پوچھا تھا!!
اور وہ ٹھٹھرے ہونٹوں پر مسکان سجا کر بولی
"میں یونان کی اک بستی میں
اپنے پیارے چھوڑ کے
مزدوری کی خاطر
اس نگری میں آ نکلی ہوں
ریستوران میں گوشت کے پارچے کاٹتے، ڈھوتے
پاپی دن ڈھل ہی جاتا ہے
بیٹی مجھ کو یاد آتی ہے
پَر کیا کرتی بھوک بہت تھی۔۔۔ آہ نہ جانے کب تک ٹوٹے پھوٹے
اس کے لفظ فضا میں چکراتے تھے
اور کچھ دھندلی تصویریں تھیں
یونانی دیوتاؤں، فلسفیوں کے چہرے
اور طلسمی حسن کے چرچے
سانس روکتے ساحل،
نیلے چُور سمندر
دور افق میں ڈوب رہے تھے کوہ قاف کے جیسی اس دھرتی کو دیکھنے کی چاہت سے لدے ہوئے خوابوں کے ریزے
بس سٹاپ کے ٹھنڈے فرش پر پڑے ہوئے تھے

تین برس ہونے کو آئے
خالی اور بےبس لہجے کی
جیسے جی میں پھانس گڑی ہے
سچی بات ہے
سارے علم اور ساری دانش، سارے فن سے
بھوک بڑی ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*