ادھا

سب ”ادھا “ کہہ کر بلاتے تھے ۔ پورا کیا ! پونا کیا! بس ادھا۔۔۔ قد کا بونا جوتھا۔ پتہ نہیں کس نے نام رکھا تھا۔ ماں باپ ہوتے تو ان سے پوچھتا۔
جب سے ہوش سنبھالا تھا ، یہی نام سنا تھا اور یہ بھی نہیں کہ کبھی کوئی تکلیف ہوئی ہو۔ دل دکھا ہو ۔ کچھ نہیں۔ ہر وقت مستی میں رہتا تھا۔ خربوزے والے نے کہا: ”ادّھے “ ذرا دکان دیکھو میں کھانا کھا کے آیا۔“اور ادھا بڑے مزے سے ڈنڈی ہاتھ میں لے کر بیٹھ جاتا اور ہانک لگاتا ”آجا ‘ مصری کے ڈلے ہیں!“
وہ کبھی خربوے بیچتا ‘ کبھی کھجوریں۔ نانی کو دیدجی سے ہاضمے کی دوا لا کر دیتا ، تیسری منزل والے کیشوانی کی بچی کو سکول چھوڑ کے آتا اور مادھو مستری کو کبھی مزدور نہ ملتا تو وہ اینٹیں ڈھونے کا کام بھی کر لیتا ۔ مگر سب سے زیادہ مزہ آتا اُسے بارات کے آگے ناچنے میں۔ بارات چاہے کسی کی بھی ہو بھولے بھٹکے بھی اِدھر سے گزر جاتی تو وہ اپنے اس ایک میل کے علاقے میں آگے آگے چھوٹے چھوٹے ہاتھ جُھلاتا، چھوٹی چھوٹی ٹانگوں پر تھرکتا ناچتا چلا جاتا۔ اس روز وہاں سے ورق کو ٹنے والے الیاس کی بارات نکلی تو وہ حسبِ عادت آگے آگے ناچنا ہوا چلنے لگا۔ پنڈت نے ٹوکا بھی۔ ”اے ادھے ! مسلمان کی بارات میں ناچ رہا ہے؟ “۔
ہوا میں ہاتھ جُھلاتے ہوئے ادھا بولا ”ڈھول تو دونوں ہی کے بجتاہے ! اور ایسے ہی بجتا ہے !“
ادھا، بارہ سال کے بچوں میں کھیلتا تو انہی جیسا لگتا ۔ جب بچے سکول چلے جاتے تو وہ سوسائٹی کے بیچ والے باغ میں بوڑھے مالی کے ساتھ مل کر نیم کی سوکھی پتیاں جمع کرتا اور رات کو پروفیسر صاحب کی بیٹھک سے ماچس لا کر اس میں آگ لگا دیتا ۔
ایک بار پروفیسر صاحب نے اسے ایک پرانا کوٹ دیا۔ ادھے نے باہر آ کر دیکھا ، اور اسے مالی چا چا کے حوالے کردیا۔ ”بوری کی بوری دے دی پہننے کو ۔ اس میں تو میرے جیسے تین آجائیں“۔
چھتر پور سو سائٹی کی پانچ بلڈنگوں میں رہنے والے اسی کنبوں کے لگ بھگ ساڑھے تین سو آدمی تھے ۔ اور ادھا ”ج“ ”خ“ کے نقطے کی طرح ان سب میں گھومتا رہتا ۔ کسی کا کام اس کے بغیر رکتا نہیں تھا مگر اس کے بغیر چلتا بھی نہیں تھا ۔ ادھا نہیں تھا تو جیسے وہ پورے نہیں تھے ۔ جیسے بھرے پُرے گھر کو پالتو بلی کچھ اَور بھردیتی ہے ” ایسے ہی اس نے چھتر پور سوسائٹی کو کچھ اَور ابھر دیا تھا۔
لیکن کل وہ ان سب کو خالی کرگیا، غریب کر گیا۔ کمپاﺅنڈ میں جمع بھیڑ کو پروفیسر نے چلا کر کہا تھا “ تم سب ادھورے ہو، ادھے ہو۔ اور جسے تم ادھا کہتے ہو دیکھو ‘ دیکھو وہ کتنا پورا ہے ، کتنا مکمل !“
یہ بات چاہے کل کی ہے ، مگر اصل بات شروع ہوئی تھی دو سال پہلے ۔اصل بات سے پہلے ایک بات ہوئی تھی اور وہ بھی کچھ کم اصل نہیں تھی۔ مگر اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
چھتر پور سوسائٹی کی سب سے خوبصورت لڑکی رادھا کملانی اُس دن ہیر گنج کے علاقے سے آرہی تھی کہ تین غُنڈوں نے اسے گھیر لیا۔ ایک نے آنکھ ماری ‘ دوسر ے نے سیٹی بجائی اور تیسرا کندھے کا گھسہ دے کر آگے نکل گیا۔ لڑکی سہم گئی ۔ دور گلی کے سرے پر اسے ایک سایہ سا نظر آیا اور وہ زور سے چلائی ”ادھے “۔۔۔“
اس نے آواز سنی تو بھاگا آیا۔ رادھا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ”ادھے ، ذرا مجھے گھر تک پہنچادے “
ادھے کو بات سمجھتے دیر نہیں لگی۔ شیر ہوگیا ۔ رادھا کی بانہہ پکڑ کے بولا ”چلئے ۔۔۔ میں ہوں نا۔“
اور وہ ان تین غنڈوں کے بیچ میں سے رادھا کو یوں نکال کر لے گیا جیسے ہوا کا جھونکا نکل جائے ۔
مگر اُس رات ادھے کو نیند نہیں آئی۔ پہلی بار اُسے لگا کہ ُاس کی عمر اٹھائیس برس کی ہے ۔اگلے دن سے اُس نے سکول کے بچوں کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا اور کپڑے استری کرو ا کے پہننے لگا۔ تبدیلی لوگوں نے بھی دیکھی اور رادھا نے بھی ! وہ صرف ہنس دی: ”ہاﺅ کیوٹ!“
ادھے کو جیسے زندگی میں نیا کام مل گیا۔ باڈی گارڈ کا محافظ کا !۔ رادھا کو اچھا لگتا۔ وہ صبح اُسے کالج تک چھوڑ کر آتا، کبھی کبھی کچھ کتابیں بھی اٹھا لیتا ۔۔۔ کبھی شام کو پہنچ جاتا، واپسی میں ساتھ لے کر آتا۔ ۔۔ لیکن ایک دن رادھا نے ڈانٹ دیا۔ ”چھی چھی ۔۔ ۔اس پر شک کرتے ہو؟ اس ادھے سے مرد پر!“
بس اس سے آگے ادھے نے نہیں سنا۔ اُلٹے پاﺅں لوٹ آیا۔ آتے ہی گلی میں اس نے لیٹے ہوئے ایک کتے کو پیٹنا شروع کردیا۔ بہت مارا اور جیسے خود ہی زخمی ہو کر اپنی کھولی میں جا کر لیٹ گیا۔
اگلے دن سے اس کا رویہ بدلا ہوا تھا ۔ لوگوں کو بہت حیرت ہوئی ۔ جس نے بھی اس سے کوئی کام کہا ”ادھے نے پوچھا ” پیسے دو گے؟“
”پیسے؟ ۔۔ تمہیں پیسے کیا کرنے ہیں؟“
” کچھ بھی کروں !۔۔۔“
دھیرے دھیرے ادھے کے صندوق میں کئی طرح کے نوٹ اور سکے جمع ہونے لگے۔
یہ اصل بات سے پہلے کی بات ہے ۔ ۔۔ اور اصل بات یہ ہے کہ چھ مہینے بعد رادھا کی شادی ہوگئی۔ ۔۔ اور زور سے ریکارڈ بج رہے تھے ۔ اور موڑ سے بینڈ بجنے کی آواز آرہی تھی۔ ادھے کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا ۔ اس کے تھرکنے والے ہاتھ پاﺅں کا نپنے لگے۔ وہ تیزی سے اٹھا ۔ صندوق کے سارے پیسے نکالے اور چھتر پور سوسائٹی کی ”سی “بلڈنگ کے تیرہ نمبر فلیٹ کا دروازہ جاکھٹکھٹایا۔ تیرہ نمبر فلیٹ میںستیہ رہتی تھی۔ اکیلی اور بدنام ۔ چھتر پور سوسائٹی کے بیشتر لوگ چاہتے تھے کہ وہ وہاں سے چلی جائے کیونکہ بیشتر لوگ رات کو وقت بے وقت اس کے فلیٹ سے نکلتے ہوئے یا اندر جاتے ہوئے دیکھے گئے تھے ۔ ادھے نے وہ سب دیکھا تھا۔ سمجھا بھی تھا مگر خاموش رہا اور آج۔۔۔!
معلوم نہیں فلیٹ کے اندر کیا ہوا ، مگر ادھا پورے سات گھنٹے بعد ستیہ کے گھر سے نکلا جب رادھا کی ڈولی جاچکی تھی۔
اس کے بعد ادھا اکثر وہاں جانے لگا ۔ لوگوں کو بہت برا لگا کہ ستیہ نے ادھے کے ساتھ بھی سمبندھ بنانے میں گریز نہ کیا۔ اور یہ بات انہیںبرداشت نہیں ہوئی کہ جس عورت کے ساتھ ان کے سمبندھ ہوں ، اس کے ساتھ اس بونے کے بھی تعلقات ہوں ، وہ چاہے ویشیا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ بس ستیہ کے خلاف پوری سوسائٹی سرگرم ہوگئی۔ ۔۔ ایک دو نوجوانوں نے ادھے کو پیٹ بھی دیا۔۔۔ ادھا تلملا اٹھا۔۔۔ مار کھا کھے وہ پھر ستیہ کے یہاں پہنچا۔ وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔ شاید کچھ بیمار تھی۔ ادھے نے سیدھے سپاٹ لفظوں میں کہا ۔”ستیہ میں تجھ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔“
ستیہ نے اس کی طرف دیکھا، اور ہوں کہہ کے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔
ادھے نے اسے بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کیا۔ ”کیوں؟ مجھے سے شادی نہیں کرسکتی ۔ میں آدمی نہیں ہوں ؟ کیا تو بھی مجھے ۔۔۔ ادھا سمجھتی ہے ؟ “
ستیہ نے اس کی طرف آنکھ بھر کے دیکھا اور کہا: ” مجھے سونے دے ادھے ! میری طبیعت ٹھیک نہیں!“
ادھے کے ہاتھ سے ستیہ کی بانہہ چھوٹ گئی۔ ”ٹھیک ہے ، ،پھر مر ! جہنم میں جا“۔ یہ کہہ کے وہ گھوما ۔ دھڑاک سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور سیڑھیاں اتر گیا۔
اصل بات یہ بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد بھی سال بھر تک ادھا چھتر پور سوسائٹی میں ہی رہا۔ ۔۔ اڑتی اُڑتی خبریں اسے ستیہ کے بارے میں ملتی رہتی تھیں۔۔۔۔ ”سی “ بلڈنگ سے گزرنا اس نے قصداً کم کر دیا تھا ۔۔۔ کسی نے اسے بتایا ستیہ کا بچہ ہوا ہے اور یہ بات چھتر پور سوسائٹی کے لوگ برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔۔۔۔ ستیہ کی جان کے پیچھے پڑ گئے ۔۔۔ ”اسے نکالو۔۔۔ فلیٹ چھوڑو “! ۔پھر بھی ستیہ نے کسی طرح چھ مہینے نکال لیے ۔
اور یہ ابھی کل کی بات ہے کہ ادھا اپنے راشن کا تھیلا پیٹھ پر لادے کمپاﺅنڈ میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ”سی “ بلڈنگ کے نیچے بہت ساری بھیڑ جمع ہے ۔ اس نے پوچھا بھی نہیں مگر کسی نے بتایا کہ ستیہ نے زہر کھا لیا ہے ۔ ادھا تیزی کے ساتھ اوپر کی طرف بھاگا۔ وہ بھول گیا کہ اس کی پیٹھ پر راشن کا تھیلا ہے اور وہ اسے چھوڑ بھی سکتا ہے ۔۔۔۔ جانے کیوں ، لوگ اسے راستہ بھی دیتے رہے ۔ اور آخر وہ تیرہ نمبر فلیٹ کے دروازے پر پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا ستیہ کی لاش ابھی پلنگ پر ہی پڑی تھی ، اور چھ مہینے کا بچہ لاش سے کھیل رہا تھا۔
سارے کمپاﺅنڈ میں پروفیسر کی آواز گونج رہی تھی۔ یہ بچہ تم میں سے ہی کسی کا ہے ۔ تم سب آتے رہے ہو اس کے پاس ! ۔میں جانتا ہوں ، تم میں اتنی انسانیت تو ہے کہ چندہ کر کے لاش کو جلا دو گے۔۔۔ مگر اس بچے کو ۔۔۔ میںپوچھا ہوں، کون قبول کرے گا؟“
سب کے سب بت بنے کھڑے رہے۔
اچانک ادھے کے ہاتھ سے راشن کا تھیلا نیچے پھسل گیا ۔ سب اس کی طرف دیکھتے رہ گئے ۔۔۔ اس نے دھیرے دھیرے قدموں سے جا کر بچے کو اٹھایا اور بنا کسی طرف دیکھے اسے کندھے سے لگائے ، بھیڑ میں سے گزرتا ہوا سوسائٹی کے کمپاﺅنڈ سے باہر چلا گیا۔
پروفیسر کی آواز ابھی تک گونج رہی تھی۔
”تم سب ادھورے ہو۔ آدھے ہو اور جسے تم ادھا کہتے ہو ، دیکھو دیکھو وہ کتنا پورا ہے ۔ کتنا مکمل ۔۔۔۔۔۔۔!“۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*