گیت اُس کے نام کا

کھنکتی چوڑی، چھنکتی پائل
ہونٹوں کی لالی، آنکھوں کا کاجل
ہتھیلی پہ مہندی شگن کی لیئے
ہاتھوں میں پہنے چمپا کے کنگن
ایک ہی نام کا وِرد کرتی رہے
ایسی دھڑکن
او میرے ساحر
تو پڑھ ایسا منتر
کوئی اسمِ اعظم
کہ کُن کی صدا گونج اُٹھے
برکھا ہو ایسی
کہ ہو جائے جُل تھل
پیاسی زمیں پھر سے سیراب ہو
ہر اِک انگ میں کوئی مستی بھرے
چھائے ایسا خُمار
جھوم اُٹھے فضا
پھولوں سے لَد جائے سارا جہاں
ہزاروں دِیئے جل اُٹھیں
ایسی اِک رات ہو
کہ بانہوں میں ہم تُم پگھلتے رہیں
اور پگھلتی رہے کائنات
میرے آوارہ بادل برس اِس طرح
کہ نِکھر جاؤں میں
چھیڑ ایسا سرود
رقص کرنے لگے یہ جہاں
گیت گانے لگے پھر ہوا
بس تِرے نام کا
جھوٹ ایسا سُنا، جینا آسان ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

6th March 2021
اُس کے نام جو جینا چاہتی ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*