جنگ

فوجی گھن گرج اور جاری ہونے والے احکامات کا شور، سگریٹ اور پائپ کا دھواں، میز پر بچھائے ہوئے جنگی نقشے، گہرے سرحدی خطوط، راستے، شہر، سرخ اور سیاہ نشانات، یہاں، وہاں۔۔۔ اچانک ایک شخص نے حملہ کرنے کا حکم جاری کیا۔ چند لوگوں نے اپنے پیر زمین پر مارے اور سلامی دی۔ ہم لوگ ابھی نوجوان تھے، جب ہمیں ہمارے گھروں سے باہر لاکر اور ایک جگہ جمع کرکے سرحد پر بھیج دیا گیا، وہیں جہاں ماتھے پر شکن ڈالے ہوئے غصیلے مرد اپنی بلند اور صاف سنائی دینے والی آوازکے ساتھ ہمیں ٹریننگ دیتے رہے۔ انہوں نے ہمارے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دیے تاکہ ہم یہ جان سکیں اور بتا سکیں کہ کھجور کا یہ درخت ہمارا ہے اور وہ درخت تمہارا، پانی میں رقصاں یہ چھوٹی مچھلی ہماری ہے اور کنول کی پتی پر گڑگڑ کرتا ہوا مینڈک تمہارا۔ لالہ کے پھولوں کے یہ غنچے ہمارے ہیں اور بنفشہ کے وہ پھول تمہارے۔۔۔ اور یوں ہم سرحد کے اِس پار رہ گئے اور تم اُس پار چلے گئے۔ ہم نے اپنے ہتھیار اٹھائے۔ اپنی نظریں اس کے لینز پر مرکوز کیں۔ نشانہ باندھا، گولی چلانے کرنے کے لیے اپنی پوزیشن سنبھالی۔۔۔ اور میں نے وہیں سے دیکھا کہ میرے کنول کے پھول سے ایک تتلی آرام سے اڑی، ادھر ادھر گھومی اور پھر جاکر تمہارے بنفشہ کے پھول پر بیٹھ گئی اور میں نے پھر نشانہ باندھا۔ اس بار ایک ہلکی اور خوشگوار ہوا چلی، تمہارے کھجور کے درخت کی شاخیں ہلائیں اور پھر میرے کھجور کے درخت کے پتوں میں چلنے لگی۔ میری چھوٹی مچھلی صاف و شفاف پانی سے خوش ہوکر تیزی سے تیرتی ہوئی کنول کے پتے کو ہلانے لگی۔ مینڈک کی آواز چند لمحوں کے لیے تھم گئی اور دریا کے دوسرے کنارے سے سنائی دینے لگی۔ میں نے دوبارہ نشانہ باندھا۔ اس بار تمہارا چہرہ سامنے تھا۔ نوجوان اور مہربان۔ تم نے مجھے دیکھا۔ ڈرتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ میں نے بھی ڈرتے ہوئے تمہیں دیکھا۔ نہ میں تمہیں پہچانتا تھا اور نہ تم مجھے۔ ہوا چلی اور چند کھجوریں درخت سے گر کر میرے پاس گر گئیں۔ میں نے انہیں زمین سے اٹھا لیا۔ اپنا ہتھیار زمین پر رکھ دیا۔ میں نے وہ کھجوریں تمہاری طرف بڑھائیں۔ تم ہنس دیے۔ تم نے بھی اپنا ہتھیار زمین پر رکھ دیا اور اآگے بڑھے۔ پکی ہوئی کجھور منہ میں ڈالی۔ میں نے بھی پکی ہوئی کھجور کو منہ میں ڈالا۔ اس کا میٹھا رس ایک ساتھ ہم دونوں کی زبانوں پر پھیل گیا اور ہمارے لبوں پر ایک مسکراہٹ ابھر اآئی۔ تم نے میرا ہاتھ تھاما۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ سارے احکامات، لکیریں، سرحدیں میناو ¿ں اور فاختاو ¿ں کی اآواز میں کھوگئیں۔ تم نے اپنا نام بتایا۔ میں نے بھی اپنا نام بتایا۔ ہم دونوں کھجور کے درخت کے پاس بیٹھ گئے۔ ہوا نے ایک رقص کرتی ہوئی گل قاصدی کو شقائق کے پھولوں کے درمیان سے ہوا میں بلند کیا اور اسے ”کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں“ جیسی تشویشوں کی پروا کئے بغیر دور تک لے اڑی۔ سگریٹ کے دھویں سے محبوس فضا میں ابھی تک کوئی شخص مسلسل چلا رہا تھا: فائر! اور اس کی گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور آنکھیں غصے سے لال ہورہی تھیں۔ میں نے دریا کے اِس کنارے سے تمہیں کنول کا ایک پھول دیا اور تم نے دریا کے اُس پار سے پانچ پتیوں والا ایک سفید پھول مجھے دیا۔ میں نے تمہیں اپنے دو سالہ بھائی کی تصویر دکھائی اور تم نے مجھے اپنی بوڑھی ماں کی تصویر دکھائی۔ ہم دونوں اپنے ہتھیاروں کی طرف گئے۔ بندوق کی ساری گولیاں دریا میں بہا دیں۔ محبت سے ایک دوسرے کی طرف ہاتھ ہلائے اور جانے کے لیے واپس ہوئے۔ گرج چمک اور کالے دیو کی چیخ جیسا ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ ہم دونوں کے کھجور کے درختوں نے آگ پکڑ لی۔ تم پلٹے۔ میں بھی پلٹا۔ ہماری حیرت بھری نگاہیں آپس میں ٹکرائیں۔ آگ کی جھلساتی ہوئی حرارت میں کسی کی چیخ سنائی دی: مار ڈالو ان دونوں کو! پھر اچانک دریا کے ا ±س پار سے آتی ہوئی ایک گولی میرے سینے کے آرپار ہوئی اور دریا کے اِس پار سے جاتی ہوئی ایک گولی نے تمہارے سینے میں چھید کردیا!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*