نزاکت

اس کا اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن اسے دیکھ کر ہمیشہ میرے ذہن میں نزاکت کا خیال آتا – وہ پانچ ماہ کی حاملہ اور ایک تین سال کے بچے کی ماں تھی لیکن اتنی دھان پان سی کہ بارہ تیرہ سال کی بچی لگتی۔
اس کے پیٹ میں پلنے والی روح کو بچانا میرا مشن تھا۔
یوں تو گنجان آباد شہروں کی کچی آبادیوں میں پلنے والی زندگی کیڑے مکوڑوں سے بھی ارزاں سمجھی جاتی ہے ۔بڑے روشن اور ہوا دار گھروں میں رہنے والوں کو احساس بھی نہیں ہو گاکہ ان کے گھروں سے نکلنے والی غلاظت جن گندی ندیوں میں گرتی ہے ان کے کنارے پلنے والوں کی زندگی میں کبھی خوشی کے بھی کوئی پل آتے ہوں گے –
عام اسٹیریو ٹائپنگ کے مطابق وہ تو یہی سمجھتے ہیں – جیسے لال بیگ کو ایک جھٹکے میں موت کے حوالے کرنا سسک کر جینے سے کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے۔
سوشل ورک کی اس عالمی تنظیم کو اپنا مائی باپ بنانے سے قبل میرا بھی کم و بیش یہی خیال تھا۔ لیکن جب پرانی پلاسٹک ، لکڑی کے بوسیدہ تختوں اور ٹین کی چادروں سے بنی جھگیوں سے گھری اس بستی میں اپنا کلینک جمانا پڑا تو اندازہ ہوا … نہیں خوشی کا تعلق صاف ستھرے ماحول اور روشنیوں سے جگمگاتے گھروں اور آسائشوں سے نہیں – کتنے دن گزر گئے تھے میرے کلینک میں کسی نے جھانکا تک نہیں تھا – لیکن یہاں کے بچوں کو باہر سیڑھیوں کے بجائے بنی ڈھلوان سطح بہت پسند آ گئی تھی اور اسے سلائیڈ بنا کر پھسلتے اور مزے لیتے دیکھ کر پہلے پہل تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا – یہ بچے آدھے پیٹ کھا کر وقت سے پہلے بوڑھے ضرور ہوجاتے ہیں مگر بچپن کے دنوں سے بھرپور لطف اٹھاتے ہیں –
ارے میں بھی ان ہنستے کھیلتے کاندھے پر کوڑے کے تھیلے لٹکائے بچوں کے پیچھے کہاں نکل گئی – بات تو نزاکت کی ہو رہی تھی اور مجھے اس کے پیٹ میں پلنے والے بچے سے کیا دلچسپی تھی – اس کے لئے اپنے کلینک کی اس علاقے میں موجودگی کی وجہ بتانی ضروری ہے – حقوقِ نسواں کی علمبردار اس عالمی تنظیم نے یہاں کی آبادی کا تجزیہ کیا تو یہ خوف ناک انکشاف ہوا کہ دنیا کے اس خطے میں پیدا ہونے والی بچیوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے اور اگر اس رجحان کی روک تھام نہ کی گئی تو انسانوں کی یہ قدیم ترین نسل معدوم ہو جائے گی – یہاں کے لوگوں کو اس بات کی پرواہ تھی یا نہیں یہ تو اب اس علاقے میں ڈیرہ جمانے کے بعد معلوم ہوا کہ صورت حال کاغذی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ گھمبیر تھی – یوں تو بظاہر یہ زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کا عام سا کلینک تھا اور میرا اپنا اول جلول حلیہ بھی اسے کسی کی نظر میں آنے سے بچائے ہوئے تھا اس وقت بھی جب اسٹنٹ نرس ماریا گھبرائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی –
” میڈم ذرا میرے ساتھ چلئے … یہ بچے کچھ دکھانا چاہتے ہیں”۔ اس کے ساتھ وہی کچرا چننے والے دو بچے کھڑے تھے جنھیں سیڑھیوں پر کھیلتے دیکھا تھا مگر اس وقت ان کے چہروں پر خوشی کی رمق تک نہ تھی -بالکل ستے ہوئے اور بے جان سے دکھائی دیئے ۔
مزید کچھ کہے بغیر اپنا میڈیکل اشیا پر مبنی بیگ لے کر کلینک سے چند قدم کے فاصلے پر کوڑے سے اٹے ہوئے بدبو دار میدان میں پہنچی – بچے ایک چھوٹی سی کلبلاتی ہوئی شے کی طرف اشارہ کر رہے تھے – یہ سب کچھ ہمارے لئے غیر متوقع نہیں تھا۔ ہم دونوں اپنے ہاتھوں میں پلاسٹک کے دستانے چڑھا کر اس جاں بلب نوزائیدہ بچے کی طرف لپکیں اور غلاظت میں لتھڑی ہوئی ننھی جان کو اس کمبل میں لپیٹ لیا جو ہم اپنے ساتھ لائی تھیں- آنول نال بھی اس کے ساتھ گھسٹتی چلی آئی تھی گویا پھینکنے والوں نے اسے کاٹنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی اور پیدا ہوتے ہی کوڑے پر پلنے والی مخلوق کا رزق بنا دیا تھا- بچی بمشکل سانس لے رہی تھی ۔اس کا پیٹ تیزی سے پھول اور پچک رہا تھا اور وہ گلابی گوشت کا لوتھڑا معلوم ہو رہی تھی – اداسی اور مایوسی نے جیسے ہمیں پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا تھا ۔ میں نے اسے اپنے سینے سے لگا کر ننھے بدن کو گرمی پہچانے کی کوسش کی۔ تب ہی بچی کے رونے کی آواز نے کچھ امید دلائی – ہم نے بچوں کو جو اس دوران ساتھ ساتھ چل رہے تھے شکریہ کے طور پر کچھ پیسے تھمائے ۔بڑے لڑکے نے تیزی سے آگے بڑھ کر اپنی جیب میں رکھ لئے ۔
” بچو ! آئندہ بھی خیال رکھنا ایسا کچھ دیکھو تو ہمیں ضرور بتانا -” میں نے یاد دہانی کرائی –
آپا جی …. یہاں تو اکثر ایسے بچے پڑے ہوتے ہیں – زیادہ تر تو مرے ہوے ہوتے ہیں چھوٹا بچہ ایسے آرام سے بات کر رہا تھا جیسے یہ سب کچھ معمول کی بات ہو – کوئی خوف یا افسوس اس کی آواز میں نہیں تھا –
ماریا البتہ کافی خاموش تھی – کچھ دور ساتھ چل کے وہ اچھلتے کودتے اپنے راستے کو ہو لئے -ننھی بچی کی دیکھ بھال میں دو تین دن سخت مصروف گزرے – بچی کا جسم جگہ جگہ سے کیڑے مکوڑوں کی کارستانیوں سے زخمی تو تھا ہی اس کے پھیپھڑے بھی زندہ رہنے کی تگ و دو کا مقابلہ کرنے سے قاصر دکھائی دے رہے تھے ۔ اس وقت بھی میں الیکٹرک بلب کے نیچے لٹا کر اسے کسی چوزے کی طرح گرمائش پہچانے میں لگی تھی کہ نزاکت چپکے سے میرے پیچھے آن کھڑی ہوئی ، میں گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا جو ٹکٹکی باندھے ننھی کو تک رہی تھی – جس کا نام ماریا نے روشنی تجویز کیا تھا-
ہیں نا کتنی پیاری روشنی ، دعا کرنا یہ بچ جائے –
ہاں ….. دعا کروں گی” یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا، میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا جہاں مایوسی کے سائے گہرے ہو گئے تھے –
میں یہ بچہ کیوں نہیں رکھ سکتی میم آپ کو تو پتا ہے ” یہ کہتے ہوئے اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور روشنی کے پھولتے پچکتے پیٹ کو تکنے لگی –
”مجھے معلوم ہے تمہاری ساس اور تمہارا شوہر تمہیں گھر سے نکال دیں گے اور بیٹا چھین لیں گے – اگر تم نے یہ بچی زندہ پیدا کی – یعنی تم سے زیادہ بہادر تو روشنی کی ماں تھی جس نے بچی زندہ تو پیدا کی –
میں نے اسے جوش دلانے کی ناکام کوشش کی
ہمم …زندہ ……. اسے آپ زندہ سمجھ رہی ہیں ؟”اس نے میری طرف استہزائیہ نظروں سے دیکھا …
میں جواب دینے کو الفاظ ڈھونڈھنے لگی کہ تب ہی اس کی چبھتی ہوئی آواز پھر کانوں سے ٹکرائی –
میم میں اپنے بیٹے کو کھونا نہیں چاہتی – بچی کا کیا ہے وہ تو ابھی پوری طرح بنی بھی نہیں ہے –
اچھا ہی ہے جو اس بے رحم دنیا میں نہ آئے ۔نہ اس کے واسطے کھانے کو میٹھے بسکٹ ہوں گے۔نہ رنگ برنگی کتابیں …. ابھی تو پیٹ بھر کھانا مل جاتا ہے پھر کہاں سے کھلاو ¿ں گی ۔میں نے جلدی سے اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے اسے تسلی دی "دیکھو تم اس کی فکر نہ کرو “۔تمہیں سب کچھ ملے گا اور تمہاری بچی کو بھی بس…. اسے صحیح سلامت دنیا میں آنے دو۔میں تمہارا خیال رکھوں گی -”
میں نے جلدی سے دواو ¿ں کی الماری سے کچھ وٹامن کی شیشیاں اور بسکٹوں کا ڈبہ نکالا اور اس کے آگے ڈھیر کر دیا –
"دیکھو تم کتنی کمزور ہو گئی ہو اپنا نہیں تو بچے کا خیال کرو۔ یہ سب چیزیں تمہارے لئے ہیں اور بھی دوں گی – وہ کچھ کہے بغیر تیزی سے باہر نکل گئی –
میز پر چیزوں کا ڈھیر پڑا میرا منہ چڑا رہا تھا –
میں نے مایوس ہو کر کھڑکی سے باہر جھانکا – گلی بھی میرے دل کی طرح خاموش تھی – پھر روشنی کی طرف متوجہ ہو گئی جو اب تھوڑا سا کسمسا رہی تھی –
گہرے بادلوں میں روشنی کی مدھم لکیر….
زیر لب میرے منہ سے نکلا ” مری جان ! تمہیں زندہ رہنا ہو گا ……
خدا خدا کر کے روشنی کا سانس ٹہر چکا تھا اور ہمیں ایک کھلونا ہاتھ آ گیا تھا – اب اس کے لئے ایک نئے گھر کی تلاش جاری تھی کوئی ایسا جوڑا جو اسے صدق دل سے اپنا لے اور اپنی اولاد بنا کر پالے ۔ اس دوران میں نزاکت کی خیر خبر لینے کا وقت نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔ پھر ایک دن اسے ماریا کے حوالے کر کے نزاکت کے گھر جا پہنچی … وہ دروازے پر ہی مل گئی -پوچھنے پر بتایا بچے کو اسکول سے لینے جا رہی تھی – اس کے پیٹ کا ننھا سا ابھار دیکھ کر اطمینان سا ہوا ۔دل میں سوچا "شکر ہے ابھی تک کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا ہے -”
نزاکت کے گھر کی حالت محلے کے دیگر گھروں سے بس اتنی مختلف تھی کہ اس کا سلیقہ اور نفاست ہر چیز سے جھلک رہا تھا حتیٰ کہ لکڑی اور پلاسٹک کے ری سائیکلڈ ٹکڑوں سے بنائی گئی دیواروں اور چھت پر پینٹنگز اتنی مہارت سے بنائی گئی تھیں کہ ایک لمحے کو محسوس ہوا کسی گریفتی آرٹ گیلری میں آ نکلی ہوں ۔ میں صحن کی دیوار کو دلچسپی سے دیکھنے لگی "ایک پینٹنگ میں سائکل ہوا میں اڑتی جا رہی ہے جس پر دو بچے اگلے ڈنڈے پر اور ان کی ماں پیچھے بیٹھے ہیں سائکل کی گدی پر پر ان کا باپ اور پچھلے پہیوں کی جگہ پھولوں سے پر بنائے گئے ہیں – میرے منہ سے بے اختیار نکلا ۔ ارے واہ نزاکت تم تو بہت بڑی آرٹسٹ ہو -اور بہت مثبت سوچ کی مالک بھی۔ نزاکت نے اداس لہجے میں جواب دیا ۔” یہ میں نے نہیں بنائی ہے . میرا شوہر graffiti آرٹسٹ ہے اس کے بچے ہوئے پینٹ اور آئیڈیے گھر کی دیواروں کے عیب ڈھکنے میں کام آتے ہیں “۔
”بہت اچھی بات ہے بڑا اچھا کام ہے یہ“۔میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے تعریف کی اور خود کلامی کے انداز میں پوچھا ” اس کا مطلب ہے کافی پڑھا لکھا ہے اور تم بھی "-
مگر اس نے سنا نہیں وہ خوش معلوم نہیں ہو رہی تھی – ” میم اب آپ جاو ¿ مجھے دیر ہو رہی ہے “۔
اور جلدی سے گھر کا دروازہ بند کرنے کو آگے بڑھی تب ہی اس کی ساڑھی کا پلو کمر سے تھوڑا سا ہٹ گیا تھا میں ٹھٹھک گئی کافی گہرا نیلا نشان بتا رہا کسی بیلٹ یا سخت چیز سے پیٹا گیا تھا اسے –
اس نے بھی محسوس کر لیا تھا میں سمجھ گئی ہوں –
”اوہ یہ تو گھریلو تشدد کا معاملہ ہے تمہیں پولیس کے پاس جانا چاہئے“۔
میم پولیس کچھ نہیں کرتی اور الٹا مجھے گھر سے نکلوا دے گی -ویسے بھی اس کی ماں نے مارا ہے – اتنا برا بھی نہیں میرا آدمی "وہ شوہر کو صاف بچا گئی تھی۔
”ہاں اور تم اس کے ساتھ رہو گی تو تمہارا بیٹا بھی ایسا ہی بنے گا “۔
میں ابھی بھی گھر کے دروازے پر کھڑی اسے قائل کرنے کی کوشش میں لگی تھی – اب کی بار ہم میں سے کسی ایک کو ہارنا تھا میں یہ سوچ کر آئی تھی –
اچانک ایک چڑیا کے چلانے کی تیز آواز پر ہم دونوں نے ایک ساتھ اپنے سر کے اوپر کھلی فضا میں نظر دوڑائی –
پہلے تو گمان گزرا شائد کوئی چڑیا کو تنگ کر رہا ہے-
مگر وہاں تو منظر ہی کچھ اور تھا جسے ہم دونوں حیرت سے دیکھ رہی تھیں
ایک کوا تیزی سے اڑتا چلا جا رہا تھا اس سے تھوڑی اوپر چڑیا اڑ رہی تھی جو تیزی کے ساتھ نیچے آتی اور کوے کے سر پر ٹھونگیں مارتی اور پھر اسی تیزی سے اوپر کی طرف اڑنے لگتی – کوا اتنا گھبرایا ہوا لگ رہا تھا کہ اپنے بچاو ¿ میں کچھ بھی نہیں کر رہا تھا سوائے دائروں میں چکر لگانے کے …. میں نے کوے کو اتنا بے بس پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ بھی ایک ذرا سی چڑیا کے وجہ سے جو مسلسل اس کے ساتھ ساتھ اڑ رہی تھی ۔ ہوا میں ان کی قلابازیاں جاری تھیں ۔کوے کی اڑنے کی رفتار تیز تر ہوتی جا رہی تھی مگر چڑیا اس کی جان نہیں چھوڑ رہی تھی – یہ ہی نہیں الٹا زور زور سے چلا بھی رہی تھی –
نزاکت نے جوش بھرے لہجے میں چڑیا کی اس جارہانہ کاروائی کی حمایت کی اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے بچوں کی طرح خوش ہونے لگی ”آہا …. ننھی چڑیا کے گھونسلے پر حملے کر رہا تھا خبیث ، اچھا بدلہ لیا”
یہ کہتے ہوئے اس نے ایک بارپھر اپنے پیٹ کو تھپتپا یا …. ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا
مجھے تو اس کی آنکھوں میں عزم کی چمک صاف نظر آئی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی
اس نے بھی شائد میری آنکھوں میں ایسا ہی کچھ دیکھا – تب ہی مسکرائی تھی –

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*