تسلی کے دو بول

”آہ ! میں مرنے لگا ہوں!اب میرا وقت قریب آن پہنچا ہے۔“ فقیرے نے کراہتے ہوئے ادھر ادھر جھانکنے کی کوشش کی تاکہ کسی کومدد کے لیے پکار سکے ۔مگر تب وہاں اس کے پاس اپنی بڈھی کے خیالوں کے سوا تیسرا کوئی نہ تھا۔موت کے خوف ،وسوسوں اور واہموں میں گھرا،آہیں بھرتا فقیراقریبا نیم مرگ ہوچکا تھا۔ وہ عرصے بعد شہرگھومنے بڑے بیٹے کے پاس آیا تھا۔اسے شہر آئے چند روز ہی گزرے تھے کہ دفعتا وہ سخت بیمار پڑ گیا تھا۔یہ آدھی رات کا وقت تھا۔ نصف شب کی بے خوابی اس کی طبیعت پر بم بن گر ی تھی۔
مزاجا وہ رومان پسندآدمی تھا۔فطرت کی رعنائی ،دلکشی اور حسن کا دلدادہ ۔دن ہو یا رات ،خیالوں ہی خیالوںمیں وہ اپنی تسکین طبع کے لیے خوشی اور رومانس کے کئی رنگ کشید کر لیتا تھا۔ آج مگر اُسے اپنی جان کے لالے پڑے تھے۔
گو اندھیری رات میں نیلاآسمان ننھے منے تاروں سے دمکتا تھا۔لیکن اُس لمحے، نیلگوںفلک کی دل کشی بھی اسے ایک آنکھ نہ بھائی تھی ۔ تاریک رات کی گہرائی میں دائیں بائیں، آتے جاتے شہاب ثاقب نامی ستاروں کی قوسِ قزاح جیسی روشنی اس کے لیے بے معنی تھی ۔برآمدے کی دیواروں پر لگے نقش ونگار اسے بودے نظر آتے تھے۔
دراصل ہوا یوں تھا کہ، جس وقت وہ نیم شب کی سحر انگیز ساعتوں کی آغوش میں خوابیدہ تھا۔ اس کی شانواس کے پاس چلی آئی تھی۔ اس کی زندگی کی ہم سفر بوڑھی کو فوت ہوئے کوئی پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرا تھا۔کافی دنوں بعد ،تیسری بار وہ خواب میں اس کے ساتھ تنہائی بانٹنے آئی تھی۔
”سنو !یہاںمجھے تمھاری یاد ستاتی ہے۔کل جب میں اپنی قبر کی مغربی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھی،میں نے تمھیںدیکھا تھا،تم کافی افسردہ دکھائی دیے۔اب بھلا بڑے بیٹے کے گھر ،بستر پر لیٹے لیٹے، برآمدے کی چھت کی اینٹیں گننے کا کیا مطبل (مطلب ) ہو سکتا ہے ؟چلے آو ¿ناں! میرے پاس ۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔ہوہو ہو“ شانو بیگم نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔اس کے توتلے منہ سے قہقہے پھوٹ رہے تھے۔
اگرچہ شانو بیگم کی وفات کے بعد ،فقیرے کی ہر گھڑی،ہر لمحہ شانو کے بغیر بے چینی میں گزرتا تھا۔زندگی بھر ساتھ بیتے لمحے ،دن اور راتیںتنہا گزارنا اب اس کے بس میں نہ تھا۔ وہ بنا دیر اپنی بڈھی کے پاس جانے کا متمنی تھا۔لیکن اسے عجب معاملہ در پیش تھا۔یوںکہ شانو بیگم جب بھی اس کے خواب میں آتی ،وہ ڈر جاتا تھا۔شاید دنیا کی رنگینی اسے بزدل بنا گئی تھی۔اسے لگتا تھاکہ شانو بیگم کا خواب میں آکر اپنے پاس بلانا سچ میںاس کے لیے قریب المرگ ہونے کی علامت ہو سکتا ہے۔ تب اس کی آس ٹوٹنے لگتی تھی ، سانسیںبند ہو نے لگتی تھیں۔
یہ بھی کہ اس نے اپنے بڑوں سے موت کے بعد مرنے والوں کے خواب میں آنے کے کئی قصے سن رکھے تھے۔یوں تو مردے کاخواب میں آنا اور گپیں ہانکناصاحب خواب کے لیے باعث فخر،اس کے ساتھ گہرے لگاو ¿ اور اچھے تعلق کو ظاہر کرتا تھا۔لیکن مردے کا گلے ملنا ،ہاتھ سے پکڑ کر قبرستان کی طرف لے جانا یامردے کااپنی کوئی بچی کھچی چیز کھلا دینا نہایت برا شگون بھی سمجھا جاتا تھا۔
یہ نصف شب کا وقت تھا۔ کالی رات کے اس پہر،بڈھی کا خواب میں آنا اور اپنے پاس بلانے کے لیے صدادینا اسے موت کی وحشت سے آشنا کر گیا تھا۔ وہ نیند سے بیدار ہوا،تو اس نے گھڑیال پر نظر ڈالی۔ اب عذاب یادوں کا طویل سلسلہ قسط وار اس کے دماغ کے پردے پر کسی پارینہ فلم کی صورت چلنے لگا تھا۔بہت تیزی سے وہ ذہنی دباو کی گرفت میں آ چکا تھا۔تب وہ چار پائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔اسی سمے اس کے سر کے آدھے حصے میں درد کی ایک شدید لہر اٹھی تھی۔شدت ِ درد سے اس کی نسیں پھٹنے کو تھیں۔دماغ مفلوج ہونے لگا تھا۔ایسا بھی نہ تھا کہ یہ درد اسے پہلی بار ہوا ہو۔اس سے قبل بھی یہ شکایت اسے ہوتی رہی تھی۔ اس بار مگر درد کی شدت پہلے سے کہیںزیادہ تھی۔جوں جوں در د میںاضافہ ہوا،پہلے پہل تو اس نے فوری گھر والوں کو مدد کے لیے پکارنا چاہا لیکن پھردفعتا اس نے اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔
” کہیں بچوں کی نیند میں خلل واقع نہ ہو جائے۔“پھر یہ سوچ کر اس نے پوری قوت مجتمع کرتے ہوئے اپنی تکلیف کو ضبط میں لانے کی بھرپورکوشش کی۔تاوقتیکہ صبح کا سورج طلوع ہوا ۔اب گھر کے سبھی افراد جاگ چکے تھے۔بڑے بیٹے نے جب اس کی یہ حالت دیکھی توتڑپ اٹھا تھا۔فقیرے کو فوراً شہر کے معروف ایف سی پی ایس ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔شہر کا معروف ڈاکٹر ضروری چیک اپ کے بعد مریض سے مخاطب ہوا:
”یہ شکایت پہلی بار ہوئی ہے؟“ اس نے فقیرے سے بے توجہی سے سوال کیا۔
”جی ڈاکدر صاحب وقتاً فوقتاً ہلکا سا درد ہوتا رہتا ہے۔گاو ¿ں کے مقامی حکیم صاحب سے دوا دارو لیتا رہا ہوں۔اس بار شدید درد نے پکڑا ہے۔“ فقیرے نے بساط بھرجواب دیا۔
”ان عطائی ڈاکٹروں ،حکیموں نے تو مخلوق کا ستیاناس کر دیاہے۔ جہالت اتنی ہے کہ لوگ ان کے پاس دوڑے چلے جاتے ہیں ۔“ ڈاکٹر نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا۔اس کے چہرے کا تغیر ، کھردری آواز اور پھیکا لب ولہجہ سن کر فقیرے کے سردرد میںمزید اضافہ ہو چکا تھا۔ڈاکٹر نے دماغ کے کچھ ٹیسٹ کروائے۔ اس کے دماغ میں کوئی بڑا نقص نہ تھا۔
”کچھ دن کے لیے دوا تجویز کی ہے۔اسے کھا لو۔دوبار ہ کسی حکیم کے پاس مت جانا۔“ اس نے فقیرے کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
جی ڈاکٹر صاحب ۔“ اس کے بیٹے نے جواب دیا۔فقیرا اسے گھور کر دیکھتارہا ۔
اسی دن ہی ،فقیرے نے دوائی لینے کا باقاعدہ آغاز کردیا تھا۔دو دن دوائی کھانے کے بعد بھی خاطر خواہ افاقہ نہ ہوا۔دوا لینے کے بعد ،تکلیف میںذرا سی کمی کے بعد ،درد ایک بار پھر شدت پکڑ لیتا تھا۔بیٹے نے ایک اور ڈاکٹر کو دکھایا۔مگر مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی۔اس پر طرہ یہ کہ اتائی ڈاکٹر کانام سنتے ہی مذکورہ ڈاکٹر کا پارہ بھی کچھ زیادہ ہی چڑھ گیا تھا۔
اس سے پہلے کہ اسے کچھ ہو جائے ،اسے گاو ¿ں والے حکیم صاحب کے پاس جانا چاہیے۔فقیرے نے موت کو اپنی شہہ رگ کے قریب پایا تو بروقت فیصلہ کیا۔اپنی بڈھی کی وفات کے فوری بعد بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا تھا۔بڈھی خواب میں اسے لینے آئی تھی۔مگر پھر یہ کہہ کر رہنے دیا تھا کہ وہ چھوٹے بیٹے کی مراد(شادی) کے بعد ہی اس کے پاس آئے گا۔تب خواب سے بیدار ہونے کے بعد اس کی حالت غیر ہو گئی تھی۔ وہ مرتے مرتے بچا تھا۔قریب تھا کہ اس کا دم پرواز کر جاتا،بھلا ہو حکیم صاحب کا ،اس نے فوری تسلی دی تھی۔اوربروقت علاج کرتے ہوئے اسے موت کے منہ سے بچا لیا تھا۔ اب چوں کہ شانو بیگم کی وصیت کے مطابق اس کے چھوٹے بیٹے کی شادی ہو چکی تھی۔لہٰذا ب بڈھی کے بلاوے سے اس کا بچنا محال تھا۔بہرصورت ،آخری امید وہی حکیم صاحب ہی تھے ،جو اسے کچھ وقت کے لیے موت سے مہلت دلا سکتے تھے۔
”مجھے گاو ¿ں بھیج دو۔“ فقیرے نے بیٹے سے التجا کی۔
” بابا یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکٹر ہے۔گاو ¿ں جا کر تمھاری حالت مزید بگڑ سکتی ہے۔“بیٹے نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”میرا علاج حکیم صاحب ہی کر سکتا ہے۔“اس نے دو ٹوک کہا۔
”مگر بابا۔۔۔۔ “
”بابا،وابا کچھ نہیں ۔میرے جانے کا بندوبست کرو۔“ فقیرے نے بگڑ کر کہا۔
صبح ہوتے ہی اس کے بیٹے نے سواری کا اہتمام کر دیا تھا۔روانگی سے قبل اس کا بڑا بیٹا بھی اس کے ساتھ ہو لیا تھا۔فقیرے نے چھوٹے بیٹے کے گھر جانے کے بجائے ،سیدھا حکیم صاحب کے ہاں جانے کا کہا۔کوئی تین گھنٹے کی مسافت کے بعد فقیرا اور اس کا بڑا بیٹا مقامی حکیم کے پاس پہنچ گئے تھے۔ہسپتال مریضوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔حکیم صاحب کا علاج معالجے کا وہی پرانہ طریقہ،کسی کو جڑی بوٹیوں کا چورن بنا کر دیا۔کسی کے ہاتھ میں پھکی تھما دی۔کسی کو واٹر انجکشن لگا کر تسلی کے دو بول بو ل دیے ۔للہ اللہ خیر سلا۔
اتائی کے پاس لوگوں کی اس قدر بھیڑ دیکھ کر اس کے بڑے بیٹے کو تعجب ہوا ۔وہ والد کو گاڑی سے اتار کر ہسپتا ل میں داخل ہوا ۔ڈاکٹر نے فقیرے کو دور سے ہی پہچان لیا تھا۔وہ ذرا مسکرایا ۔اس نے گپ شپ کے انداز میں فقیرے سے حال حوال پوچھا۔فقیرے نے بھی باتوں باتوں میں بتا دیا کہ وہ شہر کے دو بڑے ایف سی پس(ایف سی پی ایس) ڈاکدروںسے ہو کر آیا ہے ،مگر افاقہ نہیں ہوا۔شاید اس کے دن پورے ہو چکے ہیں۔
”تمھارے مرنے کا چانس ایک فیصد بھی نہیں ہے۔تم ابھی لمبی عمر جیو گے۔“ ڈاکٹر نے فقیرے کی نبض پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ اس نے آگے بڑھ کر مریض کو بینچ پر لٹانے کا کہا اور سٹیتھو اسکوپ لے کر بڑے اطمینان سے فقیرے کا چیک اپ کرنے لگا۔
”ہاں چاچا جی،تو آپ کوایف سی پی ایس ڈاکٹروںکا علاج نہیں لگا۔“اس نے مریض کے ساتھ دوستانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔
”جی ڈاکدر صاحب۔“ فقیرے نے جواباً کہا۔
”اچھا۔۔۔ تو چاچا فقیرا گھبراو ¿ مت ، تمھارا مرض بالکل پیچیدہ نہیںہے۔“ اگر چہ وہ شدید ذہنی دباو ¿ کے زیرِ اثر تھا۔ حکیم صاحب نے فقیرے کو ا س کے نام سے مخاطب ہو کر تسلی دی ۔فقیرے نے قدرے اطمینان کا سانس لیا۔
”دوائی ذرا مہنگی ہے،لیکن جادوئی اثر رکھتی ہے۔ادھر انجکشن لگا و ¿،اُدھر درد غائب ۔پیسے نہیںہیں ،تو بھی کوئی بات نہیں۔“ ڈاکٹر نے فقیرے کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
حکیم صاحب نے انجکشن بھرا اور باتوں باتوں میں اس کے بائیں بازو کے گلے سڑے گوشت میں گھسیڑ دیا۔تھوڑی دیرڈیٹول لگے کاٹن سے مالش کی،اور مسکراتے ہوئے اس کا سر دبانے لگا۔سر پر ہلکا ہاتھ مارنے کے بعد،ڈاکٹر نے اسے آرام کرنے کے لیے کہا۔کچھ دیر کے بعد بڑے مشفقانہ لہجے میں فقیرے سے حال دریافت کیا،تو اس نے بتایاکہ، اس کا سر درد پچاس فیصد کم ہو چکا تھا ۔
حکیم صاحب مسکرایا۔پیچھے مڑا اور طمانیت سے بیٹھ کر، گول گھومنے والی کرسی پر چکر کھانے لگا۔وہ شیشی جو انجکشن بھرنے کے لیے اس نے توڑی تھی،اب بھی اس کے سامنے میز پر رکھی تھی۔ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا۔فقیرے کا اَسی فیصد درد ختم ہو چکا تھا۔اس کی تکلیف رفع ہو چکی تھی۔اب وہ کافی فرحت محسوس کررہا تھا۔ڈاکٹرنے اسے ایک بار پھر تسلی دی۔ذرا مسکرائے،اور فقیرے کو گھر جانے کی اجازت دے دی تھی۔
”ایسااتائی ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔“ا س کے بڑے بیٹے نے حیرانی سے سوچا۔وہ اب بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ،ڈاکٹر کی میز پر رکھی ہوئی ،اُس واٹر انجکشن کی جانب تشویش بھری نظروں سے دیکھ رہاتھا۔مگر چوں کہ اس کے اباکا درد ختم ہو چکا تھا،اس لیے اب یہ ُاس کا سر درد نہ تھا۔
ہسپتال سے فارغ ہوتے ہوئے شام ڈھل چکی تھی۔اندھیری رات میں فلک پر ننھے منے تارے امڈ آئے تھے۔ نیلگوں آسمان کا حسن پورے جوبن پر تھا۔ ایک بار پھر کائنات کی رنگینی کا منظر اس کے لیے محویت اور دلچسپی کا باعث بننے لگاتھا۔ فطرت کی رعنائی اور دلکشی فقیرے کے دل میںاترنے لگی تھی ۔اس کے چہرے سے اطمینان چھلکتا تھا۔ تسلی کے چند حروف کے زیرِاثر ہی سہی ، فقیرا اپنی بڈھی کے خیالوں سے بے نیاز ہو چکا تھا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*