ماہنامہ سنگت کا ایڈیٹوریل

امریکی الیکشنز ۔۔ سکون کا سانس

کرہِ ارض پہ موجود مخلوقِ خدا امریکی سامراج کی ماری ستائی ہوئی ہے ۔امریکہ آقاﺅں کا آقا بنا بیٹھا ہے ،سلطانوں کا سلطان ہے ۔دنیا کا کونسا ملک ہے جو امریکہ سامراج کی شیطانیت کا شکار نہ ہوا۔ایران میں مصدق پھانسی ، افغانستان میں نجیب پھانسی، پاکستان ، عراق لیبیا ۔۔۔ مقبول لیڈروں کی پھانسی اور اُن کی تختہ الٹائی کے کھیل میں سوویت یونین ٹوٹا، سوشلسٹ بلاک معدوم ہوگیا ، اور انسان مکمل طور پر بھوک ، ننگ، مہاجر ت اور بے عزتی کے حوالے کیا گیا ۔ اس کھیل کا اب تک کا آخری راﺅنڈ بولیویا میں حال میں کھیلا گیا ۔ اس کے علاوہ ایجنڈے پر وینزویلا ، کیوبا اور ایران کا گلا گھونٹ کر انہیں مار دینا شامل ہے۔
امریکہ گزیدہ انسانیت اُس وقت بہت خوش ہوئی جب ٹرمپ نے امریکی پارلیمنٹ پر حملہ کروادیا۔تیس چالیس ہزار افراد پہ مشتمل یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب کانگریس کا مشترکہ اجلاس ہورہا تھا۔ پارلیمنٹ پہ اس حملے کے پیچھے بزنس مالکان، ریاستی اسمبلیوں کے ممبر، پولیس افسران، ملٹری کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افراد ، رئیل سٹیٹ بروکرز ،ارب پتی اور کار پوریٹ مالکان تھے۔ یہ لوگ  بالائی طبقات کے انتہائی رائٹسٹ ہیں جو جمہوریت کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اسی طرح اس فساد کو فیس بک، امیزون ،ٹویٹر ،یا گوگل جیسے سوشل میڈیا سیکٹر کے مالکان نے خوب تشہیر بخشی۔

ساری دنیا نے ٹی وی پہ بلوائیوں کی طرف سے دونوں ایوانوں کو تہس تہس کرتے دیکھا۔ منتخب نمائندے جان بچانے یہاں وہاں چھپ رہے تھے۔ پولیس ناکام ہوگئی۔ پارلیمنٹ پہ مکمل قبضہ ہوگیا۔ بے شمار لوگ زخمی ہوئے اور 5امریکی قتل ہوگئے۔ البتہ پارلیمنٹ ممبران کے اغوا اور بعد میں قتل کرنے کا منصوبہ کامیاب نہ ہوا۔ الیکشن رزلٹس نہ ماننے اور لہذا نئے صدر کا تختہ الٹنے کی سازش کو ناکام بنادیا گیا ۔    سازش بنانے والوں کی طرف سے منصوبہ میں شاید کوئی گڑ بڑ ہوگئی۔بھاری فوج بلانی پڑی اور شہر میں ایک لمبے عرصے کے لےے کرفیو لگا۔

دنیا کے لوگوں کے لیے خوشی بنتی بھی تھی۔اِس لیے کہ امریکہ اب تک جو کام دوسرے ممالک میں کرواتا رہا ہے، وہ آگ اب اُس کے اپنے گھر میں لگ چکی ۔

مگر امریکہ میں جمہوریت پہ اس کاری ضرب پرخوش ہونا ایک شعوری نہیں، ایک جبلّی بات ہے۔

شعوری بات یہ ہے کہ ”برائی“ دنیا کے کسی بھی حصے میں بھی  پھیلے توافسوس کرنا چاہیے۔ایک عام سے ملک میں بھی شیطانی فکر حاوی ہوجائے تو پوری دنیا متاثر ہوتی ہے۔ یہ تو پھر امریکہ ہے۔ امریکہ ،جو دنیا کے کپٹلسٹ نظام کا نیوکلیس ہے۔ چنانچہ اس واقعے کے بے بخت جھٹکے ایک ایک دارا لخلافہ میں محسوس کیے گئے۔ پورا کرہِ زمین متاثر ہوا ہے۔ہمیں بالکل خوش نہیں ہونا چاہیے۔ فاشزم کہیں بھی سر اٹھائے نقصان انسانیت کا ہوتا ہے۔
اسی لیے ساری دنیا کی محنت کش پارٹیوں نے امریکی پارلیمنٹ پر حملے پہ افسوس کا اظہار کیا۔ ساری دنیا کے جمہوری لوگوں نے امریکی مزدوروں کو دوبارہ ایک بہت بڑے چیلنج سے نمٹنے میں  مدد و حمایت کا یقین دلایا۔فاشزم  تو فنانس کپٹل کے رجعتی ترین، شاونسٹ ترین اور سامراج ترین عناصر کی کھلے عام دہشت گردانہ ڈکٹیٹر شپ ہے ۔ فاشزم سائنس کو عوامی بہبود کے لیے کبھی استعمال نہیں کرتا ۔ یہ نسل پرستی کو ساتھ ملاتا ہے ، بنیاد پرستی کو ،اور فرقہ واریت کو ساتھ رکھتا ہے ۔ فاشزم سماج کے اندر موجود ہر طرح کی تقسیم کو ہوا دیتا ہے ۔ فاشزم میں سیاست دلیل سے نہیں ،ڈنڈے ، مکے اور بندوق سے ہوتی ہے۔ فاشزم کبھی بھی کورونا جیسی وبا سے نہیں لڑتا۔ وہ صرف انسانوں کو دشمن گردانتا ہے۔

امریکہ کی موجودہ سٹراند والی صورت خواہ کتنا کریہہ ہے ، مگر امریکہ کا جنم عمدہ ترین صورت میں ہوا تھا۔ امریکہ ایک نجات یافتہ، اور ایک انقلابی عظیم جنگ کے نتیجے میں معرض ِ وجود میں آیا تھا۔ برطانوی سامراج کے خلاف امریکی عوام کی لمبی اور خون آشام سٹرگل نے اس ملک کو قائم کیا تھا۔ عوام کی پیداوار ی قوتوں نے مشینری اور جدید انجینئرنگ کے عجائبات کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو آزاد اور تعلیم یافتہ ملک بنادیا۔ مگر ساتھ ساتھ غلاظت اور تعیش میں لتھڑے ہوئے ہٹ دھرم ارب پتی پیدا ہوتے گئے ۔ اور وہیں کروڑوں کی تعداد میں لوگ رہ گئے جو بھکاریوں کے قریب والی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ امریکی عوام جنہوں نے فیوڈل غلامی کے خلاف ایک انقلابی جنگ لڑی تھی، اب کپٹلزم میں مٹھی بھر کروڑ پتیوں کے ہاتھوں اجرتی غلامی میں پڑے ہیں۔

امریکی کروڑ پتی دنیا بھر کو لوٹتے رہے۔ اُن کے پاس موجود ہر ڈالر انسانوں کے ارمانوں کو کچل کچل کر حاصل کیاگیا۔ اُن کے پاس ہر ڈالر دھات سے نہیں،خون سے ڈھلا ہوا ہے ۔ ایک انسان کے خون سے نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کے خون سے ۔ امریکی کروڑ پتی ،فاشسٹ ہیں۔ انہوں نے دنیا کے ہر گھر ہربیٹھک میں موجود میڈیا کو خرید رکھا ہے ۔ اور وہی ،پالیسی ساز اداروں پہ قابض ہیں۔

سامراج ،خارجہ امور میں ہوتا ہی فاشسٹ ہے۔ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے زمانے ہی سے ایک فاشسٹ ریاست چلی آرہی ہے ۔ اُس نے جمہوریت کا لبادہ اُسی طرح اوڑھ رکھا ہے جس طرح کہ تیسری دنیا کے فاشسٹ ممالک نے مذہب کے لباس کے پیچھے پناہ لی ہوتی ہے۔ امریکی فاشزم نے ”امریکا فرسٹ“ جیسی حب الوطنی کے نعرے کو اپنایا ۔ یہی کچھ مشرف فاشزم نے یہاں کیا تھا : ”پہلے پاکستان “۔

امریکی فاشزم کا اب تک کا سب سے بھیانک نمائندہ ٹرمپ تھا۔ اس نے عالمی معاہدوں کو روند ڈالا ۔ ماحولیاتی آلودگی ،اور وباﺅں سے نمٹنے کے معاہدے پرے پھینک دیے۔ اس نے ، بڈھے آدمی کے متزلزل دانتوں کی طرح کے مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں سے زبردستی جدید ترین اسلحہ خریدوائے ۔ اور اس بہانے کھربوں ڈالر جمع کیے۔

سفید فام بالادستی والے فاشزم نے اپنے ملک میں نسلی اقلیتوں کا گلا گھونٹ کے رکھا تھا۔ کووِڈ وبا کو روکنے میں دنیا میں سب سے ناکام ملک امریکہ ہے ۔یومیہ 4000اموات کی شرح سے ایک سال میں پانچ لاکھ امریکی ہلاکتیں مذاق نہیں ہیں۔ امریکہ تیزی سے بے روزگاری کے گڑھے میں گرتا جارہا ہے۔ رہائشی سہولیات عوام کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔یہ خطرہ بھی پیدا ہوچلاتا تھا کہ ٹرمپ کہیں ایٹمی جنگ کابٹن نہ دبا دے۔

کودتا کو ناکام کیا گیا،فاشسٹ ٹرمپ چلا گیا اور جمہوریت بحال ہوئی ۔دنیا بھر نے سُکھ کا سانس لیا۔ امریکہ کے اپنے اندر بھی ایک طرح کی طمانیت پھیل گئی ۔ یقینا بڑا فرق آئے گا۔ اگر موجودہ صدر، ٹرمپ کے محض سیاہ اقدامات کو آگے بڑھانا ہی بند کردے تب بھی یہ دنیا کے ساتھ زبردست اچھائی ہوگی۔ یقینی بات ہے کہ کووِڈ کی وبا اب اپنے سب سے بڑے حلیف سے ہاتھ دھو چکا ہے ۔ یقین کی بات ہے کہ اب وائرس حسب ِ سابق دندناتا نہیں پھرے گا۔ ہم چھ ماہ بعد اُس کے منہ میں کانٹے دار لوہے کی لگام ضرور دیکھیں گے۔

اسی طرح امریکہ میں اب سیاہ فاموں پہ تاریکی گھٹ جائے گی ۔ ان کے خلاف نفرتوں کو سرکاری سرپرستی حاصل نہ رہے گی۔ جینڈر کی بنیاد پر عصبیت کومزید شاباشی نہیں ملے گی۔ فضائی آلودگی ایک اہم انسانی مسئلہ تصور ہوگی۔صحت کے عالمی ادارے کو مزید فنڈ ملیں گے۔ اور سائنس کی بے قدری آفشل پالیسی نہ رہے گی۔

مُودی اور عمران جیسی حکومتیں بنیادی انسانی حقوق پہ ہاتھ ڈالتے ہوئے ایک امریکی ناراضگی ضرور محسوس کریں گی۔ پریس کی آزادی ، جمہوریت اور شفافیت ، اور اختلاف رائے کی آزادی نئی امریکی حکومت کے دلچسپی کے میدان ہوں گے ۔ایٹمی اسلحہ کے شوقین شہ سواروں سے یہ شوق چھین لیا جائے گا۔

افغانستان زیادہ داخلی امن اور جمہوریت کی طرف جائے گا۔ کیوبا کا لاطینی امریکہ معمولی سہی، مگر بہر حال ایک سکھ کا سانس ضرور لے گا۔

مگر، بائیڈن چے گویرا نہیں ہے ۔ وہ پچھلی ظالم حکومتوں میں اعلیٰ ترین عہدوں پہ رہا ہے ۔ چنانچہ وہ اُن تمام جرائم میں حصہ دار رہا ہے جو حال تک دنیا بھر میں امریکہ کرتا رہا ہے ۔ اس لیے نہ تو امریکی ارب پتی لوگوں کے سر، کاٹے جائیں گے اور نہ ہی امریکہ میں کوئی بالشویک فرمان جاری ہوں گے۔ یہ بھی حتمی بات ہے کہ اُس کے دور میں امریکہ کے اندر سب کو روزگار نہیں ملے گا۔ وہ ایک ایسے ملک کا صدر ہے جو کپٹلزم کے عروج (دراصل زوال ) پرایک سامراجی ملک ہے ۔

سامراجی ملک امریکہ کا صدر بائیڈن مشرقِ وسطی میں بادشاہوں اور شیخوں کو عوام پر مسلط ہی رکھے گا۔ اسی ایک بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ امریکہ ہی رہے گا۔

امریکی سماج داخلی طور پر آج بہت منقسم ہے۔ یوں بائیڈن داخلی طور پر ایک بہت ہی غیر متحد ملک کا صدر بن گیاہے ۔وہ تاریخ میں سب سے زیادہ شکستہ وریختہ امریکہ چلائے گا۔ لیفٹ رائٹ کی چپقلش گلی محلے ،اور فیکلٹی فیکٹری میں موجود ہے حتی کہ اُس کی اپنی پارٹی کے اندر بھی ۔ وہ اس باہم دست وگریباں سماج کا صدر ہے ۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ بائیڈن کے پاس جو کا بینہ ہے وہ بالکل ہی سنٹرسٹ ہے ۔ اوپر سے ٹرمپ کے گرد موجود انبوہ ِ کثیر انتہائی رائیٹ اور فاشسٹ قوتوں پہ مشتمل ہے۔ بنیاد پرستی موجود ہے۔ اور امریکہ کا بنیاد پرست تیسری دنیا کی کسی بدترین بنیاد پرستی سے بھی بنیاد پرست ہوتا ہے ۔ وہ نفرت سے بھرا ہوتا ہے ، سائنس سے نفرت، ترقی اور تعاون سے نفرت ، حقوق اور جمہوریت سے نفرت ، سماج اور سماجی انصاف سے نفرت۔ ۔۔ اور امن اور پُرامن بقائے باہم سے نفرت۔ ۔۔۔

چنانچہ وہ اگر ”اچھا “ بائیڈن بن بھی جائے تب بھی اُسے ٹرمپ کی پیدا کردہ بگاڑ کو سدھارنے میں کئی برس لگ جائیں گے۔فاشزم کی واپسی کے خطرات موجود رہیں گے۔ اندھیر اپنی واپسی کے لیے ایڑی چوٹی کے زور سے لڑے گی۔ پیسہ، قوت اور دباﺅ سب استعمال ہوگا تاکہ نئی حکومت ٹرمپ کے اقدامات میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لاپائے ۔
اس لیے وہاں کے ڈیموکریٹک عوام کو ہمہ وقت خبرداررہناپڑے گا۔ امریکی عوام کو فوری اقدام پہ مشتمل سیاسی جدوجہد کرتے رہنے کی ضرورت رہے گی۔

دنیا کو،ہمیشہ یہ خدشہ رہنا چاہیے کہ امریکہ کہیں اپنی اِس داخلی خلفشار سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی بیرونی جارحیت نہ کر بیٹھے۔ اُس کے چانسز اس لیے بھی بہت ہیں کہ دنیا بھر میں محنت کشوں کی طرف سے آبادی آزادی اور خوشحالی کی اچھی خاصی مضبوط ،مقدس اور جائز تحریکیں اٹھی ہوئی ہیں ۔ایسی تحریکیں لازمی طور پر سامراج دشمن ہوتی ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*