تین تضادات

 

اس وقت دنیا میں تین بڑے تضادات موجود ہیں۔ ایسے تضادات جو کہ بنیادی بھی ہیں اور جنگ کے بغیر اُن کا حل بھی کوئی نہیں۔

پہلا تضاد:طاقتور کپٹلسٹ ملکوں کے اپنے مابین ایک طاقتور تضاد موجود ہے۔ وہ تضاد دنیا کی لوٹ مار میں حصے کی کمی یا پیشی پر ہے۔ ہر ترقی یافتہ سرمایہ دار سامراجی ملک یہ چاہتا ہے کہ غریب ممالک کے وسائل کی لوٹ میں اُس کا حصہ دوسرے سے زیادہ ہو۔ یہ تضاد اس قدر سنگین ہے کہ لوٹ میں حصہ بڑھانے کے چکر میں سرمایہ دار ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف لڑائی شروع کر کے دنیا کو دو بڑی عالمی جنگوں میں جھونک دیا۔ اور دنیا کو آپس میں بانٹ لیا۔

دوسرا تضاد: سامراجی ملکوں کا کمزورملکوں سے ہے۔کمزور ملک کا ارمان ہے کہ اس کی معاشی اور سیاسی خودمختاری بحال ہو اور وہ اپنے وسائل دوسرے طاقتور ملکوں کو چھیننے نہ دے، بلکہ اپنے غریب عوام پر خرچ کرے۔ مگر طاقتور ملک ایسا کرنے نہیں دیتے۔ ویت نام کی مثال ہی کافی ہے۔ یہاں اس نے پہلے فرانس سے اور پھر امریکہ سے طویل لڑائیاں لڑ کر نجات پائی۔

تیسرا تضاد: ہرملک کے اپنے اندر اُس کے حکمران طبقے کا اپنے غریب طبقے سے تضاد۔ بالادست طبقہ ہر طرح کی طاقت اور استادی استعمال کر کے ملک کے وسائل لوٹ کر اپنی دولت بڑھاتاہے۔ مگر عام غریب طبقہ ان تھک مشقت کے باوجود سُکھی زندگی کے لیے ترستا رہتا ہے۔ اس کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے، روزگار نہیں ہے۔ اس کے باوجود کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے پیداوار کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ مگر سب کچھ جاگیردار کا زردار کا!۔روسی اور چینی انقلاب سے لے کر کیوبا کے انقلاب تک اس تضاد کی بڑی مثالیں ہیں۔

امریکہ آج دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے۔اس کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ کسی بھی کیلکو لیٹر کے رینج میں نہیں آتا۔ اس کی دہشت ورسوخ اتنا کہ بس خواہش کرے، اورخواہش پوری۔ اس کے پاس سال کے ساڑھے چھ سو عرب ڈالر صرف فوج پر خرچ کرنے کے لیے موجود ہیں۔ وہ دھڑا دھڑ اسلحہ بناتا ہے اور اسے پسماندہ ممالک پہ بیچتا ہے۔ وہ ایسا اُن کی ضرورت کے لیے نہیں کرتابلکہ زبردستی بیچتا ہے۔ وہ یہ اسلحہ سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک پر بیچتا ہے۔ پھر اسلحہ بناتا ہے،پھر اِن تیل سے بھرے شیخوں پر بیچتا ہے۔

ٹرمپ سعودی عرب کو اگلے دس سالوں میں 350 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچنا چاہتا ہے۔ اس سال مشرق وسطی کے ممالک کو بیچے جانے والے امریکی اسلحے کی مالیت دگنی ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے سال دنیا بھر میں بیچے جانے والے امریکی اسلحے کا 22 فیصد صرف سعودی عرب نے خریدا تھا۔ 22فیصد کا مطلب اسلحہ کا چوتھا حصہ!۔ بھلا اپنی مرضی سے کوئی اِس طرح کرسکتا ہے؟۔2013 سے 2017 تک امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار سعودی عرب تھا۔ وہ بے چارے خرید نے پر مجبور ہیں۔ بے چارے اس لیے کہ سارے مشرق وسطی میں ساری حکومتیں اقلیتی ہیں، وہ عوام میں سے نہیں ہیں بلکہ وہاں موجود امریکی فوجی اڈوں کے ذریعے تخت نشین ہیں۔ ان کا سارا داخلی خارجی معاشی اورسیاسی ایمان امریکہ کے پاس ہے۔

ذرا سوچیے، سعودی عرب، قطراور دیگر عرب ریاستیں اتنا بھاری اسلحہ کس لیے خرید رہی ہیں؟۔ لڑنا وڑنا تو انہوں نے ہے نہیں۔ لے دے کے ایک یمن رہ گیا جہاں سعودی بادشاہ حملہ آور ہے اور بے دردی سے لوگ مر رہے ہیں۔ مگر یہ جنگ بھی معلوم نہیں سعودی کی طرف سے کون لڑ رہا ہے۔ باقی شیخوں سلطانوں کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔اسرائیل سے اُن کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ کسی اور ملک سے تو خطرہ ہے نہیں۔ بس بہانے کے طور پر ایران رہ گیا ہے جس سے خطرے کا بہانہ بتا بتا کر وہ ہر سال اربوں ڈالرز کا اسلحہ خریدتے چلے جاتے ہیں۔

اور یہ ایران؟۔ ایران سب سے بڑے امریکی کھیل کا نام ہے۔اگر ایران بڑا خطرہ ہوتا تو امریکہ اسے تباہ و بربادنہ کرتا؟۔ارے ایران تو سونا دینے والی مرغی ہے امریکہ کے لیے۔ اُس کا خطرہ بتابتا کر وہ عرب عوام کو اپنے حکمرانوں کے ہاتھ توڑنے سے بچاتا رہتا ہے۔ ورنہ وہاں کے لوگ اپنے بادشاہوں شیخوں کواسی اسلحہ میں دفن کردیتے۔ اسی لیے امریکہ ایران کو برقرار رکھتا ہے۔ وہ بھلا پنے ہاتھوں اپنی اس مارکیٹ کو کیوں گنوائے گا؟۔

پہلے بھی امریکہ نے اُس خطے میں تین نائب پال رکھے تھے: اسرائیل، بادشاہی سعودی عرب اور بادشاہی ایران۔

بادشاہی ایران 1979میں اُس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ وہاں امریکہ دشمن (سامراج دشمن نہیں) ملّا قابض ہوگئے۔ یہ ملّا مشرق وسطی کی بہت بڑی شیعہ آبادی والے سارے ممالک میں بھی اقلیتی حکمرانوں اور بادشاہوں کے مخالف ہیں۔ امریکہ نے یہ موقع غنیمت جانا۔ اس نے اپنے نشریاتی اداروں سے،اور ہلکی پھلکی جھڑپیں کروا کر ایران کو اِن شاہوں کے لیے ایک خطرہ،ایک ہوا بنا کر کھڑا کردیا۔ امریکہ کو جب بھی اِن شاہوں سلطانوں سے مسئلہ ہوتا ہے تو وہ ایران کا خوف اُن میں ڈال کر اپنی منشا اُن سے پوری کرواتا ہے۔

مگر ساتھ میں اس نے ایران کے دانت بھی بہت کُند کردیے ہیں۔ اس نے معاشی پابندیاں لگا لگا کر ایران کے دست وقویٰ مضمحل کرڈالے۔ اس حد تک کہ اب ایران امریکہ کے لیے manageableہوچکا ہے۔

دوسرے لفظوں میں ایران امریکہ کے ہاتھ ایسازبردست ہتھیار ہے کہ جسے نہ وہ بہت طاقتور بننے دیتا ہے اور نہ بہت کمزور۔ طاقتور ہونے دیگا تو ایران مشرقِ وسطیٰ پہ چھا کرامریکہ کے قائم کردہ سوسالہ نقشے کو بدل ڈالے گا۔ مگر اگر اسے بہت زیادہ کمزور کرے گا تو سعودی، قطر، بحرین، یو اے ای وغیرہ بلیک میل ہونے میں نخرے دکھائیں گے۔

معلوم بات ہے کہ ہمارے خطے میں ریاستوں کی ریاستیں سعودی یا ایرانی پراکسی کا رول ادا کرتی آرہی ہیں۔ البتہ اِن دونوں ملکوں کے غیر ریاستی پراکسی بھی ہر ملک میں موجود ہیں۔ بالخصوص ایرانی پراکیسز کا کردار مشرق وسطی میں جتنا بڑھتا ہے عرب بادشاہوں کی پریشانی بھی اتنی ہی بڑھتی ہے اور اس پریشانی کے عالم میں انہیں امریکہ کے سامنے جھکنا پڑتا ہے۔

حال ہی میں امریکہ نے ایک ایرانی جرنیل کو دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد کہہ کر ڈرون ماردیا۔ پھر اُس پہ نئی پابندیاں لگادیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ایک سامراجی ملک ہے۔ امریکہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر ممالک کی معاشی سیاسی نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایران پر اس کی جارحیت اور حملوں کو اسی تناظر میں دیکھا جائے۔ یعنی امریکہ سامراج ہے۔

ایران کے معاملے سے ہٹ کر دیکھیں تو امریکہ نے کیوبااور وینز ویلا پہ بھی بلاجواز معاشی تجارتی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اس نے بلیویا میں منتخب حکومت کا تختہ ابھی ابھی الٹ دیا۔اِن حرکات کی بنا پردنیا بھر میں اس کی مخالفت ہوتی ہے۔ اور اُس کی مخالفت ہو نی بھی چاہیے۔

مگر امریکہ ایران کشمکش سے ہٹ کر اِن دونوں ملکوں کے اندر دیکھیں تو وہاں امیر غریب کے درمیان ایک جاری جدوجہد موجود ہے۔

اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران پہ ساری امریکی بدمعاشی امریکہ کی بدترین سامراجیت ہے۔ اس کی بھر پور مخالفت ہونی ہی چاہیے۔ اور اُس کے مقابلے میں ایک کمزور ملک کی حیثیت سے ایران کی حمایت کرنی چاہیے۔

مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ایران کی سرمایہ دارانہ ملائیت کے ہاتھوں وہاں کے عوام پر پچاس برس سے جاری ظلم وجبر کو روا سمجھا جائے۔ ایران ایک طبقاتی ریاست ہے۔ وہاں مزدور طبقے اور بالادست سرمایہ دار ملائیت کے درمیان طبقاتی تضاد موجود ہے۔ اور یہ تضاد اور یہ جدوجہد صدیوں سے جاری ہے۔ ظاہر ہے جمہوری لوگ اس طبقاتی جدوجہد میں ایران کی سرمایہ دارانہ ملائیت کی زبردست مخالفت کرتے ہیں۔یوں، امریکی سامراجی جارحیت کی مذمت بھی فرض، اور ایرانی سرمایہ دارانہ ملائیت کی مخالفت بھی لازم۔ ایران کے مزدور طبقے اور محنت کش عوام کی جمہوری جدوجہد کی حمایت سب اچھے اور نیک لوگ کرتے ہیں۔

جہاں تک امریکی سامراج اور اس کے مقابلے میں کمزور ایران کے تضاد کا سوال ہے تو دنیا کو امریکی سامراج کے مقابلے میں کمزور ایران کی طرف دار ی کرنی ہے۔ اور جہاں تک ایرانی سرمایہ دار اور ایرانی مزدور کے تضاد کا سوال ہے تو اس میں بلا شک و شبہ ایرانی سرمایہ دار کے خلاف ایرانی مزدور طبقے کا ساتھی ہونا چاہیے۔

ہمیں دنیا کو سمجھنے کے لیے اُس میں موجود تینوں بڑے تضادات کو دیکھنا چاہیے۔ یہ تضادات سیاسی سماجی ورکر اور دانشور کو حفظ ہونے چاہییں۔ ان میں سے کسی بھی ایک تضاد کو نظر انداز کرنے سے دنیا کی سمجھ نہیں آسکتی۔ دنیا میں رونما ہونے والے سارے بڑے سیاسی فوجی اور معاشی واقعات کی تہہ میں یہی تین تضادات موجود ملیں گے۔

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*