بندوق اور بانسری برداروں کا سبطِ حسن

 

کوئٹہ سے 100 کلومیٹر دور مسلم باغ میں ایک نائی ہے۔ اسے سبطِ حسن 16 فروری 1986ء کو خط میں لکھ رہا تھا کہ:’جہاں تک مذہبی عقائد کا سوال ہے تو آپ ان بحثوں میں نہ پڑا کریں۔ ملک کا اصل مسئلہ اقتصادی اور سیاسی ہے اور جو طبقے ان مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے وہ عوام کو مذہبی مسائل میں اُلجھا کر اُن کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ آپ اگر ان مذہبی مسائل میں اُلجھے تو آپ اُن منصوبوں کو طاقت پہنچائیں گے‘۔میں آپ کو زورِ باطل کے سامنے کھڑے، بڑے بزنجو کے گھر نال نہیں لے جاؤں گا۔ اس لیے کہ آپ ویسے ہی یقین کرلیں گے کہ سفید پتھر سے بنی قبر کے مالک کی لائبریری میں سبطِ حسن کی کتابوں کا پورا سیٹ رکھا ہے۔اس کی یہ کتابیں سلامت نہیں بلکہ زخمی زخمی ہیں۔ اس لیے کہ بزنجو صاحب تو انڈر لائن کرتا تھا، سوالیہ نشان لگاتا تھا اورحاشیوں پر اپنا تبصرہ لکھتا تھا۔ہمارا بابا اپنے حامیوں اور ساتھیوں کو لیکچر نما گفتگو میں اُس کی کتابوں کے حوالے دیتا تھا، فقرے کوٹ کرتا تھا۔ کتنا اچھا تھا سبط حسن جو بزنجو کی مقدس زبان کی سواری کرتا ہوا بلوچ کے دل دماغ پہ جاگزیں ہوجاتا۔ہمارے شاعرِ اعظم نصیرِخوش کلام نے 30 برس کی جیل کاٹی۔ اسے جب بھی جیل سے فرصت ملتی تو اس کی شام زمرد حسین کی کتابوں کی دکان میں گزرتی۔اور اس دکان کی شیلفیں مہینے میں کئی بار سبط حسن کی تصانیف سے بھرجاتیں اور پھر خالی ہوجاتیں اور ہر خریدار، میرگل خان نصیر سے سبط حسن کی کون سی کتاب پہلے پڑھنے کا مشورہ ضرور لیتا۔۔۔ گل خان، سبط حسن ، بلوچستان۔دور کیوں جائیں۔ آج کی بلوچستان کابینہ میں جھانکیں ،25 فیصد سے زائد وزیروں کو سیاست پر بات کرنا تک سبط حسن والوں نے سکھا رکھا ہے۔آج کی بلوچستان اسمبلی اور وہاں سے سینٹ اورقومی اسمبلی کے ممبروں میں سبطِ حسن کو پڑھے ہوئے کئی لوگ شامل ہیں۔ہمارے سول سیکرٹریٹ کے سیکریٹری لیول کے کئی افسراپنی کرتوتیں چھپانے کو سبط حسن سے کوٹیشنیں آپ کے کانوں میں پھونکیں گے۔بلوچستان ہائی کورٹ میں موجود ایک آدھ جج سبطِ حسن کے شاگردوں کے بطور موجود ہے۔پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اورنیشنل پارٹی جو کہ حکمران پارٹیاں ہیں سبطِ حسن کی پیروکاری پر فخر کرتی ہیں۔اسی طرح سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے افراد حزب اختلاف کے لوگ ہیں مگر اُن کی قیادت بھی سبطِ حسن اور اس کی تصانیف سے روشنی لیتی ہے۔اسی طرح وہاں پہاڑوں میں موجود گوریلا کمانڈ میں سبطِ حسن کی کوئی ایک بات، کوئی ایک فقرہ ضرور ٹمٹماتا ملتا ہے۔میں نے تو سبطِ حسن کی تعلیمات کے الٹ چلنے والی سیاسی پارٹیوں کی مرکزی کمیٹیوں میں بھی اُس کے شاگرد دیکھے ہیں۔دلچسپ ہے کہ بلوچستان میں بندوق اور بانسری بردار دونوں کے ہاتھوں میں سبطِ حسن رہا ہے۔مزید ماضی قریب کی طرف آئیے تو آپ کو بتاؤں کہ ابھی کچھ عرصہ قبل ہمارا ایک دانشور ایسکائی لس کے شاہکار ڈرامے ’پرومیتھی اس باؤنڈ ‘ کے بلوچی ترجمے میں مشکل محسوس کررہا تھا۔قدیم انگریزی کے موٹے اور نا آشنا الفاظ کے علاوہ وہ اس بات پہ سرگرداں تھا کہ ڈرامے میں دو کردار تھے۔ ایک کا نام فورس تھا اور دوسرے کا پاور۔۔ ان کا بلوچی میں بھلا کیا ترجمہ ہو؟اس کی یہ پریشانی جلد ہی دور ہو گئی اس لیے کہ اُسے کسی نے بتایا کہ وہ اِس ڈرامے کے آسان اردو ترجمے سے مدد لے جو اُسے، نویدِ فکر نامی کتاب میں ملے گا۔میں نے نئی نسل کی نوشین قمبرانی سے اچانک پوچھا کہ اس نے سبط حسن کو پڑھا؟ جواب تھا : ’ہاں ناں، موسیٰ سے مارکس ، نہیں پڑھا ہوگا میں نے‘؟ ۔۔۔مکران کے بوڑھے پروفیسر غنی پرواز نے کہا : ’جس قدر تیزرفتاری، جامعیت اور دلجمعی سے وہ لکھتا تھا، اسی قدر تیز رفتاری سے وہ مقبول ہو گیا‘ ۔۔۔ میرا اضافہ ’سبط حسن نے پڑھنے کی اس وبا کو اور بڑھا دیا جو کرشن چندر، ساحر، جالب، فیض اور گل خان نے برپا کی تھی‘۔سید سبطِ حسن جسمانی طور پر بلوچ آسمان کا تارا نہ تھا۔ وہ ہمارے کوہساروں کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ نہ رکھتا تھا۔ مگر بلوچستان کا کونا کونا اس سخن دان سے بخوبی واقف تھا۔یہ شخص ہمارے صحرا کا آہو رہا، ہمارے موسم کا چکور بنا اور ہمارے نظریات کا حوالہ بنا رہا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے خاک میں پڑے لوگوں کو آگے کی جانب چلتے رہنے کی ترغیب دی۔ آگے کی جانب بڑھتے رہنے کے لیے راستہ دکھانے والے سکاؤٹ کا کام کیا۔اس نے محکوم کو یقین کا جہاں تھما دیا تھا، قومِ ستم زدہ کے نحیف کنجشک کو شاہیں سے لڑنے کے لیے فکری پنجے مہیا کیے تھے۔میں بلوچستان کے اندر بھوک اژدھا کے نگلے ہوئے اوربے چارگی میں لپٹے ہوئے بہت سے افراد کو جانتا ہوں، جن کی اندھیر دنیا کو سبط حسن نے فکری روشنی مہیا کی۔المیوں اور جبرِ پیہم سے گھرے ہوئے، اپنے آپ سے ناراض، تشکیک زدہ اورسماج سے اکھڑی ہوئی بے شمار ارواح کو سبطِ حسن نے بیگانگی کے ذلت بھرے کھڈ سے نکال باہر کیا اور انھیں واپس اُن کے اپنے سماج کی کھونٹی سے لا کر باندھ دیا۔میں نے دکھ کے پکے رنگوں کو سبطِ حسن کی تعلیمات کے ہاتھوں عزم کے خالص جذبوں میں ڈھلتے دیکھا۔ میں نے اُسے کئی اذہان میں موجود وہم کے محل کو evaporate کراتے دیکھا۔اس نے بلوچستان میں شعر و کلام کے مالک کو محض جبرِ زماں کے نوحے لکھنے کے بجائے یقینِ منزل کے ترانے لکھنے کا ماحول میسر کیا۔سبط حسن کی کتابوں سے بلوچ سماج کے قافیے درست ہوئے اور ردیفیں مسکرائیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج بھی روتے گوادر کی آنکھوں کا آنسو چوس، Battle of Ideas کے صفحات ہی میں ملے گا۔یہ جو ڈنڈا بردار نقاب پوش خواتین کی تعداد کم ہے بلوچستان میں ، تویہ مستیں توکلی سے لے کر سبطِ حسن تک کے قبیل کے لوگوں کی مرہونِ منت ہے۔یہ جو کوششوں دھمکیوں کے باوجود ہماراسماج، انتہا پسند نہیں ہورہا تو یہ بزنجو اور سبطِ حسن کے پیدا کردہ ماحول کے سبب ہے۔یہ جو ڈالروں ریالوں کی بارش کے باوجود بلوچ سماج بنیاد پرست نہیں بن رہا تو اُس کے پیچھے سبطِ حسن جیسے شاشان پہاڑ کھڑے ہیں۔یہ جو نیلی پیلی اور سبز و لال مسجدوں میں بلوچ کا نہ بٹنا ہے، یہ جو مرید کے نہیں سجتے اب تک میرے وطن میں اور یہ جو مزاروں کے غسال سیاست کار اپنے قدم نہ جما سکے بلوچستان میں، تو یہ انہی عالموں فلاسفروں کی تعلیمات کی برکت ہے۔یہ جو کتاب و قلم کے ورکر، بلوچ کو آباؤ اجداد کی لوریاں سنا سنا کر شاونزم پھیلانے والوں کی راہ کی دیوار بنے نظر آتے ہیں اوراپنے عوام کے ہاتھوں میں سائنسی مینی فسٹو تھمانے میں جتے ہوئے ہیں، وہ تصورسبط حسن ہی کا دیا ہوا ہے۔انہی بڑے لوگوں کی محنت کی وجہ سے عوام الناس نے سگ صفتوں کے سامنے گردن نہ جھکانا سیکھا ہے۔ذہنی آبیاری کیے بغیر وقت کے قیصر سے کوئی نہیں الجھتا، خلعت فاخرہ کو کوئی نہیں ٹھکرا تا۔ افلاس کی ماری مخلوق کو، فدوی اور فیض گنجور کے الفاظ استعمال نہ کرنے کی ترغیب کسی نے تو دی ہوگی ۔۔۔ہمارے عوام نے مست و گل خان، ساحرو کرشن اور سبط حسن و جلالپوری جیسے لوگوں سے سیکھا کہ ’سمندر فروشوں سے پیار نہ کرنا‘۔ بلا شبہ ہمیں کتاب نے اتنا ہی زیادہ فائدہ دیا جتنا کہ ہماری اپنی سامراج دشمنی کی تاریخ نے۔1991 ءکے بعد مجسمے ڈھائے جانے کی جو آندھی دنیا بھر میں چلی، اس نے بڑی بربادی بلوچستان میں کی۔ 2005 ء کے بعد تو اٹلی کے دانتے والا دوزخ، پورے کا پورا، بلوچستان شفٹ ہو چکا۔سرکار اور بلوچ کی ہلاکت خیز و خوں افشاں لڑائی میں، لاشیں ماتمی آنگنوں کا مقدر بنیں۔متحارب فریق وفاداریوں کے بارے میں بہت حساس ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ جو جو لڑائی میں کام آیا سو آیا۔ مگر مورچے سے باہر’تم کس کے ساتھ ہو‘ ایک قاتل فقرہ بنا۔واقعات کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، بس یہ کہوں گا کہ رازق بگٹی سبطِ حسن سے سٹڈی سرکلیں لیتا تھا، فدا بلوچ سبط حسن کا پیروکار تھا، ڈاکٹر مالک بلوچ ابھی حال تک سبط حسن کے بلوچی تراجم کرنے کی مہم چلا رہا تھا، مولا بخش، ڈاکٹر اللہ نذر اور ذاکر مجید، سبط حسن کے جملے بولتے تھے۔۔۔سوویت یونین کیا ٹوٹا کہ سبطِ حسن کے بیٹے ’وفادار اور غدار‘ کے خونیں خانوں میں پٹخ دیے گئے۔میں اس حقیقت کو مانتا ہوں کہ جب عوام الناس کی ایک آرگنائزڈ اور مقبول سیاسی پارٹی موجود نہ ہوتو سبطِ حسن اپنے قاری وزیر کو، بیوروکریٹ کو، گوریلا لیڈر کو اور ٹھیکیدار کو کرپشن اور ناجائزیت سے نہیں روک سکتا۔ نہ ہی وہ اپنے مڈل کلاس دانشور کو موقع پرستی سے باز رکھ سکتا ہے۔بلا شبہ کتاب کے بغیر انقلاب لانا، سنبھالنا اور اسے ترقی دینا بہت مشکل ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب محنت کشوں کی ایک منظم و مقبول سیاسی پارٹی موجود نہ ہو توسبطِ حسن کے قاری آپ کو بورژوا پارٹیوں کی منشی گیری کرتے نظر آئیں گے۔انسانوں کو سفر در سفر ریگزار کے دائرے سے نجات تو ایک تحریک دیتی ہے۔ تحریک موجود نہ ہو تو کتاب کا رول گھٹ جاتا ہے۔تحریک موجود نہ ہو تو لوگوں کی حکومت کے بجائے سردار ہی وزارت اعلیٰ کی باریاں لیتے ہیں۔ تحریک نہ ہو تو یادرِفتگاں میں فکرِامروز شامل ہی نہ ہو سکے گا۔آج بلوچستان کی زلفیں ژولیدہ ہیں۔ بلوچ کی داڑھی کو کنگھی کا ہوش نہیں۔ ہم صلیب و وفا کے ابدی دائرے میں آج ذرا زیادہ غلطاں ہیں۔ہم خودکُشوں کے بموں کا شکار اور برادرکش خانہ جنگی کے خرابے میں بھی ڈوبے ہوئے ہیں۔ہماری سماجی صف بندی ذرا بدک گئی ہے۔ لائنیں کچھ بدنظم ہو گئی ہیں۔ بدی کی طاقت عریاں ڈکراتی پھرتی ہے۔ کہکشاؤں کے سفر درپیش لوگ، کھائیوں اور گڑھوں میں جاں گزیدہ پڑے ہیں۔اِن شب خونیوں، شکوک و شبہاب ، عیش پرستی، تنہائی، بے گانگی، بے توقیری اور بے بسی کا راستہ روکنے کے لیے جو لوگ محبتوں کا حصار باندھے کھڑے تھے، ایک ایک کرکے مرتے جارہے ہیں۔چنانچہ خون سے لت پت شہروں اور وادیوں میں، بادام کے پھول کِھلنے میں ابھی ذرا دیر ہے۔ درد کی تحریک کے انمول موتی منظم ہونے میں ابھی کچھ اور دیر لگائیں گے۔مگر وہ جب بھی رم ہوں گے تو تہی داماں ہر گز نہ ہوں گے۔ عشاق کے قافلوں کی گرد اور حصولِ حسن کے قاتل رستے پر موجود صلیبیں اُن کا سنگِ میل ہوں گی۔طاقِ دلِ خستہ پر پڑے سبطِ حسن کے نسخے اُن کے سپرد ہوں گے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*