گھوم چر خڑا گھوم

 

جابجا رسیوں سے مضبوطی سے گانٹھ دی گئی۔ بدرنگی چپلوں میں گرد میں اٹے، کٹے پھٹے پیر سائیکل کے پیڈل پر دائرے میں گھوم رہے تھے۔ پہیوں سے اٹھتی دھول میں بگولے سے بنتے تھے۔ رمجو کو سائیکل آگے دھکیلنے کے لیے اپنے پیروں پر پورے تن کا زور لگانا پڑتا تھا۔ چڑخ چو۔ چڑخ چو

”جور کہاں سے آئے! آٹا ختم، پتی ختم، چینی ختم پر جورو کی ہائے ہائے ختم ہونے کو نہ آئے۔ حرامجادی بس بچے چننے کو ہے۔ پہلے کئی گھروں کا کام نبٹا لیتی تھی، سویرے چائے تو مل جاتی۔“

رمجو سائیکل کے ہینڈل پر جھکا اُسے رام کہانی سنا رہا تھا۔ سائیکل کی چڑخ چو اپنا دکھڑا سنا رہی تھی۔ پکی سڑک پر آنے کے لیے ذرا دیر کچے پر سائیکل چلانا پڑتی تھی۔ مٹی کا غبار چھتری تانے ہوتا۔ جیسے ساحل سمندر پر ریت میں دبے ہوئے انڈوں میں سے نکل کر کچھوؤں کے بچے بے تابانہ پانی کی طرف لپکتے ہیں ویسے ہی رمجو کے ننھے منے سائیکل کے پیچھے دوڑ لگاتے۔ ”ابا۔ او با۔۔ اوئے ابا!۔۔

رمجو کو تو اتنی گنتی بھی نہیں آتی تھی جتنے اس کے بچے تھے۔ رمجو جو کبھی محمد رمضان بھی تھا۔ پہلے لاڈ میں اور پھر حقارت سے رمجو ہوگیا۔

شہر سے باہر ذرا فاصلے پر بائی پاس تھا۔ اس کے نزدیک ہی ایک چھوٹی سی آبادی اپنی مدد آپ کے تحت بنی ہوئی تھی۔ چند کچے پکے مکان، مویشیوں کا باڑہ، چھوٹی سی مسجد، رمجو کا چھپر بھی سڑک سے تھوڑا ہی دور تھا۔

”‘بھوکے رُوں رُوں کرتے بال سڑک پر چلے آتے ہیں۔ کسی موٹر کے پہیے تلے روندے گئے تو چیاؤں بھی نہ کرسکیں گے،،۔

رمجو نے بڑبراتے تن کا سارا زور پیروں پر ڈالا۔

نمک مرچ سے بھرا ٹین کا ڈبا بھی ہینڈل کے ساتھ لگا کھڑک رہا تھا۔پچھلے پہیے پر لگے کیریر پر دوبوریاں دھری تھیں۔ ایک بوری میں ہرے پتوں میں ملفوف، سنہری ریشم سر یرسجائے مکئی کے بھٹے ہر دھچکے پر جل بھننے کے خوف سے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے۔ دوسرے میں لکڑی کے ٹکرے، ردی اخبار، نمک کڑاہی۔

شہرپہنچ کر ایک درخت کے نیچے اینٹیں جوڑ کر چولہے میں بھانبڑ جلاتا۔ اکڑوں بیٹھ کر چھلیاں بھنتا۔ آتے جاتے دفتر کے بالوؤں، مٹھیوں میں سکے بھینچے ہوئے سرکاری سکول کے بچوں کے لیے ناشتہ لنچ کا سامان ہوجاتا۔

نماشاں ویلے سے پہلے ہی گھر پہنچنے کی کوشش کرتا تھا۔ گھر پہنچتے ہی جھکے ہوئے کندھوں کے ساتھ سر نیہواڑے بیباسا رمجو ببر شیر بن کر دھاڑتا۔ ”کُتی نے جَم کے گلی میں پھینک دیے کتورے۔ کسی گڈی تھلے آکر مرگئے تے خیراے۔ اگر کسی کی ٹانگ بازو ٹُٹ گئی تو رجمو کے سر پڑیں گئے۔ نہ رکھن جُو گے نہ سُٹن جوگے“۔

آگ کم دھواں زیادہ چھوڑتی کپاس کی سوکھی چھٹیوں کو سلگا کر موٹے موٹے روٹ تھوپتا۔ سلور کی پچکی ہوئی پتیلی میں پانی چینی پتی میں ذرا دودھ ملا کر مٹی کے بنے چولہے پر رکھ دیتا۔ کنارے ٹوٹے پیالوں میں بچے کاڑھا سُڑک سُڑک پیتے ہوئے روٹی کے نوالے حلق کے نیچے دھکیلتے۔

ایک پیالہ میں چائے اور چنگیر میں روٹی رکھ کر چھپرکے اندر پڑی ہوئی بیوی کو پکڑاتا۔ روٹی دیتے ہوئے رمجو کا دل نرم پڑجاتا۔ ”میری تو بانہہ تھی، دِق بھی تو گریب ماڑوں ہی کو چمٹے“

کھوں کھوں رکے تو نوالہ منہ میں جائے ہڈیوں کا پنجر بنی ہوئی صفری سے تو اب خود سے کروٹ بھی نہ بدلی جاتی تھی۔ سیدھے لیٹے کمر پر گھاؤ بن گئے تھے۔ دوا دارو، دم درود سب لاحاصل۔

جس دن ذرا زیادہ بکری ہوجاتی۔ واپسی پر رمجو سوجی چینی گھی لے آتا۔ چھلیاں بھننے والی کڑاہی بہت سے مانج کر صاف کرتا۔ پھر اس میں حلوہ بناتا۔ سب نیم دائرے میں چوکڑی جما کر بیٹھ جاتے مزے لے کر حلوہ کھاتے۔ حلوے کی مہکار چار چوفیرے پھیل جاتی۔ دو فرلانگ دور ڈبے کی مانند چاروں طرف سے بند پختہ مکانوں تک بھی جا پہنچتی۔ لوہے کے دروازے، کھڑکیوں میں پیوست راڈ، اینٹوں کی بدنما سمیٹ اکھڑی، بیگانگی جمی دیواریں بھی اس مہکار کو نہ روک پاتے۔

سکول ماسٹر کی بیوی ناک سیکٹر کر کہتی۔ ”بچوں نے تو پاجامہ بھی نہیں پہنا ہوتا سارا دن مٹی میں لڑھکتے رینگتے رہتے ہیں ذرا پیسہ ہتھیلی پہ آئے عیاشیاں شروع ۔

ماسٹر جلے دل کی بھبک سے آنکھ میچ کر منہ میں حلوے کی مٹھاس چسیاتے ہوئے بولا۔ ”حلوہ تو کھالیتے ہیں ناں۔آج حلوہ ہی بنا لو۔ بچے خوش ہو کر کھاتے ہیں“۔

بیوی بھڑک کر بولی۔”رہنے دو جی! بچوں کی فیسیں بھرو کہ انہیں حلوے کھلاؤ“

ماسٹر منمناکر بولا۔ ”کہا تو تھا کہ بچوں کو اپنے ہی سکول میں داخل کروا دیتا ہوں۔ کتابیں بھی گورنمنٹ مفت دیتی ہے۔ تم نے ایک نہ سنی، پرائیویٹ سکول ہی کی رٹ لگائے رکھی۔“

بیوی جھلا کر بولی۔ ”’مفت کتابیں سر پر مارنی تھی۔

”ماسٹر لگے بندھے سکول چلے تو جاتے ہیں۔ واں کرسیوں پر بیٹھ موبائلاں پر گیماں کھیل کر تھکے ماندے گھر آتے ہیں اور پھر حلوہ مانگے ہیں،،

ماسٹر نے عینک کے شیشوں کے اوپر سے بیوی کو ایسے بغور دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ پھر ایک ٹانگ اٹھا کر دوسری ٹانگ پر رکھی۔ کمر کو کرسی کی پشت پر لگاتے ہوئے جوابی سڑوک لگایا۔ ”یہ شوق کی چوڑیاں ہیں تنگ کرتی ہیں تو روتی کا ہے کو ہو کہ سکول والے بہانے بہانے سے پیسے بٹورتے ہیں“

بیوی نے نظریں چرا کر پیالے میں پڑی دال میں سے روڑ نکالنے شروع کردیے۔ کہیں گم ہوتی آواز میں بولی۔“روتی کب ہوں! جب رمجو کے گھر حلوہ بنتا ہے تو تمھی سیاپا ڈال کر بیٹھ جاتے ہو“۔

”آہو جی! پاجامے پہنو یا حلوے کھاؤ“

ماسٹر زہر خند لیے بولا۔

رمجو موسم کے ساتھ اپنی سائیکل ہٹی کا اسباب بھی بدل لیتا۔ کبھی شکر قندی، کبھی برف کے گولے، کبھی کیا اور کبھی کیا۔ لیکن آفت تب آتی۔ جب بارش آندھی آتی روز کنواں کھود کر پانی نکالنے والے کہاں جائیں!

چولہا ٹھنڈا پڑ جاتا۔ شکم کی آگ بھڑک اٹھتی۔ اس بار تو ایسی جھڑی لگی کہ تھمنے کو نہ آئے۔ موسلا دھار رحمت سے چھپر کا چھت ایک طرف سے ٹپکنے لگا۔

خنک ہوائیں، پتیلے میں گرتے قطروں کی ٹپکار۔

گاہے گاہے بجلی چمکتے لہراتے مہیب کڑک کے ساتھ دانت کچکچاتے ہوئے دھرتی کی طرف لپکتی۔

چھپر کا کچا فرش کیچڑ ہوگیا۔ ایک چار پائی پر صفری پڑی تھی۔ رمجو نے دوسری چارپائی پر گھر کا سارا سامان رکھا۔ اور سامان کے اوپر سارے بچے ٹکا دیے۔ ڈبوں کنسترکے اندر اوپر ہر سائز کا بچہ چوں چرا کیے ہوئے تھا۔ رمجو کیچڑ میں شڑاب چڑاپ کرتا کبھی چھپر کے اندر کبھی باہر۔ چھپر کی چھت پر ذرا سا جھاڑ پھونس کا آسرا ہی رہ گیا تھا۔

اس موسم میں تو کوئی خیرات بھی نہ کرے نہ کوئی مرے کہ چاولوں کی پلیٹ ہی گھر آجاتی۔“

رمجو برستے آسمان کی طرف دیکھ کر گڑ گڑایا۔ ”ربا! کسی کی آئی بھیج دے۔ بالاں دی بھک نہیں ویکھی جاتی“۔

کِل بِل کرتے بچوں میں سے کسی ایک نے بلبلا کر رونا شروع کردیا۔ رمجو چیخ پڑا۔ ”اوئے چپ کرو بھتنی دے او! ہر سال انھے وا اس طرح آئے جاتے تھے جیسے جمین پر مَنّے پکوان پکا رکھے ہیں۔“

کیا ات مچا ہے ہر طرف پانی پانی اور پینے کو دو گھونٹ پانی نہیں۔صفری کی نہ رکنے والی کھانسی نے بے حساب رزق دینے والے سے شکوہ کیا۔

”مولی کہتا ہے رب پتھر کے اندر کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے“۔

نزدیک ہی گائے بھینسوں کا باڑہ بنا ہوا تھا۔ بھینسوں کے چاکر سے رمجو کی اچھی دعا سلام تھی۔ رمجو جو سودا بھی اپنی چلتی پھرتی مکان پر لگاتا۔ چاکر کو آتے جاتے کچھ نہ کچھ پکڑا دیا کرتا۔ کبھی چھلی، کبھی شکر قندی کبھی کچے امرود۔ اس لیے چاکر ہتھ نلکے سے اس کے پانی بھرنے پر اعتراض نہ کرتا۔ رمجو اندھیرا پھیلنے سے پہلے رمجو پلاسٹک کی چھوٹی بالٹی پانی کی بھر لایا۔ ذرا سی شکر ملا کر میٹھا پانی بچوں کو پلایادو گھونٹ صفری کے منہ میں ٹپکائے۔باتی بچا پانی اپنے اندر انڈیلا۔ بچے تھکے پار کر مچان پر ہی اٹکے لٹکے سو گئے۔رمجو ٹوٹی پیڑھی صبر شکر کیے بیٹھ رہا۔ کسی طرح یہ رات گزرے۔ شاید گزر ہی جائے۔

سحر ہوتے ہی مولوی نے اذان دی، سڑک پر بھی رات پھر چلنے والے ٹرک رک گئے۔ دھلی دھلائی سڑک سنسان پڑی تھی۔ مینہ کی ہلکی سی کنٹرمنڑ جاری تھی۔ کچھ ہی دیر میں کاریں وین بسیں رواں ہونگی۔ اذان کے بعد بچوں کے ڈھیر میں بھی ہلچل سی ہونے لگی۔ کچھ سوتے ہی سسکیاں لے رہے تھے کچھ جاگتے رُوں رُوں کا باجا بجارہے تھے۔ بالٹی اٹھا کر رمجو نے بالٹی کے اندر جھانکا۔ تلچھٹ میں کچھ میٹھا پانی موجود تھا۔

جیسے ٹرین پلیٹ فارم چھوڑنے سے قبل سیٹی بجاتی ہے۔

صفری کے گلے سے ایسے آواز نکل رہی تھی۔ ہونٹوں کے کناروں پر لال دھڑی جمی ہوئی تھی۔ رمجو نے بالٹی کا پانی مٹی کے کوزے میں احتیاط سے انڈیلا۔ کوزہ لیٹی ہوئی صفری کے لبوں سے لگادیا۔سوکھی چھال ہوئی زبان نے پانی جذب کرلیا۔ صفری نے بے قراری سے زبان ہونٹوں پر پھیری۔ حلق میں خشکی سے ٹھسکا سا لگا۔ رمجو نے جھک کر دائیں ہاتھ سے صفری کے سر کو سہارا دیا اور بائیں ہاتھ سے گردن سہلاتے ہوئے گردن کو زور سے دبادیا۔ذرا انگوٹھے کا دباؤ ہی ٹینٹوے پر آیا تھا۔ سانس تو جیسے اٹکا ہی ہوا تھا۔ صفری کی کھلی آنکھیں چھت پر ٹکی تھیں۔ اور بے جاں لاشہ چار پائی پر پڑا تھا۔ رمجو نے دھیر ے سے اس کا چہرہ قبلہ کی طرف کیا۔ پائنتی سے دوپٹہ اٹھا کر اس کا کونا پھاڑا۔ ہتھیلی سے ٹہوکا دے کر منہ بلند کیا۔ کپڑا چہرے گرد باندھ کر گرہ لگادی۔ انگلیوں کی پوروں سے کھلی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کردیں۔ سکھ کا لمبا سا سانس کھینچتے ہوئے سیدھا ہوا۔ بارش یکدم تھم گئی۔ بچوں کو بھی خاموشی نے اپنی بکل میں سمیٹ لیا۔ جیسے کائنات نے بھی دم سادھ لیا ہو۔

رمجو نے چھپڑ سے نکلتے ہی سیدھا مسجد کا رخ کیا۔ نمازیوں نے ابھی سلام پھیرا ہی تھا کہ رمجو کا واویلا ان کے کانوں تک پہنچ گیا۔ ”مولبی جی! میرے بچے رُل گئے۔ میں اُجڑ گیا۔۔“ مولوی جی نے تسلی دلاسہ دیا۔ اپنا صافہ کھول کر فرش پر ڈال دیا۔ سب نمازیوں نے جس کی جتنی توفیق تھی۔صافے پر رقم رکھ دی۔ دو پہر تک میت نہادھو سپید کپڑے میں لپٹی ہوئی خوشبو لگی جنازے کے لیے تیار تھی۔ صفری کو بھی عرصے بعد صاف کپڑے اور نہانا نصیب ہوا۔ گیلی مٹی تھی۔ گورکن نے پلک جھپکتے ہی قبر تیار کردی۔ مٹی مٹی سے ملی۔ لوگوں نے اپنے گھروں کی راہ لی۔ بچے مسجد کے صحن میں لگے دسترخوان کے گرد شانت بیٹھے تھے۔ سٹیل کے طباق سے انگلیوں سے چاول سمیٹتے۔ بُک بھر کر منہ میں ڈال لیتے۔ چہرے آنسوؤں، مٹی اور، زرد رنگے چاولوں سے لتھڑ ے ہوئے تھے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*