کامریڈ ملک محمدعلی بھارا (مرحوم)

 

ملتان اور گردونواح میں جس نسل کے اذہان پر 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں عصری شعور نے دستک دی ان میں سے شاید ہی کوئی ہو جو کامریڈ ملک محمدعلی بھارا کے نام اور جدوجہد سے واقف نہ ہو۔
ایک سچے اُجلے زمین زادے اور ترقی پسند شعور کے حامل ملک محمد علی بھارا نے ایوبی آمریت کے بدترین ماحول میں اپنی جدوجہد شروع کی اور پھر آگے بڑھتے گئے۔ سرائیکی وسیب میں ترقی پسند فہم کے جو چراغ آج گو کہیں کہیں جلتے اور راستہ دیکھاتے ہیں ان میں سے اکثر چراغ انہوں نے ہی جلائے۔
ملک صاحب سے بس دو ہی ملاقاتیں ہوئیں، اولین ملاقات مرحوم رضو شاہ (سید حسن رضا شاہ بخاری) کے ہاں ہوئی۔ یہ غالباً 1970ء کی دہائی کے وہ سال تھے جب ملک پر تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق قابض تھے اس کے چند برس بعد ان سے ملاقات عزیز نیازی ایڈووکیٹ مرحوم کے چیمبر میں ہوئی وہ قریب کے کسی چیمبر میں تشریف فرما تھے جہاں موجود ہمارے ایک دوست حُب دار حسین نے ملک صاحب سے یہ کہہ کر اجازت لی کہ عزیز نیازی کی سیٹ پر پشاور سے آئے دوست سے ملنا ہے(تحریر نویس ان دنوں پشاور کے ایک اخبار سے منسلک تھا) انہوں نے مہمان کا نام پوچھا اور پھر حب دار حسین کے ساتھ ہی ملنے کے لئے تشریف لے آئے۔
اس ملاقات میں بھی خوب مجلس جمی۔ ہمارے سوالات تھے اور ان کے جواب، کیا حکیمانہ انداز تھا ایسا لگتا تھا کہ الفاظ اور جملے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور ملک صاحب انہیں تبرکاً تقسیم کرتے جارہے ہیں۔
وہ سرائیکی وسیب کے ترقی پسندوں کا روشن چہرہ تھے۔ اور سچ یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں اپنے ترقی پسند شعور کے ساتھ جیئے بھی۔
وہ جب بھی عالمی سامراج کی لوٹ مار، سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال پر بات کرتے، دلائل اور اعدادوشمار کے ساتھ سننے والوں کو مستفید فرماتے۔
اپنی معمول کی زندگی میں وہ گاوں گاوں قصبہ قصبہ گھومتے اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے طبقات کو سینے سے لگانے کے ساتھ ان میں شعور کی دولت تقسیم کرتے۔
وہ کہا کرتے تھے کہ اس ملک میں جب بھی انقلاب آیا ہراول دستہ یہی کچلے ہوئے طبقات ہوں گے۔
مجھے یاد ہے عزیز نیازی کے چیمبر میں میں نے ان سے سوال کیا تھا
’’کیا آپ نہیں سمجھتے کہ جن کچلے ہوئے طبقات کو آپ انقلاب کا ہراول دستہ سمجھتے ہیں وہ رجعت پسندی کا اسیر جلدی ہوجاتا ہے عصری شعور کے مقابلہ میں؟‘‘
ملک صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
’’بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے والے طبقات کے دلوں سے خوف نکال دیجیئے شاہ جی پھر دیکھئے کیسے انقلاب آتا ہے۔ اصل مسئلہ خوف ہی ہۓ‘‘۔
بات ان کی درست تھی۔ کڑوا سچ یہی ہے کہ اندھی تقلید کا اصل رزق خوف ہی ہے اور یہ خوف پورا بندہ کیا سماج تک نگل جاتا ہے۔
سرائیکی وسوں کے شاندار اور اُجلے ترقی پسند (عرف عام میں جنہیں کمیونسٹ کہا جاتاہے) ملک محمدعلی بھارا کچھ عرصہ قبل سفر حیات مکمل کرکے دنیا سرائے سے رخصت ہوگئے۔
ان کے دوستوں اور کامریڈ ساتھیوں نے اپنے بزرگ دوست، استاد اور رہنما کے لئے تعزیتی ریفرنس کااہتمام کیا۔ پاکستان ورکرز پارٹی بزرگ ترقی پسند کے لئے منعقدہ تعزیتی ریفرنس کی میزبان بنی اور ملتان کے ایک ہوٹل کے ہال میں ملک بھر سے ورکرز پارٹی کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے یادگار زمانہ کارکنوں نے شرکت کی۔
جن معروف ترقی پسند رہنماوں نے تعزیتی ریفرنس میں شرکت کی ان میں معروف ادیب اور دانشورڈاکٹر شاہ محمد مری، ملتانیوں کی کئی نسلوں میں نور علم تقسیم کرنے والے استاد مکرم پروفیسر صلاح الدین حیدر، حسن عسکری ، فرحت عباس ایڈووکیٹ، ورکرز پارٹی کے سیکرٹری جنرل کامریڈ اختر جاوید،تاج محمد سوز، مسیح اللہ جام پوری، سید ندیم شاہ، میڈم صبیحہ اشرف اور سعیدہ جمال لابر کے علاوہ وفاقی وزیر مملکت ملک عامر ڈوگر، سابق رکن صوبائی اسمبلی میاں رفیق احمد، 1970ء کی قومی اسمبلی کے رکن میاں ساجد پرویز شامل ہیں۔ کامریڈ دلاور عباس صدیقی اور ملک ستار ظاہر ہے میزبانوں میں شامل تھے۔ ملک محمدعلی بھارا کے داماد اور ہمارے دوست ملک مدثر بھارا کئی دنوں سے صبح و شام میسج بھیجتے رہے کہ ریفرنس میں شرکت ضروری ہے سو حاضری واجب ہوئی ہم بھی ملک صاحب کی یادوں کو بیان کرنے والے مقررین کے سامعین میں شامل ہوئے۔ جہاں استاد منیرالحسینی، احمد کامران مگسی اور سید نعیم الحسن نقوی اور دیگر دوست بھی موجود تھے۔
ملک محمدعلی بھارا کی زندگی نظریاتی استقامت اور جدوجہد پر مقررین نے تفصیل سے بات کی۔ کچھ مقررین نے انقلاب کو بھی موضوع بنایا اور کھل کر تجزیہ کیا۔
اس بات پر سبھی متفق دیکھائی دیئے کہ ملک صاحب نے جو چراغ جلائے تھے انہیں بجھنے نہیں دیا جائے گا، طبقاتی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
سچ یہی ہے کہ اگر دستیاب ترقی پسند جماعتیں متحد ہوکر یا کسی الائنس کی صورت میں اپنا پیغام عوام تک پہنچاپائیں تو لوگ ان کی باتیں بھی سنیں گے لیکن بدقسمتی یہی ہے کہ طبقاتی جدوجہد کے لئے جس اتحاد و اتفاق کے ساتھ آگے بڑھنے اور’’انا‘‘ کی قربانی کی ضرورت ہے اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔
لاریب عالمی سامراج کے کردار پر بات ہونی چاہیے لیکن یہ جو ہمارے معاشرے میں پائو آدھا پاو اور چھٹانک بھر کے سامراجی موجود ہیں پہلے ان کے کردار کو بے نقاب کرنا ہوگا تاکہ عام آدمی یہ جان پائے کہ ہمارے مسائل اور مسلط عذابوں کا اصل میں ذمہ دار کون ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*