سِلسلہ!

او میرے دِلرُبا
وہ تِری مُطرِبہ
اپنی آنکھوں میں صحرا سمائے ہوئے
گیت گاتی رہی جو، تِرے روز و شب
بارِ غم اپنے کاندھے پہ لادے چلی
تمازت بھرے آسماں کے تلے
تپش گرم لہجے کی سہتی رہی
آگ کیسےلگی؟ آشیاں کیوں جلا؟
برق کیوں یہ گری؟ کُچھ پتہ ہی نہیں
قدموں کے مٹتے ہوئے وہ نشاں
فاصلوں نے کِیا بدگماں
ادھوری کہانی ادھورے فسانے
لکھے کس لیئے؟
سُنانے کا جب حوصلہ ہی نہیں
کوئی بات، اب وہ کرے کس طرح؟
یاسیت کا سماں
ربط باقی نہیں
شبِ یلدا کی تاریکیاں ہر طرف
وہ اُجلی سحِر جن میں گُم ہوگئی
بشارت کا ہر سلسلہ ختم ہے
سبھی تار ٹُوٹے ہوئے ساز کے
ساز چھیڑے تو اُٹھتا ہے اِک شور سا
وہ فخرِ جہاں
حُرمتِ حرف کا وہ امیں
ظلمتِ شب کی ہر اِک ادا کا نقیب
وہ ستارا جو دے منزلوں کا پتہ
اپنی خلعت و دستار کے زُعم میں
اُس نے توڑا ہے پندار کا آئینہ
چھلنی کرتی ہوئی کرچِیاں
زخم بھرتا نہیں
بربطِ دِل کا ہر تار نوحہ کُناں
یارا نہیں جس کو گُفتار کا
تنِ سوختہ دِل شکستہ
کس طرح سے سُنائے وہ نغمہ نیا؟
تصویر آنکھوں میں اُس کی لیئے
اپنے قاتل سے کیسے کہے
آج بھی ہے تِری منتظر
لوٹ آ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*