غزل

 

کاغذ کی کشتیوں سی بَنا لائے محبت
دریا سے کہو پھر سے بہا لائے محبت

سب شہر تھا سائے کا طلبگار مگر ہم
اک دھوپ کی شدت سے بچا لائے محبت

لگتا ہے ہر اک فرد یہاں سب کو عدو سا
اِس خوف کی بستی میں خدا لائے محبت

تم اِس کے بہانے چلے آئے ہو مرے پاس
تم کو مرے کوچے میں سدا لائے محبت

تا حدِ نظر دشت ہے گلزارِ ارم سا
دیکھو تو کِھلا موسمِ لا لائے محبت

تم ایک محبت کی طرح مجھ میں مکیں ہو
اب تم سا کوئی اور ذرا لائے محبت !

موجود ہوں ہاتھوں کی لکیروں میں ازل سے
تم میرے لیے کس سے لکھا لائے محبت

ہم ایسے تہی دست ترے اذن پہ محسن
پا بستہِ الفت تھے’ اٹھا لائے محبت

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*