کسان کی بیٹی

 

نازو اپنے خیالات میں مگن پشتو کا ایک گیت گنگنا رہی تھی۔
” اے رنگ ریز کل عید ہے ۔
میرے کپڑوں کو جامنی رنگ دو کہ میں نازنین ہوں۔
میرے کپڑوں کو کئی باررنگ میں ڈبو دو۔
”ہاں کل عید ہے خوشیوں اور مسرتوں کا
دن۔
چھوٹے بڑے سب خوشیاں منائیں گے۔
بچے اپنے ہاتھوں کو کھردرا بنارہے ہےں تاکہ مہندی کا رنگ خوب چڑھے، صبح ہاتھ خوبصورت دکھائی دیں اور اس طرح ہاتھوں کو سرخ کرنے کا مقابلہ جیت سکیں“۔
اس کا باپ اپنے خستہ حال گھر میں داخل ہوا۔ قدموں کی آہٹ سن کر نازو چونک پڑی اور اپنے بابا کی طرف دوڑی۔ وہ باپ کی گردن میں بانہیںڈال کر جھومنے لگی اور پیار سے کہنے لگی۔
”بابا….اے بابا…. میں نے ابھی خان کی بیٹی دیکھی ہے جس نے اپنے ماتھے پہ چاندی کے روپوں کی تین قطاریں سجا رکھی تھیں۔ اور ہاں وہ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ اس کے باپ نے اسے ایک اچھا ہار اور سونے کی بالیاں بھی خرید کر دی ہیں تاکہ وہ عید کی صبح کو پہن سکے ۔ لیکن ابّا، تم تو میرے لئے کچھ بھی نہیں لائے۔ہر باریہ کہتے ہو کہ اگلی عید پر ہار بنوادوں گا لیکن وہ اب تک نہ بن سکا۔ پرسوں تم کہہ رہے تھے کہ آج ساگ پر گزارہ کرو بعد میں آٹا لائوں گا اور گندم کی روٹی کھلائوں گا۔ مگر آج پھر تمہاری چادر خالی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آج پھر تمہیں کچھ نہیں ملا۔
”بابا جان! مجھے یہ تو بتا ئو یہ خان اپنی بیٹی کی پرورش اتنے ناز سے کیوں کرتا ہے؟ اور اس کے ماتھے پر سجانے کے لئے اس قدر چمکدار روپے
لاتا ہے۔ تم باپ ہو مگر میرے لئے کچھ نہیں لاتے۔ کیا میں تمہیں پیاری نہیں لگتی؟“۔
اس کے باپ کا دل پسیج کر رہ گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے سوچا نازو ٹھیک تو کہتی ہے اتنی محنت اور بھاگ دوڑ کے باوجود اپنی بچی کے لئے مہندی کا ایک کٹورا بھی نہ لا سکا۔ اس کا بدن لرز اُٹھا۔ بمشکل وہ اپنی سسکیوں کو روک پایا۔
”بیٹی! اس کے پاس تو دولت ہے تبھی تو وہ سب کچھ کرتاہے ۔ میں بے چارہ یہ سب کچھ کہاں سے لائوں؟۔
نازو: ” اس کے پاس سب کچھ ہے تو آپ کے پاس کیوں نہیں؟“۔
باپ: ”اسے خدا نے دیا ہے بیٹی“۔
نازو: ” تو خدا ہمیں کیوں نہیں دیتا؟“ ۔ جلدی کرو مجھے بتا دو خدا ہمیں کیوں نہیں دیتا؟ ۔ آئو چلیں اسے کہیں وہ ہمیں بھی دےدے“۔
اسی اثناءمیں اچانک حاجی صاحب (سودخور مہاجن ) کا کارندہ آیا۔ جب کسان کی نظراس پر پڑی تو وہ بہت گھبرایا۔ اس کے پیروںتلے سے زمین نکل گئی اور وہ سوچنے لگا کہ ”کاش غریب لوگ دنیا میں پیدا ہی نہ ہوتے!“ وہ یوں ساکت کھڑا تھا جسیے عزرائیل اس کی روح قبض کرنے آگیا تھا۔
کارندہ بھیڑےے کی طرح اسے گھو ررہا تھا ۔ وہ رعونت سے کہنے لگا:” خدا کی مار !تم بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو؟ تم حاجی صاحب کا قرض ادا کرنے میںپس و پیش کررہے ہو۔ جب تمہاری بیوی کی لاش بے گوروکفن پڑی تھی تو اس وقت تو تم حاجی صاحب کی منتیں کررہے تھے کہ وہ تمہیں قرض دے۔ اور اب جب کہ تمہاری مالی حالت قدرے بہتر ہوگئی ہے تو اپنے آپ کو چھپاتے پھرتے ہو۔ اگر تمہاری بچی کی چیخ و پکار کا خیال نہ ہوتا جو تمہارے ساتھ چمٹی ہوئی ہے تو میں تمہاری خبر لیتا“۔
کسان نے عاجزی سے جواب دیا” ناظر صاحب! میں نے کوئی قتل تو نہیں کیا کہ آپ میرے ساتھ اتنی سختی برت رہے ہیں۔ مجھے کچھ مہلت دیں تاکہ میں عید کی گھڑیاں سکون سے اپنی بیٹی کے ساتھ گزار سکوں ۔ اس کی ماں مرچکی ہے اس کا دل بہلائوں ۔ اس کے بعد تم مجھے جو بھی سزا دو مجھے منظور ہوگا“۔
کارندے نے غضبناک ہوکر کہا۔
” تم پہ خدا کی مار۔تم تو بڑی سے بڑی سزا کے مستحق ہو۔ تم نے اس سال اپنے حصے کی گندم ہمیں خبر ہونے سے پہلے ہی دوسرے قرض خواہوں کو دیدی۔اور حاجی صاحب کو، بھول بیٹھے جنہوں نے کئی بار دوسروں کی نسبت کم سودپر تمہیں قر ض دیا تھا۔ بے انصاف، اب زیادہ باتیں نہیں بنآئو ۔ چلو حاجی صاحب کے حضور۔ وہ ایک شریف اور رحمدل انسان ہے۔ ممکن ہے کہ وہ تمہاری بھلائی کے لئے کوئی اچھا فیصلہ کردے اور تمہارے کاندھوں سے قرض کا بوجھ اتارنے کا کوئی علاج تجویز کرے۔ چلو اُٹھو دیر ہورہی ہے“۔
کسان نے اُس کی بہت منت کی مگر بے سود۔ بالآخر وہ اپنی بیٹی کو کسی عزیز کے ہاں چھوڑ کر خود کارندے کے ساتھ چل پڑا۔
جب وہ وہاں پہنچے تو کسان کو بیرونی دروازے پر چھوڑ کر کارندہ خود حاجی صاحب کے پاس پہنچاتا کہ اسے کسان کی مفلسی اور ناداری کا کیا حال بتاسکے۔
حاجی صاحب نے پوچھا:” کیا تم نے اس کے گھر کی اچھی طرح تلاشی لی؟ یہ لوگ اب بہت ہوشیار ہوگئے ہیں ، گندم کو زمین میں دبا لیتے ہیں۔ اور اگر کپڑے اور برتن وغیرہ ہوں تو وہ بھی غائب کرلیتے ہیں“۔
کارندے نے اس سے کہا کہ ” ایک لحاف‘ مٹی کے پیالے اور ایک مرغی کے علاوہ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ مگر ہاں، اس کے پاس ایک بہت قیمتی چیزہے جس کے ذکر سے آپ یقیناً خوش ہوں گے ۔ وہ قیمتی چیز اس کی بیٹی ہے۔ اگرچہ عمر میں چھوٹی ہے۔ مگر ہے بہت خوبصورت ۔ وہی جس کی ماں پچھلے سال مر گئی تھی جس کے کفن دفن کے لئے ہی تو آپ سے کسان نے قرض مانگا تھا“۔

حاجی صاحب نے کارندے سے کہا:” جامولوی کو بلا لا“۔
جب مولوی پہنچا تو حاجی صاحب نے اس سے کہا:” تمہیں تو معلوم ہے کہ میری چوتھی بیوی حال ہی میں فوت ہوئی ہے اور اس وقت میری صرف تین بیویاں ہیں۔ یہاں ایک کسان کی بیٹی ہے جو مجھے بڑی اچھی لگی ہے۔ کیا اس سے تم میری شادی نہیںکراسکتے؟۔ اگر آپ اس معاملے میں میری مدد کردو تو میں خوش ہوں گا“۔
اسی وقت کسان بھی کارندے کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوا ۔ حاجی صاحب نے بڑے غصے سے کہا” دیکھو تیری کیسی مسلمانی ہے تو میرا مقروض ہے ۔ کیوں ظالم ! پیسے بھی مفت میںملتے ہیں کیا؟“۔
مولوی صاحب نے کسان کی طرف دیکھا اور اسے کہنے لگا:” کتابوں میں آیا ہے کہ مومن کا قرض واپس کرنا باعث ثواب ہے۔ اگلے جہان میں اس کا بڑا اجر ملتا ہے۔ بولو کسان! اگر تم حاجی صاحب سے اپنی بیٹی بیاہ دو تو نہ صرف یہ کہ اس دنیا میں سکون سے رہو گے بلکہ اُس جہاں میں بھی ثواب حاصل کرو گے ۔ جیسے بھی ہوحاجی صاحب سے تصفیہ کرلو اور ان کا حق ادا کردو“۔
کسان گڑ گڑانے اور منتیں کرنے لگا۔
” مولوی صاحب خدا کے لئے مجھے کچھ مہلت دے دیں۔ اب میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔ اس سال تو میں کسی کا مزارع بھی نہیں بن سکا کیونکہ میرے پاس ایک بوڑھا بیل تھا اور وہ بھی چند دن پہلے ناظر صاحب قرض کے بدلے میں لے گئے۔ اب تو میرے پاس اتنا بھی نہیں کہ میں رات کو اپنے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھا سکوں“۔
حاجی صاحب نے اس سے کہا:” مکرو فریب چھوڑ دو۔ میں تمہاری چالبازیوں میں نہیں آئوں گا۔ مجھے اپنا قرض یہیں اور اسی وقت چاہئےے۔ میں تمہیں چھوڑ وں گا نہیں “۔
یہ کہتے ہوئے حاجی صاحب باہر چلے گئے اور کارندہ کسان سے مخاطب ہوا۔” اے کسان تم پر خدا کی مار۔ تجھے چاہئےے تو یہ تھا کہ تو حاجی صاحب کے پیروں میں پڑتا اور عاجزی سے کہتا کہ خدا کی قسم میرے پاس نہ تو پیسے ہیں اور نہ کوئی جائیداد ۔ ایک میری اکیلی جان ہے او رایک بیٹی جو دونوں آپ پر نچھاور کردوں گا ۔ ممکن ہے اسے تجھ پر رحم آجاتا اور وہ تجھ سے تصفیہ کرتا۔ صرف ” نہ“ کہنے سے کسی کا قرض تو نہیں اترتا“۔
مولوی صاحب بھی بول پڑے کہ حاجی صاحب بڑا سخی اور رحمدل آدمی ہے۔ وہ کسی کی نیکی کو فراموش نہیں کرتا ۔ وہ بہت نیک آدمی ہے اور زکوٰة دل کھول کر دیتا ہے ۔ میری مانو تو اپنی بیٹی کا بیاہ حاجی صاحب سے کردو۔ تمہاری بیٹی تو راج کرے گی راج ۔ اور تم بھی اس کی فکر سےآزاد ہو جا ئوگے۔
اسی اثناءمیں حاجی صاحب کا منشی اندر داخل ہوا اور کسان کو اس کا کھاتہ دکھایا کہ کل رقم تین ہزار پانچ سو روپے واجب الادا ہے۔
کسان نے کہا ” خدا کے لئے۔ میں تین بیویوں والے اس ساٹھ سالہ بوڑھے کے ساتھ اپنی معصوم بچی نہیں بیاہ سکتا ۔ نہیں…. نہیں…. میں ایسا نہیں کرسکتا۔ تم بے شک مجھے مار ڈالو۔ میری چمڑی ادھیڑ دو لیکن میں ایسانہیں کروں گا۔ میں اپنی بچی کو بدبختی کی آگ میں نہیں جھونک سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے تو 125 روپے لئے تھے اب تین ہزار پانچ سو روپے کیسے بن گئے؟“۔
کارندے نے کہا ” تم پر خدا کی مار ۔ تم اپنا نفع نقصان بھی نہیں سمجھتے۔ تم اپنی بیٹی کے بیاہ کا اقرار نامہ لکھوائواور اس پر اپنے انگوٹھے کا نشان لگا دو اوربس“۔
اسی وقت قلم اور کاغذ آگئے اور لکھ دیا گیا کہ میں بقائمیِ ہوش و حواسِ خمسہ و بلا اکر اہ و جبر….“ پھر تمہیدی گفتگو اور پند و نصائح کے بعد انگوٹھے کا نشان لگوایا گیا او رمولوی صاحب مٹھائی سے بھرا ہوا رومال اُٹھا کر گھر کو چل دئیے۔
حاجی صاحب نے ناظر سے کہا کہ اس لڑکی کو دھوم دھام سے مت لائوکیونکہ اولاً تو یہ غریب کسان کی بیٹی ہے اور یہ ہماری شان کے منافی ہے ۔ دوسر ے کسانوں پر اس کا برا اثر پڑے گا۔ کل عید کا دن ہے ۔ تم جائو اور ایک بوڑھی عورت کو اپنے ساتھ لے جائو اور لڑکی کو وہاں سے لے آئو۔ اس گائوں کے خان سے بھی کہنا کہ وہ کبھی کبھی ملتا رہے۔
کل کا دن ہر ایک کے لئے عید کی خوشیوں کا دن تھا لیکن بیچاری نازو کو اُس کی خوشیوں کے مقتل کی طرف روانہ کیا گیا۔ راستے میں بتایا گیا کہ اسے اس کی نانی کے گھر لے جارہے ہےں جہاں اسے اچھے کپڑے ، خوبصورت زیور اور گندم کی روٹی میسر آئے گی۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہم نے سنا کہ کسان نے کنوئیں میں چلانگ لگا دی اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ ” وہ وقت آئے گا جب کسانوں کے بیٹے اس ظلم کا بدلہ چکائیں گے“۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*