مشید خان

ویسے کچھ لوگ مر کر بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور تاریخ کے سُنہرے اوراق میں ہمیشہ یاد رہتےہیں ایسا ہی ایک نام بائیں بازو کی جماعت عوامی ورکرزپارٹی کے سینئر کارکن مشیدخان کابھی آتا ہے جو 2020 میں دل کادورہ پڑنے کی وجہ سے ہم سے بچھڑگئے تھے
مشید خان نے 1956 کو سوات کے علاقہ ازاخیل میں ایک نامی گرامی شخص ملک نظرخان کے گھر انکھیں کھولیں اس کا والد کسی تعارف کامختاج نہیں آج بھی مشیدخان کے والد صاحب کو ملاکنڈ ڈویژن میں لوگ یاد کرتے ہیں جو ایک دلیر بہادر انسان تھے اور ہمیشہ غریبوں کے مسیحا کےطور پر ان کی ہرممکن مدد کرتےتھے  مشید خان کے والد صاحب نے سوات کیساتھ ساتھ ضلع بونیر گاوں بابوخان غازی خانہ کو بھی آباد کیا تھا  مشیدخان کے گاوں بابوخان میں آپنی ذاتی رہائش کے ساتھ سوات میں بھی آپنی جائداد اور گھر موجود ہیں جو بیک وقت دونوں رہائشوں اور وہاں کے بسنے والے لوگوں کی دلوں میں بستے تھے اور اُن کی ہرممکن مدد کرتے تھے۔

مشیدخان بھی آپنے والد کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے کسی شیر سے کم نہیں تھے وہ بچپن سے مہمان دوست اور انسان دوست شخصیت کا مالک تھا مشیدخان نے اپنی ابتدائی تعلیم سوات سے حاصل کی اور دوران طالب علم PPP کےپلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا اور ظالم کے خلاف بغاوت جنگ شروع کی چونکہ وہ نظریاتی طورپر سوشلسٹ تھا اور طبقاتی جدوجہد اور مڈل کلاس طبقے کی نمائندگی کرتاتھا اسلیئے اپنے والد نظرخان مرحوم کے کہنے پراپنے چھوٹے بھاٸی وحید اورخاندان کیساتھ 1984 میں قائد انقلاب فانوس گوجر مرحوم کے قافلے کیساتھ اس کی تحریک میں شامل ہوئے اور پسے ہوئےطبقے کے حقوق کیلئے جدوجہد شروع کی اور مرتے دم تک فانوس گوجر کے قافلے اور تحریک میں رہے اور بیرون ممالک دوبئی میں آپنے عظیم قائد فانوس گوجر کو لیکر وہاں جیلوں میں پابند سلاسل محنت کشو کے حقوق اور اُن کی ہر ممکن مدد کی اور بیرون ممالک میں پارٹی کی پہلی تنظیم سازیاں کی گئی اور وہاں جدوجہد شروع کی اور رفتہ رفتہ خلیج میں مقیم پاکستانی محنت کشو کو پارٹی میں شامل کیا گیا۔
مشیدخان تعلیم پر زیادہ زور دیتےتھے اور ہمیشہ یہی کہتےتھے کہ تعلیم ہی اس جہالت اور اس اندھیر نگری سے باہرنکلنےکاواحد راستہ ہے آج بھی اس کے خاندان اور دوست و احباب چاہے سوات میں ہیں یا بونیر میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ نوجوان جو آپنے ذاتی کاروبار روزگار اور کامیاب زندگی بسرکرتےنظر آتے ہیں تو اس کا سہرا اور سیڑھی مشیدخان نے رکھی تھی جس کی مثال صج بھی موجود ہے آپ ہمیشہ گھر گھر جاکر بچوں اورنوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرتےتھے فانوس گوجر جب بھی گاوں بابوخان آیا کرتےتھے تو فخریہ انداز میں کہتے تھے کہ میں گاوں بابوخان کو آپنا دوسرا گھر سمجھتا ہوں اور گاوں کے لوگ آج بھی فانوس گوجر کو آپنا مسیحا سمجھتے ہیں  مشید نوجوانوں کو زیادہ تر سیاسی سماجی ومعاشی تعلیم کا درس دیتے تھے علاقہ مکینوں کے مسائل کےحل کیلئے ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لاکر ہر فورم پر آواز اُٹھانےکیساتھ ساتھ ہرممکن مدد و تعاون فراہم کرتےتھے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے وہ کھیتی باڑی کاشت کاری سے بہت لگاو رکھتےتھے خودبھی کھیتی باڑی کرتےتھے اور فخریہ انداز میں کسی کےہاں مہمان نوازی یا آڑوس پڑوس گاوں چلےجاتےتھے تو کسانوں کےساتھ وقت گزارتےتھے اور مفید مشورے بھی دیاکرتےتھے وہ زندگی میں شجرکاری کو زیادہ اہمیت دیتےتھے مختلف اقسام کے پھلوں کے درخت اُگایا کرتےتھے اور ان سے حاصل شدہ میوہ جات اپنےعزیز واقارب اور غریبوں میں بانٹتے رہتے تھے وہ بغیر کپڑے چینج کیئے ہرجگہ محنت کرنے والے مزدوروں کیساتھ ہاتھ بٹاتےتھے ہر جمعہ کی نماز کے بعد امام مسجد سے اعلان کروا کر تمام علاقے کے نوجوانوں کو ملاکر گاوں کی ٹوٹی پھوٹی سڑک کی مرمت کرواتے تھے اور اسی کی بدولت آج ضلع سوات کے تحصیل خوازہ خیلہ کے علاقہ پیراں شیخاں کی سڑک آپنی مدد آپ کےتحت کافی بن چکی ہے اسکے علاوہ آپنی بونیر کی رہائش گاوں بابوخان غازی خانہ درہ روڈ میں آپنی زمین دیکر علاقہ مکینوں کی بہت مدد کی ہے جس پر بابوخان کے لوگ آج بھی اس کی آچھائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں صفائی نصف ایمان ہے اس پر زیادہ زور ڈالتےتھے اور اس لیئے محلے اور گاوں کی گلی اور کوچوں میں اپنی مدد آپ کےتحت نوجوانوں کوساتھ لیکر اس کارخیر کوسرانجام دیا کرتےتھے کرکٹ کھیلنے کا زیادہ شوقین تھے گاوں کے نوجوانوں کو دن میں دو گھنٹے کھیلنے کی طرف راغب کرتےتھے خود بھی کھیلنے کیساتھ ساتھ گاوں کی کرکٹ ٹیم کے کوچ بھی رہ چکےہیں اسلیئے ایک دفعہ علاقہ کے خوانین نے بچوں کے کرکٹ گراونڈ پر اداروں کیساتھ ملکر قبضہ کرنےکی کوشش کی اور کھیلنے والے بچوں کو پولیس کے زریعے ڈرایا دھمکایا تو  مشیدخان نے بروقت جاکر نوجوانوں کی جگہ گرفتاری دےکر ظالم خوانین کیخلاف آواز بلند کی تو علاقہ عمائدین اور کھیلوں کےساتھ وابستہ نوجوانوں نے کامریڈ کی بھرپور حمایت کی اور گراونڈ کو قبضہ مافیا خوانین سے چُھڑایا ایسے کافی واقعات ہوئےہیں چاہے پہاڑ پر قبضہ کرنےوالے گروپس کیخلاف کسانوں کے ساتھ زیادتی کرنےوالوں کےخلاف آپ نے ہمیشہ آوازاُٹھائی ہے وہ نڈر بیباک شخصیت کےمالک تھے پرائمری سکولوں میں جاکر بچوں کےساتھ وقت گزارنا اور اُن کوپڑھانا اس کی سب سے بڑی عادت تھی محلے یا گاوں کا کوئی محنت کش اپنا گھر بنالیتےتھے یا گھر کیلئے زمین خریدلیتےتھے تو فخریہ انداز میں کہتےتھے کہ اس نے غلامی کی زنجیر کو ہتھوڑا ماردیا ہے اور اس کے گھر جا کر اس کو مبارک باد پیش کرتےتھے وہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے اور ہمیشہ ان سے یہی کہتےتھے کہ حقوق اللہ کیساتھ ساتھ حقوق العباد پر بھی توجہ دینی چاہیئے لوگوں کی مدد انسانیت کی خدمت یتیموں کی پرورش اور دکھی انسانیت کےساتھ ہمدردی سب سے بڑی عبادت ہے جھوٹ بولنے اور منافقت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتےتھے اور ہمیشہ اُن کو اکھٹا کرکے اچھائی اور سچ بولنے کی طرف لاتےتھے کسانوں اور محنت کشوں کے حقوق کیلے عملی جدوجہد کرتے رہتے تھے اس نے آپنی مدد آپ کے تحت بہت زیادہ غریبوں یتیموں بیوہ خواتین کی مدد کی ہے جو کہ یہاں مینشن کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا
مشید خان کو کٸ دفعہ عوامی ورکرز پارٹی کے صوباٸی تنظم میں اہم عہدے اور ضلعی صدارت کی پیش کش بھی کی گٸ پر وہ عظیم انسان تھے عہدے سے زیادہ ورکر بن کر اپنے عظیم قائد فانوس گوجر کے نظریاتی سوچ اور پارٹی منشور کو گھر گھر پہنچانے کوترجیح دیتےتھے اور ہمیشہ اُن کے گن گایا کرتےتھے۔
سن 2007 میں جب میں کراچی میں پڑھتاتھا اس وقت یوم مزدور ریلی نکالنے سے دو دن پہلے میرا  مشیدخان سے رابطہ ہوا اور کراچی میں پارٹی صورتحال پر بات ہوئی تو آپ نے ضلع بونیر میں بیٹھ کر یہاں کراچی میں سوات اور بونیر کے 60/70 تک محنت کش اس مزدور ریلی میں بھیجے جونمائش چورنگی سے پریس کلب تک جارہی تھی۔
وہ دن رات پارٹی کی بہتری کیلئے کام کرتےتھے اور آپنے خاندان میں بہت سے کیڈت بھی پیدا کیئے ہیں جس کا ثمر مشید خان کوجاتا ہے
اُن میں سب کو مینشن نہیں کرسکتا پر ایک کیڈٹ کے بارے میں ضرور لکھونگا جو اس لسٹ میں سرفہرست ہے  عثمان علی جو مشیدخان کا بھتیجا اور رائٹ ہینڈر ہے جو کسی تعارف کا مختاج نہیں عوامی ورکرزپارٹی خیبرپختونخواہ کے یوتھ سیکرٹری رہ چکے ہیں عثمان علی کو 2013/14 سے وہ پارٹی کے ہر پروگرام میں لایا کرتےتھے اور واپسی گھر جاکر سب خاندان کو فانوس گوجر کے فلسفے اور پارٹی کے نظریئے پر لیکچر دیاکرتےتھے جس کا ثمر دو سال بعد پارٹی کے صوبائی الیکشن میں عثمان علی یوتھ سیکرٹری منتخب ہوئے اور آج پورے خاندان میں کامریڈ مشیدخان کے بعد سب سے زیادہ عثمان علی کا نام بہترین حروف میں لیاجاتاہے جس کا کریڈٹ مشیدخان کوجاتاہے
ایک دفعہ جب آپ سے میں نے سوال کیا کہ  آپ زندگی میں کس شخصیت سے زیادہ متاثرہیں تو بلا جھجک کہنے لگے کہ قائد انقلاب سے زیادہ متاثرہوں آگر محنت کش عوام قائدانقلاب کے نقشہ قدم پرچلے تو شاید ایک اچھےسماج کی اُمید کی جاسکتی ہے کیونکہ فانوس گوجر ایک عظیم رہنما ہیں جس کو مطالعہ کرنے کیلئے آپ کو اس کے ساتھ وقت گزارنا پڑےگا کیونکہ فانوس گوجر کی طرح لیڈر صدیوں میں ایک پیدا ہوتے ہیں۔
مشید خان عظیم انسان ہونے کیساتھ ساتھ ایک بارعب اور دلیر شخصیت کے مالک تھے جو آپنے ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادت کو ترجیح دیتے تھے اور ہمہ وقت محنت کشو کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے تھے ایسے لوگ ہمیشہ زندہ رہتےہیں اور اُن کی جدوجہد کبھی بھی رائیگان نہیں جاتی آگر اس سماج میں مشید خان جیسے نظریاتی لوگ پیدا ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں کہ میرے قائد انقلاب فانوس گوجر مرحوم کے نظریئے اور اس کے حقیقی پیروکار مشید خان مرحوم جیسے بہادر ساتھیوں کی جدوجہد کی جیت نہ ہو کیونکہ وہ عظیم انسان تھے جو ظالم کے خلاف مظلوم کی آواز تھے اور ہمیشہ رہینگے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*