کھیل کھیل میں

 

یہ جو اجلی دھوپ پہن کر گھوم رہے ہو، کب کِھلنا تھی
لیکن ہم نے رات کی کالی مٹی گوندھی،
منتر پھونکا، آگ جلائی
ہنستے کھیلتے سورج کی اک شکل بنائی
بڑے جتن سے چرخہ جوڑا
کرنیں کاتیں،
جھلمل روشن دن کی یہ پوشاک بنائی
اور جو ہنسی کی جھاگ اڑائے پھرتے ہو، ممکن ہی کب تھی، لیکن۔۔۔
ہم نے سات جنم تک
جھرنوں، بارش، جھیل، سمندر،
بادل ، بجلی اور گھٹاؤں کے قدموں میں پھول بچھائے
درد کی شاخ سے ٹوٹا گریہ
بہتے وقت کی خاک پہ دھر کے
دنیا کی اس آخری حد سے دور اڑایا
ٹم ٹم کرتے تاروں کی آنکھوں میں کچھ حیرانی بھر دی
اڑتے ہوئے پنچھی کو پریم کا گیت سکھایا
تھکے تھکے لمحوں کی خاطر نیند بنائی،
ریشم سینچ کے خواب اگایا،
ایک تمہارا جی بہلانے کی چاہت میں
دیکھو ہم نے
کیسا کیسا کھیل جمایا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*