ہفت روزہ عوامی جمہوریت

22جولائی1972کے شمارے میں سی آر اسلم نے ”عالمی سیاست میں نئی کروٹ“ کے عنوان کی ایک سرخی دی ۔ یہ دراصل اُس وقت کی چنداہم پیش رفتوں کا تذکرہ ہے ۔ اول تو امریکی صدر نکسن کے ایلچی ڈاکٹر کسنجر نے اولین دورہِ چین کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد خود نکسن چین گیا تھا ۔ اس دورے میں امریکی صدر نے پہلی بار اعلان کیا تھا کہ سوشلسٹ نظام اور کپٹلسٹ نظام والے ملک باہم امن سے رہ سکتے ہیں۔ یہی نکسن پھر سوویت بھی گیا اور وہاں بھی اس نے عالمی امن کی بات کی۔
دوسری پیش رفت یہ تھی کہ مغربی جرمنی کی جانب سے سوویت یونین کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔
تیسری اہم بات یہ ہوئی کہ جنوبی اور شمالی کوریا نے باہم مل بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور باہمی مسائل گفت وشنید سے طے کرنے کا اعلان کیا۔
اخبار نے اسی زمانے میں چین اور جاپان کے درمیان خیر سگالی اور خوشگوار تعلقات بحال کرنے کی سلسلہ جنبانی کا بھی خیر مقدم کیا۔
اسی طرح پاکستان اور بھارت کے بیچ شملہ معاہدہ کو بھی سی آر اسلم نے بہت اہمیت دی ۔ اور وہ اُسے بھی اسی ”نئی کروٹ“ کے زمرے میں لایا ۔
پیرس مذاکرات ِ امن کا پھر سے آغاز بھی اہم گردانا گیا جس سے ویت نام میں قیامِ امن کی کوئی صورت پیدا ہونی تھی۔
اخبار نے مصر اور اسرائیل کے سربراہوں کی طرف سے باہمی مسائل کو گفت وشنید کے ذریعے حل کرنے کی خواہش کے اعلان کو بھی بہت اہمیت دی۔
اسی شمارے میں وہ مشہور دستاویز بھی چھاپ دی گئی ۔ جو کہ ”ویت نام کی ماﺅں کی جانب سے دنیا بھر کی ماﺅں کے نام کھلا خط “کے نام سے مشہور ہے ۔
امریکی اداکارہ جین فونڈا کے اُس پریس کانفرنس کا بھی تذکرہ ہے جس میں اس نے امریکہ کی طرف سے ویت نام کے خلاف جنگ مسلط کرنے اور وہاں جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پہ سخت احتجاج کیا تھا ۔
اخبار نے ’پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی سرگرمیاں“ کے عنوان سے ایک صفحہ وقف کیا۔
شمارے کا آخری صفحہ حسب معمول پولیٹکل اکانوی کی قسط کا ہے ۔
5اگست2 197کے عوامی جمہوریت کا لیڈنگ مضمون ” سندھ میں لسانی فسادات “ کے موضوع پر ہے ۔ یہاں اِن فسادات کے پس منظر اور نتائج پر بحث کی گئی۔ دوسرا مضمون بھی اسی معاملے پہ ہے جس کا عنوان ہے :”زبان کا مسئلہ اور مفاد پرست عناصر “ ۔اس مضمون کا اوپننگ پیراگراف یوں ہے :
”پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے نزدیک پاکستان چار قومیتوں (پنجابی ۔ پٹھان ۔ بلوچ اور سندھی ) کا ملک ہے ۔ اور ہر قومیت کی اپنی زبان ہے ۔ پاکستان سوشلسٹ پارٹی ان زبانوں کی ترقی و ترویج کے حق میں ہے ۔۔۔“
12اگست 1972کا شمارہ جلد نمبر3کا شمارہ نمبر30ہے ۔ ”تجدید عہد “ کے عنوان کے تحت اولین مضمون کے آخری دوچار فقرے یوںہیں:
”۔۔۔آﺅ آج عہد کریں کہ ہم جاگیرداری زرعی نظام کو ختم کریں گے ا ور ”جو بوئے وہی کھائے “ کی بنیاد پر ساری اراضی کسانوں میں تقسیم کریں گے ۔ ہم سامراجی اثرات کا قلع قمع کریں گے۔ اس کا سرمایہ اور قرضے ضبط کریں گے ۔ ہم بھاری اور بنیادی صنعت کو اولیت دے کر پبلک سیکٹر میں قائم کریں گے۔ ہم عوام کو خوشحال بنانے کے لیے انہیں جاگیرداری سماج اور اجارہ داری کی لوٹ سے نجات دلائیں گے “۔
اس شمارے میں20اگست کو کبیر والا کے مقام پر مغربی پاکستان کسان کمیٹی کی کونسل کا اجلاس منعقد ہونے کی اطلاع دی گئی۔ اس میں بنگلہ دیش کے الگ ہونے کے بعد بقیہ پاکستان میں کسانوں کی صورت حال کا تذکرہ ہے ، اُن کی تنظیمی حالت بیان کی گئی ، پیپلز پارٹی کی طرف سے کسانوں میں نظریاتی اور تنظیمی خلفشار پیدا کرنےکی مذمت کی گئی۔ اس کے علاوہ کسان کمیٹی کو درپیش مستقبل کے چیلنجز کوبیان کیا گیا اور اُسے اپنی حمایت کا یقین دلایا گیا۔
اگلے شمارے میں بھٹو حکومت سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔
2ستمبر 1972کے شمارے میں ”پاکستان کسان کنونشن کے فیصلے “ کے عنوان سے کبیر والا کسان کانفرنس کی منظور کردہ قرار دادیں دی گئیں۔ اس کے علاوہ جابجا بھٹو کی طرف سے کسانوں کے اندر نظریاتی کنفیوژن پیداکرنے کے خلاف چھوٹے چھوٹے تبصرے اور نوٹ لکھے گئے ہیں۔
9، 16اور 23ستمبر کے رسالوں میں بھی اس کسان کا نفرنس ہی کی روئیداد دی گئی ۔ زرعی مسائل اور اُن کے حل پہ تفصیلی مضامین دیے گئے۔
4اکتوبر کے شمارے میں اُس خبر کی تردید کی گئی جس کے تحت نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے ادغام کی بات کی گئی: ”پاکستان سوشلسٹ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی کو نہ تو سوشلسٹ پارٹی سمجھتی ہے اور نہ ہی ایک ایسی پارٹی جس کی قیادت میں سوشلسٹ معیشت قائم کرنے کی جدوجہد کی جاسکتی ہے ۔ نیشنل عوامی پارٹی اپنی سیاست اور قیادت کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ ایک سرمایہ دارانہ طرز کی جمہوری پارٹی کہلاسکتی ہے ۔
” اسی طرح سوشلسٹ پارٹی کے نزدیک پاکستان پیپلز پارٹی بھی پاکستان کے سرمایہ داروں جاگیرداروں اور سامراجی مفادات کی ہمنوا پارٹی ہے۔ اسی لیے کوئی باشعور سوشلسٹ کارکن نیپ ولی یا پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان سوشلسٹ پارٹی بورژوا پارٹیوں میں مدغم ہونے کے لیے نہیں بلکہ سوشلزم کی جدوجہد کو تیز کرنے کے لیے بنائی گئی ہے“۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*