مراجعت

 

میں انسان ہوں

اور میں انسان ہونے سے

گھبرا گیا ہوں ……۔

میں گھبرا گیا ہوں

بہت چلچلاتی ہوئی دھوپ سے ……۔

شور کرتے ہوئے شہر سے…۔

بھوک سے……۔

اور گلے میں پھنسے

آنسوؤں کی چبھن… درد کی لہر سے

جو مسلسل مرا جسم

جکڑے ہوئے ہے

کروں کیا

دہکتی ہوئی سرخ چنگاریوں کا

جو میرے لہو میں بھڑکنے لگی ہیں

مرے سر میں وحشت ہے

آنکھوں میں دہشت

بڑھوں… توڑ دوں…۔

کاٹ دوں یا جلا دوں

مرے بس میں ہے آج دنیا مٹا دوں

نہیں پر نہیں

میں تو انسان ہوں

پھر میرے گیت..خواب اور کتابیں کہاں ہیں

مرے پھول میرے چہکتے پرندے

کہیں بھی نہیں ہیں

یہاں بس لہو ہے

اچھلتا…سسکتا… بلکتا لہو

اور مرے سر میں وحشت ہے

اب تو مجھے اپنے انسان ہونے سے

خوف آ رہا ہے

مجھے باندھ لو اور جکڑ لو

کہیں لے چلو پھر سے

اْن جنگلوں میں

جہاں پر ہوائیں

درختوں کی شاخوں۔۔

پرندوں کے کومل پروں کو

جھْلاتی ہیں

اْن پربتوں۔۔۔ وادیوں میں

بسیرا کروں گا

میں اب چار ٹانگوں پہ

چلتا رہوں گا

بچا لو مجھے

آسمانوں پہ سوئے ہوؤ

سخت نازک گھڑی ہے

مرے سر میں وحشت بھری ہے

مجھے اپنے انسان ہونے سے

خوف آ رہا ہے

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*