انجمن سازی، ایک آئینی حق

 

ہمارے آدھے تیتر آدھے بٹیر جمہوری نظام میں ملک کو ایسے چلایا جارہا ہے جیسے کہ یہ ایک گاؤں ہو۔ اور وہاں کے بااثر چودھری جس طرح چاہیں اُسے ہانکیں۔ اُن کا کہا ہی رواج ہے اور اُن کی مرضی ہی قانون ہے۔

اور فیوڈل چودھراہٹ کا یہ سارا سلسلہ آج کا نہیں ہماری حالیہ تاریخ کی ساری ظاہری اور بڑی چپقلشیں اسی وجہ سے ہوتی رہی ہیں۔1954میں کسی ایک رات کو بادشاہ یا اُس کا حواری خواب دیکھتا ہے کہ ادیبوں کی تنظیم پروگریسو رائیٹرز ایسوسی ایشن پرپابندی لگادی جائے۔ عورتوں کی تنظیم ڈیموکریٹک ومنز ایسوسی ایشن کو ختم کیا جائے، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کا گلا گھونٹا جائے۔ اور طلبہ تنظیم ڈیمو کریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کو بین کیا جائے۔۔۔۔اور ایسا ہی کیا گیا۔

چونکہ یہ سب کچھ ہضم ہوگیا اور اس کے خلاف کچھ نہ بولا گیا، اس لیے ٹھیک چار سال بعد بڑا مارشل لا لگادیا گیا۔۔۔ پھر اس ”پابندی لگائی“ میں کوئی رکاوٹ نہ آئی۔ کسی بھی جمہوری سوچ اور اس کی منظم صورت کو پنپنے نہ دیا گیا۔ حتی کہ سب سے بڑی اور ملک گیر سیاسی پارٹی پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ لگتا ہے آئین نامی چیز سے پہلوان طبقہ سرا سر ناواقف ہے۔

ایک مہذب آئین ہی کے لیے وطن کے بیٹے شاہی قلعہ اور مچ جیل میں ٹی بی تھوکتے رہے، تاریک راہوں کے راہی بنتے رہے۔ آگ ولہو کے بے شمار دریا لانگھ کے ہمارے اکابرین نے ایک آئین بنا لیا۔ہاں، پچاس سالہ قربانیوں کے بعد کہیں جاکر آئین تو بنالیا مگر اتنی قوت اُن کے پاس نہ تھی کہ وہ فیوڈلزم کو بھی توڑ ڈالتے۔

مسئلہ یہ ہے کہ آئین کپٹلزم کی خصوصیت ہے۔ اس کا فیوڈلزم یا ٹرائبلزم کے سماجوں میں کوئی رول نہیں ہوتا۔چنانچہ فیوڈلزم کا سخت جان نظام توانا ہی ہوتا رہا اور اُس نے حکمرانی کے سارے ادارے اپنے پاس ہی رکھے۔ اور ہمارے یہ فیوڈل حکمران آئین کے ساتھ شروع سے ہی اَن کمفرٹیبل ر ہے۔ کبھی ایک مونچھ مروڑ کر کہتے ہیں، دِس ازلاء۔ کبھی دوسری مونچھ مروڑ کر کہتے ہیں: دِس از آرڈر۔ مارشل لا ہی مارشل لا۔ سول ہو کہ مارشل لا۔

لوگ پھانسی چڑھتے رہے، ملک سیٹو سنٹو ہوتا رہا، سیاسی ارتقا رکتا رہا۔ ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ۔

اس رجعت اور جاگیرداری کا غضب صرف پارلیمنٹری پراسیس ہی نہ رہا بلکہ اس نے انسان کے ہر مہذب حق کی نفی کی۔ ابھی 1984میں ایک مارشل لا آرڈر کے تحت ملک بھر میں سٹوڈنٹس یونینوں پر پابندی لگادی گئی۔حال ہی میں بلوچستان ہائی کورٹ نے ٹریڈ یونینوں پر پابندی لگا دی۔ اسی طرح بلوچستان یونیورسٹی میں گورنر بلوچستان کی جانب سے جاری ایک حکم نامے کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔

پتہ نہیں جمہوریت لفظ میں ایسے کون سے اَن دیکھے کانٹے ہیں جو اقتدار والوں کے گلے میں ابد سے اٹکے ہوئے ہیں۔ خواہ ون مَین ون ووٹ کا مسئلہ ہو یا مزدوروں کے ٹریڈ یونین کی بات ہو، خواہ ون یونٹ کے خاتمے اور صوبوں کے حق حقوق ہوں یا سٹوڈنٹس یونین کے اجرا کی بات ہو، یہ پنڈ کے چودھری کو کبھی قابلِ قبول نہیں۔

ٍ حالانکہ مستقبل کی سیاسی لیڈر شپ، ٹیکنوکریسی،اور بیوروکریسی میں شامل ہونے کے لیے تو کالج ویونیورسٹیاں ہی بہترین جگہیں ہوتی ہیں۔تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس پالٹکس کے باعث سیاسی قیادت اور کارکنوں کی کھیپ بنتی رہتی ہے۔سیاست میں رہنے والا طالب علم سیاست کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی حاصل کرتا ہے۔طلبہ تنظیمیں ہمیشہ ایک منشور، پروگرام، ڈسپلن اور ایک سلوگن کے تحت چلتی تھیں اور تمام کارکن اس پراسیس میں تربیت پاتے ہیں۔ یہی لوگ فارغ ہوکر زندگی کے مختلف شعبے سنبھالتے ہیں۔ غیر سیاسی پارلیمنٹ، غیر سیاسی صوبائی حکومت اور غیر سیاسی گورنر کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔

طلبا سیاست ایک ”آن دی جاب ٹریننگ“ جیسا عمل ہے۔ اس عمل سے نکلا ہوا فرد معاشرے کے لیے ایک نعمت ہوتا ہے۔ ریاست کو سیاسی عمل سے گزر کر پکے ہوئے کارکن ملنا مسرت اور اطمینان کی بات ہونی چاہیے۔سیاسی جماعتوں کو طلباتنظیموں کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ انہیں وہاں پڑھے لکھے لوگ ملتے ہیں جنہیں دور دراز واقع چرواہے اور کسان کی بہ نسبت آرگنائز کرنا آسان ہوتا ہے۔

ہم نے دیکھا کہ اس ملک میں سیاسی عمل سے نہ گزرے ہوئے اور پلانٹڈ وزیروں لیڈروں نے ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر تباہ کردیا ہے۔ اُن کی اکثریت چاپلوس ہے، رشوت خور ہے، کرپٹ اور سفارشی ہے۔

جو قوتیں پاکستان کو بار بار سامراجی ممالک کے ہاتھوں بیچتی رہیں وہ نہیں چاہتیں کہ مزدور یونینیں اُن کے لوٹ میں رخنہ ڈالیں، سٹوڈنٹس باشعور ہو کر شہری حقوق کا تقاضا کریں۔ اسی لیے وہ تحریر و تقریر، تنظیم سازی اور جلسہ جلوس کو اپنے لیے موت سمجھتی ہیں۔

سٹوڈنٹس یونین، ٹریڈ یونین،یا قومی اسمبلی کوئی انقلابی ادارے نہیں ہوتے، یہ تو کپٹلزم کے ادارے ہی ہیں۔ یہ بورژوا ادارے ہیں۔اِن سے کائنات نے الٹ نہیں جانا۔ امریکہ اور یورپ بھر میں کپٹلزم یہ کام کئی صدیوں سے کر رہا ہے۔ ہاں البتہ فیوڈل ذہنیت ان سارے کپٹلسٹ اداروں کو اپنے لیے خطرہ گردانتی ہے۔

یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اپنے ادارے کے فیوڈل لار ڈہی تو ہیں۔ انہیں لوٹ مار اور فاشسٹ اختیارات کے لیے کھلے ہاتھ چاہییں۔ وہ اور اُن کے سلیکٹرز اپنی زبان اور بولی کے علاوہ کوئی دوسری بولی برداشت نہیں کرسکتے۔ ان کا اپنا ”گردن اکڑا کلچر“عوامی،متنوع اور ڈائنامک کلچر کو نہیں سہہ سکتا۔ ان کی سانس ریوالونگ چیئر اور پیسہ ہے۔ ان کے بھرے پیٹ کو خالی پیٹ کی للکار گوارا نہیں ہے۔ وہ پیسہ اور پاور کے اُس بہاؤ میں کسی طرح کی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے۔

یوں تو ملک بھر میں طلبا سیاست کوپابندی کا سامنا رہا ہے، مگراس کا زیادہ اثر بلوچستان میں ہے کیوں کہ یہاں سیاست کا محور ہی طلبا رہے ہیں۔بلوچستان کی سیاست میں طلبا کا کردار ہمیشہ سے زبردست رہا ہے اورآج قومی سیاست کرنیوالے اکثر سیاستدان ماضی میں طلبا سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔

بہانہ کیا؟۔ یہی کہ بچے ہیں، ذہن پختہ نہیں ہیں، جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور یہ ایوب خان کا وہی بہانہ ہے جس میں وہ کہا کرتا تھاکہ پاکستان جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے مارشل لا ہی ٹھیک ہے۔

ایک بہانہ یہ کہ یونین سازی تشدد کو جنم لیتی ہے۔ یعنی اپنی نئی نسل پہ کوئی بھروسہ کوئی اعتماد ہی نہیں۔ بے تشددی اور بے یونینی میں ہم نے دیکھا کہ کیمپسوں میں تشدد بڑھا بھی ہے،اورغیر انسانی بھی ہوا ہے۔

ایک بہانہ یہ کہ تعلیم میں حرج ہوتا ہے۔حیرانگی ہوتی ہے کہ تعلیم میں پہلے کونسا حرج نہیں ہورہا۔ آپ جو نصاب پڑھاتے ہیں وہ دنیا میں فرسودہ ترین ہوتا ہے۔یہ نصاب ”بنیاد پرستی“پہ بنا ہوا ہے۔ جس میں اپنے آپ کے علاوہ باقی سب نقلی ہوتے ہیں، دو نمبر اور غدار ہوتے ہیں۔ رواداری اور برداشت اس نصاب نے دور اکھاڑ پھینکے ہیں۔

آپ کی فیسیں آسمان کو چھو رہی ہوتی ہیں۔ آپ ٹیچروں کی بھرتی میرٹ پہ نہیں رشوت وسفارش پر کرتے ہیں۔ بھرتی کے بعد ان کے معیار کی بلندی کے لیے کوئی کام نہیں کرتے۔

آپ امتحانوں میں ہر طرح ناجائز ذرائع کو فروغ دیتے ہیں۔ آپ ایک ایک نمبر رشوت، جنسی ہراسانی اور سفارشوں پہ دیتے ہیں۔

آپ اقربا پروری اور رشوت پہ ملازمتیں دیتے ہیں، پروموشنیں کرتے ہیں اور پی ایچ ڈی کے لیے بیرون ملک بھیجتے ہیں۔

آپ تعلیم کے بڑے ادارے کو رجمنٹالائز کرتے ہیں، اسے جاسوسی اور جاسوسوں کا اڈہ بنائے بیٹھے ہیں۔ آپ خود اپنی خود مختاری کو رہن کیے ہوتے ہیں۔

آئے دن سٹوڈنٹس،سیاست کے نام پہ تعلیمی اداروں سے نکالے جاتے ہیں، گرفتار ہوتے ہیں، یا سرے سے غائب کیے جاتے ہیں۔

اس سب کچھ کو جاری و ساری رکھنے کے لیے آپ نے یونین کو ایک دھبہ کے طور پر بدنام کر رکھا ہے۔ چنانچہ انتظامیہ اور اس کے سر پرست سٹوڈنٹس یونین کی راہ میں ہر وقت رکاوٹ ڈالتے رہتے ہیں۔

الیکشن سے خوف، سیاست سے خوف، عوام سے خوف دراصل زندگی سے خوف ہے۔آپ نے اپنے خوف کو معاشرے میں پھیلا دیا ہے۔ معاشرتی خوف کو دور کرنے کا سب سے تیر بہ ہدف نسخہ تنظیم سازی ہے۔ اسی لیے تنظیم سازی سے حکمران خوفزدہ رہتے ہیں۔ تابعدار رکھنے کی لت معاشرے کو بونا بنانے پہ منتج ہوتا ہے۔ ”میں ہی ٹھیک ہوں“ کا بیانیہ غلام ذہنیت کا بیانیہ ہوتا ہے۔ ”میرے علاوہ کسی پہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ”کارَٹ آبادی کو ہر بات سے بیگانہ بنانے پر دھکیلتا ہے۔ لوگوں کے رائے رکھنے سے خوف ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ اور بلاشبہ ہمارا حکمران طبقہ نفسیاتی بیمار ہے۔

تعلیمی اداروں میں سیاسی یانظریاتی تقسیم آسمانوں سے نہیں آتی۔ یہ معاشروں کے اپنے اندر کی معاشی تقسیم سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ اُس تقسیم سے بچنے کے لیے اُس تقسیم کوتو ختم نہیں کرتے بلکہ مزید درجنوں تقسیمیں کھڑی کر کے اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرقوں میں تقسیم، عقیدوں میں تقسیم،لسانی تقسیم، نسلی اور قومیتی تقسیم، دیہی شہری تقسیم، صنفی تقسیم۔

مگر سب کچھ یہیں داخلی دنیا تو نہیں ہے۔ ایک خارجی دنیا بھی ہے۔ روٹی پانی سے لے کر سپرکمپوٹر تک ہم اس خارجی دنیا پر انحصار کرتے ہیں۔ اور اس خارجی دنیا کا مطلب صنعتی کپٹلزم کی دنیا ہے۔ وہ دنیا آپ کے قدامت پرست طریقوں سے نہ تو آشنا ہے اور نہ انہیں ہضم وبرداشت کرنے کو تیار۔ وہ دنیا آبادی کے اختلاف ِ رائے کے احترام کو جانتی ہے۔ صنعت وٹکنالوجی کی دنیا کو بے زبان، اوربے عقل دولے شاہ کے چوہوں کی نہیں بلکہ متحرک وتخلیقی انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا انسان جو مزید بہتر، مزید جدید اور مزید منصفانہ معاشرے کے قیام کی باتیں کرے۔

حکمرانوں کا خیال ہوتا ہے کہ شعور اور تنظیم ایسی چیزیں ہیں جنہیں روکا جاسکتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے جینز میں باہم اکھٹے رہنا لکھا ہوتا ہے۔ اور اکٹھا رہنا ہی تو تنظیم ہے، یونین ہے۔ اِس تنظیم اور یونین یا اکٹھے رہنے میں کیا فرائض کیا حقوق ہیں، اِس علم کو شعور کہتے ہیں۔ اس لیے اِن دونوں کو مصنوعی طور پر نہ تو پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ فنا کیا جاسکتا ہے۔ وگرنہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو انسان ابھی غاروں کے سماج سے آگے نہ بڑھ سکتا۔دنیا میں کونسی قوم ہے جس نے ہمیشہ کے لیے اپنی آزادی کو دھو ڈالنے کی اجازت دی ہے، یا اپنے حقوق کو کھوکھلا کرنے دیا ہے؟۔

ہم عدم مداخلت پہ مبنی ٹریڈ یونینوں،سٹوڈنٹس یونینوں کی بحالی چاہتے ہیں۔ ہم پارلیمنٹ میں بحث مباحثہ کرنے، نتائج تک پہنچنے، فیصلے کرنے اور اِن فیصلوں کے اطلاق کی اتھارٹی چاہتے ہیں۔۔۔۔ ہم فیوڈلزم اور اُس کی سوچ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ٍ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*