گُڈ مین

 

(محمد علی بھارا)
(1935۔17دسمبر2020)

ملتان کے قریب واقع وہاڑی میں جمہورکی تحریک کا (بالخصوص اُس کا ایوبی آمریت میں)ابھار، پاکستان بھر میں یکتا اور منفرد انداز میں ہوا۔ وہاڑی کے لوگوںکی جدوجہد ایک نیم رومانوی،نصف انقلابی اور مسکراہٹ بکھیر دینے والی رہی ہے ۔ ملک محمد علی بھارا،حفیظ احمد چودھری اور مرزا اعجاز بیگ اس تحریک کے سر پنچ تھے ۔ بالخصوص یہاںغلّے کے سرکاری گودام لوٹ کر عوام الناس میں تقسیم کرنا،پولیس کے ساتھ مستقل انداز میں بھڑے رہنا،عدالتوں میں پیشیاں بھگتنا ،روپوشیاں چکھنا ، اور سرکار کو چکمہ دیتے رہنا بہت ہی رومینٹک حقیقتیںہیں ……..وہاڑی میں کمیونسٹوں کی جدوجہد پر ایک بہت کامیاب فلم بن سکتی ہے جس میں ایکشن سے بھر پور ،کامیڈی میں ملفوف ،انسانی احساسات کو چُھو ڈالنے والے بے شمارواقعات ہیں۔
وہاڑی کے دو محمد علی میرے بزرگ دوست رہے ہیں۔ ایک کا لطیفہ آپ کو سنا کر آگے بڑھتا ہوں۔
ہوایوں کہ میںاور محترم حسن عسکری کسان کمیٹی کی تنظیم کاری کے کسی کام میں چک نمبر 159 چوہدری محمد علی کے پاس گئے۔ وہ ہماری کسان کمیٹی کا پرانا رفیق اور لیڈر تھا ۔اس کا ایک بھائی تھا نوجوان سا۔ ہم تھکاوٹ کے مارے ہوئے تھے ۔ اور بھوک کی مکمل گرفت میں۔ شام ہوگئی تو جو کھانا اُس نے کھلایا وہ عجیب تھا ۔ وہ ،جس کو ہوٹل والے ”انڈہ کری“ کہتے ہیں ۔ مجھے بہت برالگا۔ اور میں نے اپنی طرف سے خفیہ اور ناقابل فہم زبان ، یعنی سبی والی سندھی میں حسن عسکری سے اُس کھانے کا مذاق اُڑایا ۔ ظاہر ہے میں نے پنجاب میں سندھی زبان اس لیے بولی تاکہ میزبان سمجھ نہ پائے ۔مگر، میری شرمندگی کی انتہا نہ رہی جب میزبان نے ٹھیٹ سندھی میں ہی کہا ”چھو سائیں پیٹ میں سور کندو چھا؟“ (کیوں صاحب!اِس سے آپ کے پیٹ میں درد ہوگا گیا؟)“
لاحول ولاقوت ، میزبانی اور وہ بھی کسی نظریاتی شخص کی میزبانی پہ اعتراض اور طنز کر کے ویسے ہی غلطی کی تھی میں نے ۔ اوپر سے بظاہر کسی انجانی زبان میں جو میرے قیاس میں بھی نہ تھا کہ میزبان سمجھتا ہے ۔ میں تو شرم میں غرق ہوگیا۔ مگر میری نیت صاف تھی ۔ کوئی تحقیر وغیرہ کا تصور تک نہ تھا۔ چنانچہ کامریڈ شپ والی بے تکلفی میںاُسے بتایا کہ ”انڈہ کری تو ہم شہروں میں کھاتے رہتے ہیں۔ مجھے تو قع تھی کہ ہم گاﺅں آئے ہیں توآپ ہمیں دیہات گاﺅں کی کوئی چیز کھلائیں گے“۔ بہرحال ہنسی مذاق میں باتیں ہوتی رہیں۔
بلوچستانی اردوکے لفظ”کوچرائی“ میںرات گزرگئی۔ صبح ابھی ہم اُن کے دیے گئے کھیسوں میں لپٹے سو رہے تھے کہ کسی نے جگا دیا ۔ دیکھا تو وہی نوجوان صبح کاناشتہ وغیرہ لیے کھڑا ہے ۔ غور کیا تو ناشتہ واشتہ نہ تھا۔ اُس ”کافر“کے ہاتھ میں برنج کا ایک کنگ سائز گلاس تھا جو لسی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ لسی کے اوپر ایک ٹائٹانک سائز کا مکھن تیر رہا تھا۔
ہمیں تو سٹوڈنٹ پالٹیکس کے زمانے سے انیس ہاشمی نے بیڈ ٹی ٹائپ چیز کا عادی بنا رکھا تھا۔میں نے حیرانگی کی آخری حدود سے اُسے دیکھا ۔وہ کہنے لگا:”سائیں گاﺅں دیہات آگئے ہو ، تو وہیں کی چیز استعمال کرو“۔
رواج کے ہاتھوں مجبور گلاس لینے ہاتھ بڑھایا تو نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا۔” مجھے پتہ تھا کہ آپ نہیں پی سکو گے۔ اس لیے چائے بھی لایا ہوں“۔
وہاں کا ودسرا محمد علی اپنے نام کے بجائے اپنی برادری کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ محمد علی بھارا۔ اب اتنے بزرگ ہوچکے ہیں کہ بھارا صاحب ہوچکے ہیں۔ ملک صاحب بھی چلتاہے ۔
حسن بخش اور بختاور بی بی نامی کسان اور مویشی بان جوڑے کا یہ بیٹا1935میں ضلع وہاڑی کے ایک گا ئوں میں پیدا ہوا۔ باپ اُس کی پیدائش سے چار ماہ قبل فوت ہوگیا تھا۔(1)۔اور مشترکہ خاندانی نظام اس کامحافظ بنا۔
اُن کے علاقے میں باقی دنیا کے برعکس گاﺅں کے نام نہیں ہوتے ہیں۔ وہاں گاﺅں دیہات کے نمبر ہوتے ہیں۔ بھارا صاحب کے گاﺅںکا نام ہے :چک نمبر 65/15-L۔”چک “ ایک پنجابی لفظ ہے ۔ اس سے مراد ایک ریونیو سٹیلمنٹ سرکل ہے جو زمین کا ایک بلاک بناتا ہے۔ یہ برطانوی راج کے زمانے کے ریونیو اکٹھا کرنے کے نظام پہ مبنی ہوتا تھا ۔ وہاں چک نمبروں کے آخر میں Rیا Lلگا ہوا ہوتا ہے ۔دراصل راوی دریا سے ہیڈ بلوکی کے مقام سے لوئر باری دو آب نامی نہر نکالی گئی۔ اس نہر کے دائیں طرف (انگریزی میں Rightسائڈ) کی ساری آبادیاں”R“ سے شروع ہوتی ہیں اور اس نہر کے بائیں طرف ( Leftسائڈ) والی ساری آبادیوں کے نام ”L“سے شروع ہوتے ہیں۔
اُس کے گاﺅں کے قریب کے گاﺅں کا نام چک نمبرL 79/15-تھا۔سکھوں کے اس گاﺅں میں مڈل سکول تھا۔ وہ وہیں داخل ہوا ۔وہاںہر گاﺅں میں سکھ رہتے تھے ۔ کہیں کم کہیں زیادہ ۔ پتہ ہی نہ چلتا تھاکہ کوئی فرق تفریق موجود ہے ۔ ایک جیسے محنت کش لوگ۔
وہ پیدل یا سائیکل پر روزانہ سکول جاتا آتا۔اس نے اپنے گاﺅں کی مسجد میں ابتدائی مذہبی تعلیم حاصل کی۔ مسجد کا ملّا سیاسی کارکن تھا اورجمعیت علمائے ہند نامی نسبتاً روشن فکر سیاسی پارٹی کا ممبر تھا۔
اور پھر 1947ہوا ۔ سکھ خون سے لت پت روحوں کے ساتھ ہندوستان لاد گئے۔ اور بھائی چارے کی صدیاں اُس خون سے دریا برد ہوگئیں۔ ملک صاحب بھی زندگی بھر اسی مخلوط وسیکولر بچپن کی کئی مسرور و شاداں یادوں کے بیان کے آخر میں ٹھنڈی سانس لیا کرتا ہے ۔
مڈل پاس کرنے کے بعد ملک محمد علی بھاراوہاڑی چلا گیا۔ اس کا ماموں وہاں غلہ منڈی میں دکانداری کرتا تھا۔ وہ ماموں کا ہاتھ بھی بٹاتا تھا اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔
ملک صاحب نے میٹرک وہاڑی سے کیا۔ وہیںوہاڑی میںہی 1960میں ادیب و فاضل کرلیا اور بقیہ تعلیم و تربیت توکسانوں کی پارٹی میں جاری رکھی ۔
یہیں پر ملک صاحب کی دوستی میرے ایک اور بہت ہی اچھے دوست سے ہوئی: دکاندار چودھری حفیظ سے ۔ حفیظ مارکسسٹ تھا۔ اور محمد علی کو بھی اسی کی دوستی کے حوالے سے مارکسزم سے دلچسپی پیدا ہوئی(2)۔ یہ سمجھیے 1949، 1950کا زمانہ تھا۔
واضح رہے کہ پنجاب میں ملتان اور وہاڑی کاکپاس اگانے والا علاقہ ایک مست ورقصاں قسم کی کسان تحریک کامالک رہا ہے۔ پاکستان کسان کمیٹی تو بہت بعد میں بنی اور زبردست قوت ہوئی۔ مگر اُس سے بہت پہلے کسان سبھا کے زمانے سے یہاں ایک مضبوط ومنظم کسان تنظیم عمل کرتی تھی ۔جس کے لیڈر دو بھائی ہوا کرتے تھے: میاں رب نواز چاون اور اس کا بھائی میاں محمد نواز چاون ۔چاون برادران میں سے ایک ابھی حال تک زندہ تھے ۔اُن سے میری ملاقاتیں بھی ہوئیں ،وہیں اُن کے اپنے گھر میں۔
محمد علی بھی اُسی کسان تحریک کا مادارانہ گرم دودھ پی پی کر جوان ہوا۔ اس نے کسانوںکے مسائل کو بنیاد بنا کر، جدوجہد کے اندر اُن میں نظریاتی شعور پیدا کرنے اور اُن کی تنظیم بنانے میں ساری زندگی گزاردی ۔آج وہ بوڑھا زراعت اور کسانوں کی سیاست کے بارے میں ہماری معلومات کا ایک پرائمری سورس ہے ۔ زندہ رہویار ، کہ کچھ اور سپیشلسٹ سماج کو دے سکو!!۔
ممتاز دولتانہ وہاڑی میں ایک سفاک جاگیردار تھا۔ اُس کے زمانے میں کسانوں کی تنظیم کسانوں کو مالکانہ حقوق دینے کی جدوجہد کر رہی تھی ۔ مگر دولتانہ انہیں جلسہ جلوس کرنے نہ دیتا تھا۔ 1950کا زمانہ تھا۔اس 1950کی دہائی میں یہ علاقہ کسان سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ مست نعروں کا مرکز: جیڑا واوے اوہی کھاوے، مالکی یا موت۔۔۔ اِس زبردست تحریک کے زیر اثر بٹائی کا نیا قانون بنا جسے بعد میں پورے ملک میں نافذ کیا گیا۔
کسان سیاست کی بات کریں تو سی آر اسلم کا نام آٹو میٹک طور پر ذہن میں آجاتا ہے ۔ چنانچہ جلد ہی اس کسان سیاسی کارکن کی نیاز مندی لاہور میں مطلّبی فرید آبادی اور سی آر اسلم سے ہوئی ۔ سی آر تو کسانوں کا مستقل مزاج استاد اور ساتھی رہا۔ وہ چند دن ہی میں انسان کو اپنے نظریات گھول کر پلانے کی حیرت انگیز صلاحیت سے مالا مال تھا۔ میں نے بے شمار دیہاتی ناخواندہ کسان دیکھے جو بین الاقوامی امور پر بھی جدید ترین گفتگو کرتے ہیں۔ بہت سائنسی تجزیہ کرتے ہیں۔فیصل آباد میں ایک مختلف عادتوں والے سی آر اسلم کا نام میاں محمود احمد تھا۔ کیا کمال دوستیاں پائیں ملک محمد علی نے۔ بعد میں تو وہ اِن دوستوںکاریل وجیل کا ساتھی بنا۔
ملک محمد علی بھارا اگر پسی ہوئی مخلوق کے لیے صرف سوچتا بھی تو معتبر ٹھہرتا، مگر وہ تو اُن کے حقوق کے لیے ڈٹ جاتا ہے ۔وہ ساری زندگی زمین زادوں کا ساتھی رہا۔ وہ مظلوم طبقات کے حقوق کی جدجہد میں کمٹ منٹ کی مثال ہے۔ بہت اونچی آواز میں دیہاتی سٹائل کے ساتھ بات کرتا ہے مگر بہت ہی مدلل انداز میں۔دُھرا دُھرا کر۔ اپنی ضرب الامثال کے ساتھ، اپنی علاقائی مثالوں کہانیوں اور مصرعوں کے حوالے دیتا ہوا۔ملک صاحب کسانوں کے عین مطابق رکھ رکھا ئو اوروضع داری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ظرافت،بذلہ سنجی اور گفتگو میںبلند آہنگی اس کی عادتوں کا حصہ ہے۔ وہ ایک ایسا ٹیچر ہے جس نے سینکڑوں ہزاروں شاگرد اور ساتھی پیدا کےے۔
بیوہ ماں کا کمال یہ تھا کہ وہ انقلابی بیٹے کی سرگرمیوں پہ منع نہیں کرتی تھی۔ جب وہاڑی میں تین چار ماہ کی پہلی گرفتاری ہوئی تو پارٹی دوست میاںرب نواز چار دن اُسے تسلی دینے گاﺅں گیا تو اچھی ماںنے کہا: ” اُس کے شوق کی بات ہے مجھے کوئی پریشانی نہیں۔ بس یہ بتاﺅ کہ وہ لوگوں کے لیے اچھا کام کررہا ہے ناں؟“ (3)
بھارا صاحب اپنی محنت ،استقامت اور جدوجہد کی بدولت پاکستان کی عوامی تحریک کے رہنما ئوں میں شمار ہونے لگا۔ وہ بھی میاں محمود ہی کی طرح کہنیاں مار مار کر آگے نہیں بڑھتا بلکہ سٹیج ،نام و نمود اور لیڈری سے دو ر بھاگتا رہا ہے ۔
پاکستان میں پارلیمانی سیاست کے اندر ووٹر کو بہت کم چوائس حاصل رہے ۔دیکھیے ناں،کہ ساٹھ کی دہائی کے الیکشنوں میںایک طرف ایوب کا مارشل لا تھا تو دوسری طرف فرسودہ خیالات والی فاطمہ جناح ۔ اب بندہ کیا چوائس کرتا۔ ملک نے ایک واقعہ سنایا:
ملک صاحب والوں کی سامراج دشمن جمہوری پارٹی فاطمہ اور ایوب کے بیچ الیکشنوں میں فاطمہ جناح کا ساتھ دے رہی تھی۔ فاطمہ جناح کے حق میںکمپین کے سلسلہ میں پارٹی نے ملتان میں جلسہ کے اندر دولاکھ افراد جمع کر دیے تھے ۔ مگر فاطمہ کی تقریر یوں تھی: ”اس دنیا میں ہمارا ایک ہی دوست تھا امریکہ ۔ اُس کو اس کم بخت ایوب خان نے ناراض کردیا ہے “۔
ہماری وہی بدقسمتی ابھی تک جاری ہے۔
جس وقت روس چین جھگڑا دنیا کی ہر کمیونسٹ پارٹی کی صفوں میں جاگھسا تھا۔ توملک صاحب والوں کی پارٹی میں بھی دراڑ پڑ گئی ۔ ولی گروپ اور بھاشانی گروپ۔ مگر بڑی دراڑ پڑتی ہے تو کئی چھوٹی دراڑیں بھی در آتی ہیں۔ چنانچہ بھاشانی پھر دو نہیں تین چار لخت ہوئی۔ طبقاتی سیاست کی پگڑی سنبھالنی مشکل ہوگئی۔ سو ، کاروبار اور روزگار ملتوی اور سارا زور ڈھانچہ بچانے پہ صرف ہونے لگا۔اور بچاﺅ کا ایک ہی راستہ تھا: کسان کانفرنسیں۔ وہیں کے مطالبات کو اٹھانا اور اُن مطالبات کے اوپر سیاست کرنا ۔”مڈل کلاس ٹوٹ پھوٹ “سے بچانے کا یہی واحد راستہ تھے۔ بھاشانی کے سلام کہنے کے بعد نیپ بھاشانی کا خاتمہ ہوا۔ یوں ایسی ہی کسان کانفرنس (خانیوال ) میں اِس نیپ بھاشانی کا مغربی پاکستانی نام پاکستان سوشلسٹ پارٹی ہوگیا۔
ملک محمد علی بھار ا نے خود بھی کچھ الیکشن لڑے ۔وہ 1962میں گاﺅں والوں کی طرف سے بی ڈی الیکشنز میں ممبر منتخب ہوا۔اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ملتان ،وہاڑی اوربہاولپور کے علاقوں سے کئی دوستوں کو الیکشنوں میں کھڑا کرتا رہا ۔ کامیاب خیر کیا ہونا تھا ۔ بس عوامی رابطہ کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کی بات تھی ۔ او رلوگوں میں کلاس شعور دینے کا موقع ملتا۔
بھٹو نے جب پیپلز پارٹی بنائی تو وہ دیگر بے شمار” ترقی پسند وں“ کی طرح سے پیپلز پارٹی پر ”قبضہ “ کرنے نہیں گیا ۔ اسی طرح وہ ”سب طبقات کی خیر“ والے نیپ میں بھی شامل نہ ہوا۔ بس، اپنی کسان کمیٹی ہی ٹھیک ہے، وہ اُسے ہی چلاتا ہوا سیاست کرتا رہا۔ ۔۔ اور یہ دونوں چھوٹی باتیں نہ تھیں، بالخصوص اُس ماحول میں جب پاپولرازم کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے سی آر اسلمی دل چاہیے تھا۔ ایک طرف سوشلزم کے بڑے بڑے بت بھٹوا زم کے ہاں بیعت کرتے جارہے تھے۔ اور دوسری طرف انقلاب کو سوویت سٹیپیوں سے لے کر کرالہ اور کیریبین تک پھیلانے کے دعوے دار تھے جو انقلاب کی طلب میں فیوڈلوں اور سرداروں کی گود میںجاپڑے ۔ یوں جو لوگ کل تک مورچے کے ساتھی تھے، آج دیکھو دشمن طبقات کے کیمپ میں سابقہ الفاظ بول کر اپنا ہی منہ چڑا رہے تھے ۔
ملک صاحب بھٹوکا واقعہ سنایا کرتا ہے۔
”1970کے الیکشن میں بھٹو وہاڑی آیا اور علی محمد خاکوانی نامی جاگیردار کے گاﺅں میں ایک جلسہ رکھا ۔ میں اور چوہدری حفیظ جب اِس میٹنگ میں گئے تو بھٹو خطاب کر رہا تھا ۔ اور کہہ رہا تھا: میں لاڑ کانہ کا جاگیردار ہوں، آپ جاگیردار اور زمین دار میرا ساتھ دو، مجھ سے ڈرو نہیں ۔ جلسے کے خاتمے پر کھانا تھا ۔ بھٹو ہر ٹیبل پر جاکر لوگوں سے بات چیت کر رہا تھا ۔ جب ہماری ٹیبل پر آیا تو احسن خاکوانی نے میرا اور چوہدری حفیظ کا تعارف کرایا ۔ بھٹو کو جب سنائی دیا کہ ہم کمیونسٹ ہیں اور اُس کی پارٹی میں نہیںہیں تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا : بھارا صاحب میں بھی تو سوشلسٹ ہوں اور آپ کا ساتھی ہوں ۔ جلسے والی باتیں تو میں جاگیرداروں کو رام کرنے کے لیے کہہ رہا تھا ۔۔۔“۔
بھٹو کا اعلانِ تاشقند سے متعلق رویہ بھی ملک محمد علی بھارا نے واضح کیا: ”جب1965کی جنگ بندی ہوئی تواعلان ِ تاشقند والی میٹنگ کے اندر جنرل ایوب سے سوویت لوگوں نے کہا کہ آپ جنگ بندی کرنے آئے ہیں اور ساتھ سی آئی اے والے کو لائے ہیں تو وائیٹ پیلس سے بھٹو کو باہر نکال دیا گیا۔ مگر لاہور پہنچ کر بھٹو نے اعلانِ تاشقند کے خلاف ڈرامہ شروع کردیا ۔ بہت سالوں کے بعد ”سوویت پارٹی والوں نے وہ عمارت مجھے دکھائی اور سارا واقعہ بھی بتایا“۔
ملک صاحب جیسا یقین والا انقلابی پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے چوٹی کے دو تین بڑے اور سرگرم ترین راہنماﺅں میں سے رہا۔ وہ سی آر اسلم کا قریب ترین ساتھی تھا۔
پارٹی کا ایک بہت بڑا اثر کسانوں کے اندر تھا ۔ اور دور دراز واقع علاقوں میں کسان سیاسی ورکرز سے رابطہ کرنا بہت دشوار تھا۔ یہ کام ملک بھارا نے بہت خوبی سے سرانجام دیے رکھا ۔وہ پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد میں ہر اُس جگہ پہنچا جہاں ایک بھی کسان سیاسی ورکر ہوتا۔
ملک صاحب لگتا ہے سفر کے لیے پیدا ہوا ۔ آج یہاں ہے تو کل وہاں۔ وہ ایک ایک ورکر کو ذاتی طور پر جانتا تھا ۔ ہر ایک کے مسائل سنتا ۔ سب کو گائیڈ کرتا۔ حتی کہ گھریلو اور خاندانی معاملات میں بھی کامریڈز اُس سے مدد لیتے ۔ ایک ایک پارٹی ورکر کا اتاپتہ اسے معلوم ہوتا۔
ضیا مارشل میں البتہ اُس کی ایک اور ڈیوٹی بھی لگ چکی تھی ۔ وہ چونکہ پولیس کو زبردست انداز میں غچہ دے سکتا تھا۔ اس لیے پاکستان سوشلسٹ پارٹی نے اسے اپنے بین الاقوامی امور کاانچارج بنا دیا تھا۔ملک اصلی نقلی پاسپورٹیں بنانے میں ماہر تھا۔ مختلف حلیوں اور ناموں کے ساتھ ضیائی مارشل لاوالوں کو دھوکہ دے کر ملک سے نکل جاتا۔ اور بیرون ملک کسان یا مزدور یا پارٹی کانفرنسوں میں یہاں کی نمائندگی کرتا۔ اُس زمانے میں بہ مشکل کوئی ایسا بین الاقوامی کمیونسٹ اجتماع ہوتا جس میں اِس ملک کی نمائندگی نہ ہوتی ہو۔ وہ دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں سے پارٹی کے بہت ہی مستحکم ،گرمجوش اور برادرانہ تعلقات استوار رکھنے میں کامیاب رہا۔ وہ عالمی سوشلسٹ تحریک کی یک جہتی کے فروغ کے لیے کئی کئی ممالک پھرتا رہا۔ اور وہاں کی ٹریڈ یونین ، پارٹی، اور عوامی تحریک سے روابط بڑھاتا گیا۔
وہ ایک چھلا وہ رہا اور گورکی کے کیریکٹر” کامو“ کی سی پھرتی سے خود کو متلاشی پولیس کی دسترس سے بچائے رکھا۔ ایوب سے لے کر ضیاءالحق تک سارے مارشلاﺅں کے دوران پاکستان کے تمام بڑے شہر اُس کی روپوشی کے اڈے رہے۔اُن روپوشیوں میں ایک مختصر عرصہ میں بھی اُس کا ” روم میٹ “ رہا۔ ضیاءالحقی مارشل لا میں۔ ” حاجی صاحب“ اس کا کوڈ نام پڑگیا تھا۔ تاکہ پولیس اس روپوش راہنما کا کھوج نہ لگا پائے۔ ملک صاحب کراچی لاہور بہت عرصہ انڈر گرا ئونڈ رہا۔ ایک بار تو ماوندمیں چھپے رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ مگر بھلا ہو ہمارے ایک قبائلی پڑوسی کا جس نے ہم دونوں کو اس مہم جوئی سے بچالیا۔ورنہ وہ ایک غیر بلوچ کے بطور مکمل طور پر بلوچ آبادی کے اُس علاقے میں روپوش رہ ہی نہ سکتا تھا۔(روپوشی کی بھی کچھ requirementہوتی ہیں ناں!)
ملک صاحب نے اخباری بیانات اور پارٹی قراردادوں کے ماسوا لکھنے کی طرف توجہ نہ دی۔ وہ آرگنائزیشن کا کام ہی کرتا رہا۔ پارٹی اور کسان کمیٹی میں۔ وہ پاکستان میں کسان ونگ کے سربراہوں میں ہے ۔ اور کئی ملکوں میں یہاں کے کسانوں کی نمائندگی کی۔ اُس نے اپنی سیاست میں کبھی آرام نہیں کیا۔ جب دیکھو وہ سیاسی جدوجہد کرتے نظرآیا۔ بھارا صاحب کی زندگی ایک زبردست کتاب ہے۔ پڑھتے جایئے اور انسانی صلاحیتوں کا معترف ہوتے جائےے۔
وہ ایک اچھا استاد بھی ہے ۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ کا ایک ایک واقعہ اُسے ازبر ہے۔
حتیٰ کہ ملک اسلم کی موت کی خبر سنانے کے لےے…….. اور پھر ہمارے یار سعید احمد خان ایڈووکیٹ کے انتقال کی خبر سنانے کو۔
مگر یوں تو اُسے ایک اور طرح کے عذاب نے بھی پکڑا ہے ۔ بری صحت کے بڑھاپے میں سیاسی طور پر ایک بہت ہی متحرک شخص کی زندگی کی ایک لائف لائن ٹیلیفون ہوتی ہے۔ احباب سے باتیں کرنا، اُن سے مشترک ماضی کی باتیں دوہرانا ، حال کی بدحالی کی غیبتیں کرنا اور مستقبل کے درمیان مرجانے کی ” اگر مگر“ کو مشروط کرنا ۔ لوگوں کے مرتے جانے سے اب ملک صاحب بس ایک دو ٹیلیفون ہی کرسکتا ہے، پرائمری آدمیوں کو ۔(اُن مرحومین کے بچوں سے بات کرنا تو کوئی بات نہ ہوئی)۔ وہ بلوچستان میں ایک آدھ فون کرسکتا ہے۔ سندھ میں ایک آدھ لنگڑے لولے نیم زندہ کو۔ خیبرپختونخواہ بھی بس ……..
اُس کے ٹیلیفون کی بھی عجیب عادت ہے۔ آپ نے اُس کی کال اٹھانے میں ذرا دیر کردی تو وہ اس قدر پریشان ہوگا کہ اٹھارہ اٹھارہ بار فون کرتا رہے گا ۔جواب نہ آئے تو آس پاس کی گلیوں محلوں حتی کہ شہر کے واقف کاروں سے پوچھے گا کہ ڈاکٹر خیریت سے ہے ؟،فون نہیں اٹھا رہا۔ وہ واقف کار خواہ اسے حلف پر میری خیریت کا بتائیں تب بھی اُس کی تسلی نہیں ہوتی۔کبھی کبھی تو سینکڑوں میل دور میرے گاﺅں کسی اپنے واقف کار کو فون کر کے پوچھ لے گا ۔ اس طرح جن کو کوئی خبر نہ بھی ہوتی تو ملک صاحب سب جگہ تشویش پیدا کرتے ۔ اب ایک ملک صاحب نہیں درجنوں لوگوں کو اپنی خیریت کا بتانا پڑتا ہے ۔
اور جب بالآخرفون اٹھانے والا عزرائیل کی بجائے میں خودبول اٹھتا ہوںتو پھرخیریت ویریت اُسے بھول جاتی ہے ۔بس ایک محتاط احتجاج ہی کر لے گا۔اور ٹھڑک فون بند۔
اچھا، وہ جب بھی فون کرے گا تو ایک بات یقینی ہے کہ وہ کچھ برس قبل کی عادت کے برعکس اب کوئی لمبی چوڑی بات بھی نہیں کرے گا۔”رسالہ ملا ،یا ابھی تک نہیں ملا “کی خبر دے گا۔ نہیں ملا تو پوچھ بیٹھے گا کہ کب بھیجا تھا۔ اگر رسالہ ملے تو اس میں پہلے پہلے واقعات یا ناموں کی غلطیاں پکڑے گا۔ اور اگر ”خدانخواستہ “ کبھی رسالے یا کسی مضمون میں غلطی نظر نہ آئے تو پھر ہی اِس کے مندرجات پہ بات کرے گا۔ اپنی پسند بتائے گا۔ تعریف کرتا ہے مگربہت ہی اِن ڈائریکٹ تعریف ۔اس کے بعد میرے بچوں کا پوچھے گا۔ اور پھر بغیر کسی فارمل خدا حافظ وغیرہ کہے انتہائی بے مروتی کے ساتھ اچانک فون بند کر دے گا۔
ہاں۔ ایک بات تو وہ کبھی نہیں بھولتا۔ اِس بزرگ کو سردی بہت لگتی ہے ۔ اس لیے کوئٹہ موسم کا ضرور پوچھے گا ۔ اگر یہاں بارش، سرد ہوا ،یا برف ہورہی ہو تو وہ بہت تکلیف اور دکھ سے حساب لگا کر بتائے گا کہ یہ سردی فلاں دن اُس کے گاﺅں تک پہنچے گی۔ اور”بلوچو! ہم پنجابیوں پہ ترس کرو، سردی مت بھیجو “ جیسا لفظ بول کر فون بند کر لے گا۔
ملک صاحب کو جو بڑی نعمت حاصل ہے وہ پڑھنے کی ہے۔ پرانے سیاسی ورکروں کی طرح ایک آدھ اخبار پڑھے گا۔ایک آدھ رسالہ اُسے جاتا ہے وہ پڑھے گا ، کتاب جو اُس کو دستیاب ہو بالخصوص سیاسی تاریخی ہو تو ضرور پڑھتا ہے۔ اُس کی جڑواں آنکھوں میں سے ایک تو آغا خانیوں کے ہسپتال میں یہودو ہنود یا عیسائیوں کے بنائے ہوئے مصنوعی لینز سے مرصع ہے۔ دوسری ابھی تک ” انسان “ بنی ہوئی ہے۔
اس کی ”کمریا“ اب خوب خوب تنگ کرنے لگی ہے اُسے ۔پہلے بھی کوئی خاص نزاکت اس میں نہ تھی کہ زندگی بھر کسان کمیٹیوں کی سائیکل چلا چلا کر انہیں منظم کرتے رہنے سے کمر کی نزاکت کب کی خاک ہوچکی ہے ۔ مگر اب تو یہ اُسے ہسپتال کے چکر بھی لگواتی رہتی ہے۔ ہسپتال تو خیر، اب اسے شوگر کی بیماری بھی پہنچاتی رہتی ہے۔
آج 17دسمبر2020کو 70برس تک کسانوں اور مجبوروں مظلوموں کو منظم وباشعور کرتے رہنے والے میرے اِس دیرینہ دوست کی موت کی اطلاع ملی۔ میرا عمر بھر کا ( 47برس پرانا) سنگت ، لیڈر اور قریب ترین دوست بچھڑ گیا۔ غمزدہ کرنے والی کرب بھری خبر کہ ایک اہلِ نظر جھوک سے رخصت ہوا۔۔۔ مگر آخری سانس تک اپنے سائنسی نظریات پہ قائم دائم رہا۔
ملتان سے سعید احمد خان، ملک عطاءاللہ ،اور قصور گردیزی پہلے عدم کو چلے گئے، ڈیرہ غازیخان میں گلزار سائیکل ورکس والا مستری ولی محمد بھی کب کا گزر گیا، چاون برادران نہ رہے ، فیصل آباد سے میاں محمود اور سلیم بھٹہ قبرستان کے حوالے ہوئے اور سی آر اسلم ، ملک اسلم، خواجہ رفیق ، ہیرا پہلوان اور اسلم ریڈیو لاہور کو خالی کر گئے۔۔۔ پورا صوبہ عوامی جدوجہد کرنے والے عملی اور کہنہ مشق انقلابیوں سے محروم ہوگیا ۔ سارا بوجھ نوجوان اور دوسری صف کے لیڈروں پہ آن گرا۔
اس کمرزدہ اورشوگر گزیدہ بڈھے کی جوانی کے ایک قصے سے اپنا مضمون ختم کرتا ہوں:
جنوری 1966میں گندم کی شدید قلت پیدا کی گئی۔ ملک صاحب نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ کسانوں ور مزدوروں کا جلوس نکالا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ لوگوں کو سستے داموں گندم فراہم کرے۔ وہاڑی میں پارٹی کی اپیل پر مہنگائی کے خلاف ہزاروں کسان اور مزدور مرزا اعجاز بیگ اور محمد علی بھارا کی قیادت میں رواں دواں تھے ۔لوگ ساتھ ملتے گئے۔ سارا شہر مہنگائی اور ایوبی آمریت کے خلاف نعرے لگاتا سرکاری گوداموں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر پارٹی لیڈروں نے عوام سے کہا کہ ان گوداموں کو لوٹ لو۔
پھر کیا تھا، ہزاروں بھوکے انسان گوداموں پہ ٹوٹ پڑے۔ تالے توڑ لیے اور حسب ِطاقت گندم اٹھاکر لے گئے۔ پولیس کے چند سپاہی اس جم غفیر کے سامنے بے بس تھے اور چند گھنٹوں میں ہزاروں من گندم کے ان ذخائر کو خالی کردیا گیا۔بعد ازاں پارٹی کے رہنماو ں کو جلا ئو گھیرائو اور لوٹ مار کرانے پر گرفتار کرلیا گیا ۔ملک محمد علی بھارا اِن چالیس پچاس قیدیوں میں شامل تھا۔

(بیسویں صدی کے مزدکی!!)

ریفرنسز
1۔ بھارا، مدثر ۔ غیر مطبوعہ مواد۔
2۔ بھارا، مدثر ۔ غیر مطبوعہ مواد۔
3۔ بھارا، ملک محمد علی ۔ انٹرویو مدثر بھارا۔ غیر مطبوعہ ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*