سنو سوگوارو!

 

اٹھاؤ تابوت سوگوارو!
تمھارے پیارے تو سوگئے ہیں
نصیب میں ان کے تھی وراثت
وہی شہادت
گلے کٹا کر ملی ہے ان کو
لٹادو اب تو
لحد میں تاکہ سکون پائیں
جو زندگی میں نہیں ملا تھا
انھیں خبر کیا کہ کون آیا تھا پرسا دینے
کہ آنے والے نے دیر کردی
شقی کے ہاتھوں میں جب چھرا تھا
مدد کا یہ منتظر یقیناً رہا تو ہوگا
جو گزری اس پر گزر چکی ہے
تمھارے زخموں پہ نرم لفظوں کے پھائے رکھنے
جو کوئی آئے تو اس سے کہنا
ہمارے پیارے امانتیں تھیں زمیں کی
سو اس کو سونپ دی ہیں
مگر مجھے یہ کوئی بتائے
پناہ کس کی ہے قاتلوں کو
مدینہ کوفہ بنا ہے کیسے

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*