2021زندہ رہنے کی امید کا سال

 

اداریہ

2020کا سال انسان کی یادداشت میں ہمیشہ کے لیے ایک درندہ سال کے بطور نقش رہے گا۔ اور تاریخ نویسوں کے لیے تو یہ ایک حوالہ بنارہے گا۔ کووِڈ نائنٹین کا یہ سال کپٹلزم کی ناکامی کا لاﺅڈ سپیکر بنا رہے گا۔
دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی کورونا وائرس دوسرے ملکوں سے آیا۔ پہلے تو پتہ ہی نہیں چلا۔اور پتہ چلا بھی تو کون سے تیر چلائے ناکارہ حکمرانوں نے ؟۔نہ بڑے پیمانے کی کوئی سکریننگ ہوئی ۔ نہ جہازوں اور بحری جہازوں کی آمد و رفت کو ریگولیٹ کیا گیا۔ نہ لوگوں کو ماسک پہنا ئے جاسکے، اورنہ یہ لوگ فاصلے قائم کرواسکے۔
فیوڈل سماجوں کی خصوصیت ہے کہ اُن میں شوباز حکمران ہی مسلط رہتے ہیں۔ کورونا وبا بھی اس شوبازی میں لپٹی رہی ۔ کوارنٹین کے ڈرامے لگے ۔خصوصی مراکز قائم ہوئے مگر وہی سب سے بڑی کرپشن کا ذریعہ بنے ۔انسانی المیوں پہ کرپشن، نوحہ کے اوپر غبن، میتوں پہ چوری۔ پیسہ پیسہ، اور پیسہ ۔حکام ہر المیے پہ پیسہ بٹورتے ہیں۔ قدرتی وبا پہ حرص و چوری کا انسانی المیہ ملا کر انسانوں کے دکھوں میں مزید اضافہ کرنے کے بعد سب کام ادھورے چھوڑ دیے گئے ۔ پھر عوام کو ” ایسا کرو، ویسا کرو“ کی نصیحتی اور مدافعتی ٹی وی بازی شروع ہوئی۔ یہ بازی گری بھی بے اثر ہوئی تو ”عوام نے ایسانہیں کیا ‘ لوگوں نے احتیاط نہیں کیا“ کی دُہائی جاری ہوگئی۔
لہذا وائرس کھلی لگام کے ساتھ اپنی منشا کے مطابق یہاں وہاں اشرف انسان کو درگور کر تا رہا۔ وائرس کے ساتھ ہی مکڑ (لوکسٹ) بھی امڈ آیا۔ کورونا انسان کو مارتا رہا، مکڑانسان کی غذا برباد کرتا گیا۔ کچھ اناج بچاتو چینی مافیا، گندم مافیا اسے اپنی سمندر جتنی تو ندوں میں چھپاتے رہے۔ انسان مکمل طور پر قہرو غضب (بھوک) کے حوالے ہوا۔ بے عملی، بے عقلی اور بے ایمانی ۔۔۔کپٹلزم مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔
صرف یہاں نہیں ،بلکہ دنیا بھر میں کپٹلزم اِس وبا کے سامنے ناکام رہا۔ سائنس دانوں اور ہیلتھ ورکرز نے سارا بوجھ اپنے کاندھوں پہ دیکھا۔انہوںنے ایسی ایسی بے مثال قربانیاںدیں کہ حیرت انگیز ناول لکھے جائیں۔مگر پیچھے جب نظام ہی کھڑا نہ ہو تو ایک محاذ کیا کرسکے گا۔ چنانچہ کورونا، مکڑ، پیٹرول مافیا ، چینی مافیا، آٹا مافیا، ڈرگ مافیا،اور اُن سب کی پشت پناہ سب سے بڑی مافیا یعنی حکومت نے محنت کش انسانوں کو قتل کیا، اُن کی معاشی زندگانی کو بھبنھوڑ ڈالااور انہیں نیستی، نیست گاری میں پٹخ دیا۔
حکومت تو اس قابل بھی نہ تھی کہ دوہفتوں کے لیے ہی کپٹلزم کے منافع کی ریل پیل بند کراسکے۔ سوداگروں ، تاجروں نے آنکھیں دکھائیں، توحکومت سہم گئی، اُن کے ساتھ ہوگئی ۔اور یوں سارا زور گورکن اور ہیلتھ ورکر پر پڑا۔ کپٹلسٹ بحران کی ساری قیمت عوام ادا کرتے رہے ہیں۔ وہی چندے کر تے رہے ہیں ، وہی ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے ہیں ، وہی ایک دوسرے کی میتیں خاک کے سپرد کرتے رہے ہیں، ایک دوسرے کی سسکیاں بانٹتے رہے ہیں ۔
روزگار ختم ہوئے، دیگر بیماریوں کا علاج بند ہوا، بھوک امڈ آئی، تعلیم برباد ہوئی۔ حکومت اس سارے بحران کا سامنانہ کرسکی ۔وہ اپنی ہرذمہ داری سے بھاگ گئی۔ یوں حکومت و ریاست کی مکمل عدم موجودگی میںسارا بحران عام انسان کے سروں کی قیمت پر چلتا رہا ۔ بے یار،بے مدد گار۔ برسوں سے دیتے رہنے والے سارے ٹیکس بے کار گئے۔ مدد تو بجائے خود، یہ بہت بڑا حکومتی ڈھانچہ عوام پر الگ سے ایک جونک بن کر خود کو ہی مزید موٹا کرتا گیا۔
وبا کی پہلی لہر المناک تباہیاں دے کر گزر گئی۔ دوسری لہر اُس سے بھی تباہ کن نکلی۔ ہر شخص اپنے پیاروں میں سے کسی کی بیماری اور کسی کی موت کی داستان ایک دوسرے کو سنا رہا ہوتا ہے۔ مگر نظام اس قدر ناکام کہ اعداد وشمار تک جمع نہیں کرسکتا ۔ جی ہاں، کوئی اعداد وشمار موجود نہیں۔ سب جھوٹ ۔حتی کہ بیماری کی شدت اور اموات کی تعداد بھی چھپائی جاتی رہی ۔ ”اچھی خبریں “ دینے کی بیماری فاشزم کی ایک بڑی نشانی ہوتی ہے ۔ناکام حکومت ، ناکام نظام۔
اِس وبا میں بنی نوعِ انسان نے اپنے پندرہ بیس لاکھ ممبر گنوا دیے ہیں۔ مگر، اسی انسان کے ایک حصے نے ایک سال کے اندر اندر اس وائرس کے منہ پر مارنے والا جوتا یعنی ویکسین تیار کرلیا ہے ۔ گھپ اندھیر میں جیسے امید کا دیا جل گیا۔ انسان نے ایک بار پھراپنی اشرف المخلوقاتی ثابت کردی۔وائرس کی وباﺅں کے ماہرین کو خدشہ تھا کہ آٹھ ارب کی انسانی کُل آبادی میں سے سولہ کروڑ لوگ اس وبا کا لقمہ بن جائیں گے۔ مگر اُس پیمانے تباہی سے بہت پہلے سائنس نے مردنی چھائی آنکھوں میں امید جگادی۔
بلاشبہ ویکسین کی ڈسٹری بیوشن اور سپلائی میں کپٹلزم کا مافیا بہت مشکلات ڈالے گا۔ اس کی رسائی میںالتوا رہے گی، بہت سے ممالک ویکسین مفت مہیانہ کریں گے ،قیمتیں زن کدن میں ڈالنے کی حد تک مہنگی رہیں گی، ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کی جائے گی، اموات کو جاری رہنے دیا جائے گا۔۔۔۔ کاش سائنس اور انسان کے درمیان منافع اور کپٹلزم حائل نہ ہوتا۔
مگر یہ طے بات ہے کہ اگلے برس سائنس ،وبا کو پچھاڑ دے گی۔خوف کو شکست ہوگی ۔بہت سی سیاسی معاشی اور سماجی تبدیلیاں برپا ہوں گی۔ سماج مزید عقلمند ، مزید خبردار اور نارمل ہوگا۔ اور ارتقا کاسفر دوبارہ جاری ہوگا ۔
مگر انسان کے لیے کئی دیگر بڑے چیلنج ابھی باقی ہیں۔آئی ایم ایف سے نجات پانا باقی ہے۔ سامراج کی چیرہ دستیوں کو روکنا باقی ہے ۔ امریکہ کی طرف سے ایران ، کیوبا، فلسطین، بولیویا اور وینز ویلا کی معاشی ناکہ بندی کو توڑنا ابھی باقی ہے۔دنیا میں امن کی فضا قائم ہونا باقی ہے ۔ ابھی منزل کا بہت بڑا حصہ باقی ہے۔کرونا کی وبا نے دیگر بیماریوں کے علاج میں زبردست رکاوٹیں پیدا کردی تھیں۔ ایک قسم کا ”ہیلتھ کرائسز “ ہے جس سے نمٹا باقی ہے ۔ اسی طرح کووِ ڈ نے غذائی سپلائی چین کو بری طرح سے متاثر کر رکھا ہے ، اسے بحال کرنا ہے ۔ اس وائرس نے غربت کو تصور سے زیادہ بڑھادیا ہے ۔ مڈ ل کلاس سکڑ گئی ۔ نتیجے میں زبردست عوامی تحریکیں جنم لیں گی ۔ ایسی تحریکوں کو نظم وسمت دینا ہے ۔
ملک کے اندر ٹیکس ہیں کہ کم ہونے میں نہیں آتے۔ ایندھن کی بلند نرخیں کم ہی نہیں ہورہیں ۔ مہنگائی میں مداخلت ناممکن سا ہوگیا ہے ۔ شہری آزادیوں کی راہ میں بچھی خاردار تاریں گھنی ہوتی جاتی ہیں۔ سیاست اور سیاسی سرگرمیوں کے دشمن گلی محلہ سے لے کر ایوانوں تک میںمضبوطی سے موجود ہیں۔ ٹریڈ یونین ازم ، اور جلسوں جلوسوں پہ تشدد اور بندش روز بروز زیادہ ہوتی جارہی ہے ۔ میڈیا پہ پابندیاں ہیں۔
معاشرے میں کلاس سٹرگل ہی اس سب کچھ سے نمٹے گا۔جدوجہد انسانی حیات وبقا کا واحد آکسیجن ہے ۔ انسان اُس سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انسان ہمہ وقت تبدیلی کی جدوجہد میں رہے گا تو اشرف المخلوقات کہلائے گا۔ سرشت میں ہے کہ انسان سیاسی عمل میں جُتاہی رہے گا سیاست ہی اتحاد پیدا کرتی ہے، سیاست ہی شعور بخشتی ہے ،سیاست ہی مثبت راہیں نکالتی ہے، اور سیاست ہی تبدیلی کی ضامن ہے ۔لہذااگلا سال ہمیں کلاس دشمن کے خلاف متحد رہناہوگا۔
اس ملک میں عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف جاری مظالم کے خلاف مزید تیز جدوجہد کرنی ہوگی۔ پھر یہاںمحکوم قومیں ہیں۔ اُن کے جزائر پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ اُن کے شہروں کے بیچ خاردار تار یں لگائی جارہی ہیں۔ اُن کی وحدتوں کوتقسیم کرنے کے اقدامات ہو رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش ہو رہی ہیں۔طے کرنا ہوگا کہ ون یونٹی ذہنیت کے خلاف جدوجہد بہت دیر پا ہوگی ۔
ملک میں ابھی فاشزم حکومت میں ہے ، یہ فاشزم گلی محلے میں موجود ہے، یہ فاشزم ہر گھر میں موجود ہے ،ہر فرد کے اندر براجماںہے۔
اسی ننگی فاشزم کی موجودگی میں بورژوا پارٹیوں کے ساتھ چلنا بھی ہے اور اُن سے خبردار بھی رہنا ہے ۔ یہ بورژوا سیاسی پارٹیاں بظاہر فاشزم کے خلاف ہیں مگر یہ عذاب اصل میںتو انہی کا لایا ہوا ہے۔ یہ اپنے میں سے ایک چہرے کو ہٹا کرایک نیا چہرہ مسلط کریں گے اور تھکے ہوئے عوام پہ اگلے پانچ سال تک نازل ہی رہیں گے۔ ان بورژوا سیاسی پارٹیوںسے خبردار بھی رہنا ہے اور بورژواجمہوریت کی بحالی تک اُن کے ساتھ بھی چلتے رہنا ہے ۔ ۔۔۔ مارشل لا انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔
2021میں عوام الناس اپنے جمہوری کاروان کو مزید جاندار بنائیں گے ۔ بلوچ محنت کش عوام کے ترجمان کے بطور کپٹلزم اور فاشزم کی ہر شکل کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم اپنے قومی حقوق کے بارے میں زیادہ واضح ہوں گے ۔ ہم سماج کو مزید منصفانہ بنانے کی جدوجہد میں اپنی استقامت بڑھاتے رہیں گے ۔ مزدوروں کسانوں اور عورتوں کے حقوق سے متعلق شعور مزید بڑھائیں گے ۔اور عوام پہ یہ بات واضح کرتے جائیں گے کہ کپٹلزم کے پاس مسائل کا کوئی علاج نہیں ہے۔ متبادل راہ اپنا نی ہوگی۔
یوں نئے سال میں روشن فکر لوگوںکو، اُن کی تنظیموں کو ، اور اُن کے ترجمان ماہنامہ سنگت کو عوامی اتحاد کو مزید مضبوط اور متحد بنانے کا کام زور شور سے جاری رکھنا ہوگا۔ عوام سے قریبی تعلق بنائے رکھنا ہوگا۔ ورکنگ کلاس کے مفادات کو اجاگر کرتے رہناہوگا۔
ادارہ سنگت اپنے قارئین کے لیے ایک صحت مند اور تبدیلیوں والے نئے سال کی تمنا کرتا ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*