ہم جدا نہیں ہوتے

 

کوئی زنجیر بے آواز نہیں ہوتی
لیکن یہ صورت قابلِ یقین ضرور ہے
کہ اسے سننے والا موجود نہیں ہوگا

آوازوں کے شہر میں خاموشی کی حیثیت
کسی بے گناہ قیدی کی بے بسی کے مترادف ہے

ہمیں بھی بازگشت سنائی دیتی ہے
ہمارے وصال کی
اس کے بعد کے لمحوں کی
اور جدائی کی
جہاں ایک تصوّر بنتا چلا جاتا ہے
تصویریں بہنا شروع کر دیتی ہیں
قیدی اپنی بے بسی سے آزاد ہوتے جاتے ہیں
زنجیر کی آواز گونجنے لگتی ہے
اور ہم۔۔۔۔۔
جدا نہیں ہوتے

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*