ایفیزیا

ہاں تو بات یہاں سے شروع ہوئی تھی ۔
نہیں بات تو ہوئی ہی نہیں تھی۔
پھربھی کوئی بات تو ہوئی ہوگی۔
ہاں یادآیاکہ بات تو ہوئی تھی۔
پر کیا بات ہوئی تھی یاد نہیں۔
میں بھی باتوں باتوں میں کیا لے بیٹھی۔
کیا خوب کہ باتوں باتوں میں اس کی باتوں کی ڈور سے بندھی اس کے گھر چلی آئی تھی۔وہ کہتا تھا کہ تم باتیں بہت اچھی کرتی ہو۔باتیں تو وہ بھی سحرا نگیز کرتاتھا۔لیکن اس کی زندگی میںداخل ہونے کے بعد پتہ چلاکہ وہ نہ صرف باتیں کرتا ہے بلکہ وہ باتیں اوڑھتا ہے، باتیں پہنتا ہے۔باتیں کھاتا ہے۔اور یوں میں آہستہ آہستہ اس کی باتوں کے بوجھ تلے دبتی چلی گئی۔
بچپن میں اماں ایک قصہ سنایا کرتی تھیں۔کہ پرانے وقتوں میں ایک سو داگرتھا۔ وہ جب تجارت کی غرض سے باہر جاتاتھا تواپنی بیوی کو سختی سے تاکید کرتا تھا کہ نا تو کوئی گھر سے باہر جائے اور نا ہی کسی کو گھر پہ بلایا جائے۔اور مہینوںکی مسافرت کے بعد سوداگرجب گھرلوٹتا تو اس کی بیوی مر چکی ہوتی ۔اور وہ دوسری شادی رچا لیتا۔لیکن سوداگر کی شرط بدستو ر قائم رہتی کہ اس کی غیر موجودگی میںکسی کا بھی کا آنا جانا بالکل ممنوع ہے یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہا۔لیکن کہانی میں نئی بات تب ہوتی ہے ۔جب ایک مرتبہ سوداگر گھر واپس لوٹتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی زندہ ہے بلکہ خوش اور ہشاش بشاش ہے۔یہ دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں۔ اورپوچھتا ہے کہ کیا میرے جانے کے بعد تم گھر سے نکلا کرتی تھی؟
بیوی انکار میں سر ہلاتی ہے ۔
تو کوئی گھر پہ آتا جاتارہا تھا ؟
نہیں بالکل نہیں۔ بیوی پھر انکار کرتی ہے ۔
اب تو سوداگرکو اوربھی حیرت ہوتی ہے۔بیوی ہوشیار تھی ۔فورامعاملہ سمجھ جاتی ہے۔جھٹ کمرے میں طاق پر رکھے ایک آٹے کا پتلا اٹھا لاتی ہے۔سوداگر یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔اورغصے سے پوچھتا ہے یہ کیا مذاق ہے؟
بیوی عاجزی سے جواب دیتی ہے۔ نہیں، مذاق نہیں ہے یہ آٹے کا پتلا ہے۔وہ اور بھی تلملا اٹھتا ہے۔ آٹے کا پتلا ہے تو میرا اس سے کیا لینا دینا؟؟ بیوی کہنا شروع کرتی ہے۔ جب آپ چلے گئے تھے تو تنہائی میںگھبرا جاتی تھی پھر میرے ذہن میں خیال آیا اور میں نے آٹے کایہ پتلابنایا۔اور روز اس سے باتیںکیا کرتی۔
کہانی کے اس مرحلے پرہم بچوں کی آنکھیں پھیل جاتیں۔اورسوچنے لگتے بھلا آٹے کے پتلے سے بھی بات ہو سکتی ہے۔سوداگر جب یہ بات سنتا ہے تو غصے سے اسے اٹھا کر زمین پر دے مارتا ہے۔ پتلا جیسے ہی ٹوٹتاہے تو ایک نیلاسیال مادہ اس کے اندر سے بہہ نکلتا ہے۔ اوراماںاس قصے کا اخلاقی سبق سناتیںکہ وہ باتوں کا زہر تھا جو پتلے میں جمع ہوگیا تھا۔برسوں بعداب سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ اس کی کہی اور میری ان کہی باتوں کازہرمیرے اندر جمع ہوناشروع ہوگیا تھا۔اور جانے یہ کیسے نکلے گا؟؟ ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہر گھر میں ٹیلی فون سیٹ نہیں ہوا کرتے تھے۔ بلکہ جگہ جگہ ٹیلی فون بوتھ لگے ہوئے تھے۔ہماری شادی کے شروع کے دن تھے۔ وہ روزشام کو جاتا اورگھنٹوں گپ شپ کر کے آجاتا اورسوداگرکی بیوی راستہ تکتی رہتی۔کبھی کبھار مجھے بھی ساتھ لے جاتا کہ چل کر کسی دوسرے شہر یابیرونِ ملک کے عزیز رشتہ دار سے بات کرلو۔ جب میں نے اسے یہ بات بتائی کہ چلیں باتیںتو مفت ہیں لیکن وقت اورپیسہ تو لگتا ہی ہے۔تواس نے ایک مزے کی بات بتائی کہ وقت تو بہرحال لگتا ہے لیکن اندر کی بات ہے کہ پیسہ بالکل نہیں لگتا اسے بوتھ کی اس بات کا پتہ تھاکہ با ت بھی کرو اور پیسہ بھی نا لگے۔
اور باتوںکا سلسلہ اسی طرح بڑھتا چلا گیا جب تک ٹیلی فون محکمے والوں کواندر کی بات کا پتہ چل گیا اور یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔دریں اثناءگھر پہ فون لگ گیا۔اب تو میری دلچسپ باتیں بھی دلچسپ نا رہیں اور اس کی باتوں کا دائرہ بھی بڑھتاچلا گیا۔بلا تخصیص جنس بلکہ جنس مخالف میں زیادہ انہماک نظر آتا تھا۔اورآہستہ آہستہ میرے اوراس کے درمیان باتوں کا غیرقابلِ عبور پہاڑبنناشروع ہوگیا۔کبھی کبھار جان جوکھوں میں ڈال کر پہاڑ پر چڑھ کر دیکھتی تو وہ باتوںکے نت نئے ٹیلے اور چٹانیں بنانے میں منہمک نظر آتا اور باتوں کے پہاڑ کے پیچھے رہنا پسندکرتا۔ دوسری طرف میں دھیرے دھیرے باتوںسے چڑنے لگی تھی ۔
میرے دائیں طرف باتیں بائیںطرف باتیںاندر باتیں باہرباتیں ایک ہجوم تھا باتوں کا میرے اردگرد۔لیکن میںآٹے کا وہ پتلا نہ تراش سکی۔ہاں اس مدت میں گوشت پوست کے پتلے تراشتی رہی جو میرے وجود کا حصہ تھے لیکن اس تراش خراش میں میرا اپنا آپ کہیں گرتا رہا ،گم ہوتا رہااورمیںبکھرتی گئی۔لیکن میراسوداگرباتوںکی ڈوریوںسے پتلے باندھتا رہا۔ اور اب توہم دونوں کی باتیں گوشت وپوست کی قلقاریوں میں کہیں گم ہو گئیں ا س قدرکہ کوئی چیز منگوانے کے لئے بھی ایک رقعہ تھما دیتی اور مذکورہ اشیاءایک بے جان تھیلے میں پہنچ جاتیں۔باتیں دب گئیں ،کھب گئیںکہیںمیرے وجود میں۔
سنا ہے باتیں فضا میںموجود رہتی ہیں۔جو لفظ منہ سے نکلتا ہے وہ فضا میںمعلق رہ جاتا ہے۔ہزاروں برس کی باتیںکرہ ارض پر موجود ہیں بس ایک مشین کی ضرورت ہے جو ان باتوں کو یکجا کر کے ایک کلام ترتیب دے۔زمینی صحیفہ بنائے ۔کس قدر باتیں ہونگی اس صحیفے میں، محبت کی، نفرت کی، شہوت کی،گلے شکوے،لڑائی جھگڑے،تہمت بہتان، سازشیں، منافقتیںاور جانے کیا کیا۔
ہاںباتوںباتوںمیںتو بھول گئی کہ باتوںکاایک اوروسیلہ ٹیلی فون سے زیادہ ترقی یافتہ سیل فون آگیا۔ اب توباتیں میرے بسترپر ،میرے سرہانے، میرے تکیے پر ہر جگہ پھیل گئیں۔میرے چہرے پر میری آنکھوں میں جھلملانے لگیںا ن جگمگاتے لفظوںسے منہ موڑلیتی تومیری پیٹھ پر ناچنے لگتے۔
میںانگلیوں کی پوروں کے کمال کی شاہد بنی کہ کس طرح احساس کو ایک بدن سے دوسرے بدن میں پہنچادیتے ہیں۔ میںاس وصل کے احساس کودیکھتی رہی۔وہ پوریں جن سے فقط میںآشنا تھی میرے سوداگر نے ان پوروں کے لمس او ر احساس کوکس قدرارزاں کردیا تھا۔پوروں کالمس جگماتا نا مرئی لہروں پرسفر کرتا ہوا جاتا اور ایک احساس لے کرسکرین پر جھلمل جھلمل کرتالوٹ آتا۔میری نظریں پھسل پھسل کر اس کو اچکنے کی کوشش کرتیں۔ان باتوںنے میرے بسترکا بٹواراکردیاتھا۔مجھے غبی گنوار کہہ کر دیر تک رتجگا ہونے لگا۔اور میں بستر پر کروٹیں بدل بدل کر چشم تصورسے پوروں ،لمس،لفظ اورچمکتی سکرین کاسوچتی رہتی۔نیند پہلے بھی روٹھی تھی اب بھی روٹھی رہی۔باتوں کی تلخیو ں سے لڑتے لڑتے میرے اندر مٹھاس بڑھ گئی۔کس قدرتضاد ہے۔تلخ میٹھا، میٹھا تلخ۔اور اب اس بیماری سے دست و پنجہ نرم کرنے لگی ۔لیکن میرا ذہن کسی پنڈولم کی طرح بدستورکہی ا ن کہی باتوں میں جھولتا رہا۔
برسوںگذرگئے سوداگر کی آوازیں سو تے جاگتے میرے کانوں میں گونجتی رہتیں۔ اب توان پہاڑوں کے پار جاکر بات کرنا پڑتی۔ جا نے سات پہاڑتھےہفتے کے سا ت دنوں کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ، لیکن ان پہاڑوں پراترتے چڑھتے میں اپنی بات بھول جاتی کہ کہنا کیاتھا۔ اور جواب میں مجھے یہ سنناپڑتاغبی جاہل، بات کرنے کی تمیز نہیں،اوروہ پھراپنی آواز کی فریکیو نسی بدل کر باتوں میں لگ جاتا۔باتوںسے باتیں نکلتی جاتیں اور فضا میں پھیل جاتیں کسی جادوئی مشین کے انتظارمیںکہ انہیں وصول کرکے ریکارڈ کرے۔میںپتھر کے زمانے کی گردانی گئی۔ اور حقیقت میں بھی مجھے پتھرہی سمجھاگیا۔ ایک چلتا پھرتا پتھر۔جس پر باتیں اثر نہیں کرتیں۔لیکن احساسات تواسی پتھر کے زمانے کے ہیں۔کاش خالق انسان نے احساسات کو بھی اپ گریڈ کردیاہوتا۔اور پھر اس پتھر میں ارتعا ش تب پیداہوا جب انٹرنیٹ کی ابتداءہوئی۔ اب سوداگر کی آواز ،ہنسی مذاق میرے کانوں میں گونجنا بند ہو گئیں۔ ہر جگہ چہرے نظر آنے لگے۔ اتنے چہرے کہ اتنی تعدادمیںلوگ شایددنیا میں نہیں تھے۔چشم و دست کاکمال ہونے لگا۔
وہی الفاظ جن سے خالق نے اپنے کلام کا آغاز کیا۔ الف لام میم ، یہ کیسا الم تھا کہ جس سے اس المیے نے جنم لیا تھا۔حرف حرف سے ابتداءحروف لفظ بنے اور لفظ جملے اور پھر کلام بنا۔لیکن وہ آسمانی کلام اوریہ زمینی کلام ۔
کئی موسم بدلے کتنی رتیں بیت گئیں اب تو پوروں کو میری پیمائش کی ضرورت ہی نہ رہی۔ لیکن احساسات اور جذبے تو ہمیشہ جوان رہتے ہیںشاید مرتے دم تک۔میں ماضی میں ہی کہیں رہ گئی تھی۔ کسی سوکھی شاخ پہ لٹکی، پیرو ں میںرلتے ہوئے زرد پتوں کی طرح، پیار بھرے خطوں میں لپٹی، کھڑکی کی اوٹ سے جھانکتی، دوپٹے میں لپٹی ،افسانوی محبتوں کے جادوئی مرغزار میں، گلی کے موڑ پر آنکھیں گاڑھے کسی کے انتظار میں، جانے میرے کتنے حصے بخرے ہو چکے تھے۔ہر حصے کی الگ کہانی تھی۔
اور پھر وہ رات بھی آئی۔ میں بارہ بجے کا انتظار کرتی رہی کہ اپنے ملن کی شب کی یاد دلا کر شاید وہ کمزور تار جوڑ سکوں جہاں نہ آہ کی فریکوینسی پہنچ سکتی تھی نہ چاہ کی۔ جوسات پہاڑوں بلکہ ان گنت پہاڑوں کے بیچ میں کہیں اٹک گیا تھااور مواصلاتی نظام منقطع تھا۔ میں دبے پاو¿ ںسٹڈی روم میں داخل ہوئی۔ نئے زمانے کی طرز پر سرپرائزدینے ۔عین اس کی ٹیبل کے پاس جیسے ہی پہنچی تووہاں کیا دیکھتی ہوںکہ باتوں نے تجسم اختیار کرلیا تھا۔ لیپ ٹاپ کی چمکتی سکرین پرباتوں کی تجسیم دیکھی میرے خدا کیا میدان حشر بر پا ہوگیاہے؟؟؟ ہاتھ پاو¿ں بولنا شروع ہوگئے ہیں۔بلکہ جسم کا ہرعضو بولتا دیکھا بہت عجیب بولی تھی۔ارتعاش کہاںے کہاں متصل ہو گئے تھے۔الفاظ و معانی حقیقت کھو بیٹھے تھے ۔کیا الفاظ و معانی مقدم تھے یا احساس و اظہار۔میری آنکھیں پھیلتی سکڑتی گئیں۔ کہی ان کہی کھلبلا کر رہ گئے۔ زیر شکم کا یہ اہتمام ، یہ چکر ایک کائناتی چکر جو مور کے پنکھ پھیلانے سے لے کر کتوں کی جفتنی ہونے تک ہر جگہ پھیلا ہے۔بس اتنا یاد ہے کہ ان بولتے اعضاءکی حشر سامانیوں نے میرے دماغ کے تما متر مواصلات کو توڑ پھوڑ کر الگ تھلگ کردیا۔ جہاں نہ الفاظ بچے نہ معانی۔نہ احساس نا اظہار۔اور میراپراناوجوداپنے ان پرانے خیالا ت کے ساتھ دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ آنکھ کھلی توہسپتال کے بیڈ پر تھی۔ایک ڈاکٹر مجھ پر جھکاہوا تھا ۔
مجھے ہوش میں دیکھ کر اس نے اپنے پیشہ ورانہ انداز میں میرا حال پوچھا
میں نے سر ہلا کر جواب دیا
پھر وہ پے در پے احکامات صادر کرتا رہا اور میں اس پر ایک روبوٹ کی طرح عمل کرتی رہی۔
منہ کھولیں
زبان نکالیں
اوپر دیکھیں
ہاتھوںکوکندھوںسے اوپر اٹھائیں
اس نے سٹیتھوسکوپ میرے سینے پر رکھ کر کہا لمبے لمبے سانس لیں۔اور اگلے ہی لمحے کہا بولیں تین تین تین
میں نے بولنا چاہا لیکن یہ کیا مجھ سے ایک لفظ بھی نا بولا گیا ۔بظاہر سب الفاظ میری سماعت سے ٹکرا کردماغ میں پیوست ہورہے تھے۔جہاں ڈیکوڈ بھی ہورہے تھے ان کے معانی بھی روشن تھے لیکن مواصلات کے نظام میں جو گڑ بڑ تھی اب وہ الفاظ جواب بن کر میرے منہ سے نکل نہیں رہے تھے ۔فورا میرے ٹیسٹ کروانے کی ہدایت دی گئی ۔خون کے ٹیسٹ ،سی ٹی سکین وغیرہ ۔سب مکمل ہوجانے پر ، سی ٹی سکین کو الومینیٹرپرنصب کر کے ڈاکٹر بتا رہا تھا کہ کوئی دماغی بیماری نہیں۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک ہے ۔انہیں ایفیزیا ہو گیا ہے ۔میرے سوداگر کے چہرے پر استفہامی کیفیت دیکھ کر ڈاکٹر نے بتانا شروع کیا کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میںمریض بات نہیں کرسکتا ۔ا س کی مختلف اقسام ہیں۔ کچھ نہ تو بات کو سمجھ سکتے ہیں نہ لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن جو قسم آپ کی بیگم میں ہے اس میں مریض بات کو سمجھ سکتا ہے لیکن اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید خرابی آنے کے امکانات بھی ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*