خَلِش

آنکھیں تو پاگل ہیں
در بدر بھٹکتی رہتی ہیں
لا حاصل کی تمنا میں
لمبی سرد راتوں میں
نہیں ہے کوئی چنگاری
پھر بھی
امید کی کھڑکی تو روز و شب ہی کُھلتی ہے
ڈاک کا انتظار رہتا ہے
کوئی نامہ، دو لفظ ہی شاید
بس اِک جُمؤد ہے
دِل کے مُعبد میں
شہرِ خموشاں سی خموشی ہے
کوئی ہلچل کوئی جُنبش
صلے اور ستائش کی کوئی خواہش
کُچھ بھی تو نہیں ہے
بس سوگواری ہے
آسماں پہ کالے بادل ہیں
جو چھٹ کر نہیں دیتے
مینہ برستا ہے تو برستا ہی رہتا
آنکھوں کا کاجل روز پھیلتا ہے
کالے ناگ سرسراتے ہیں
اِک پل میں سو سو بار ڈستے ہیں
بڑھتے قدم رُکنے سے لگتے ہیں
امید ڈگمگاتی ہے
جب کوئی مقصد نہیں ہے
تو گھبرا ہٹ کیوں طاری ہے
خاموشیاں چبھنے سی لگتی ہیں
بلاوجہ کاانتظار رہتا ہے
کس لمحےمیں کیا ہو گا پتہ ہی نہیں چلتا
زندگی ہنسنے کو کہتی ہے
پر آنکھ روتی ہے
تو شاطر وقت مسکرا کے کہتا ہے
بربادی کا غم کیسا
مجھے خود ہی گنوایا ہے
شام کا ڈوبتا سورج
چُپکے سے کُچھ پیغام دیتا ہے
جانے والا نہیں رُکتا
جو اپنا ہی نہ بن پائے
وہ کسی اور کا نہیں ہوتا
کُچھ نیا کہو
ہر کہانی میں ایسا ہی ہوتا ہے
پھر بھی نجانے کیوں
ذہن میں اِک خلش سی رہتی ہے
جس سے چھٹکارا
کبھی مُمکن نہیں ہوتا ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*