ساڑھے تین کروڑ سال قبل کا بلوچستان

بلوچی تھیریم

بلوچی تھیریم (Baluchitherium) نامی ایک بہت بڑی جسامت والے میمالیہ کے فاسلز ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں دریافت ہوئے ہیں۔ یہ ایک بے نظیردریافت ہے ۔یعنی اِس کرہِ زمین پر پایا جانے والا سب سے بڑا جانور یہاں رہتا تھا۔اور یہ 30ملین سے لے کر 20 ملین سال قبل کی بات ہے ۔ یہ دیوسے بھی بڑا جانور یہاں بلوچستان کے گرم ترین خطے میں دندناتا پھرتا تھا۔ تب ہمارا وطن سرسبز اور گھنے جنگلات سے ہرا بھرا ہوتا تھا ۔ یہ بلائوں کا بلا بگٹی علاقے میںسوئی سے شمال میں1985 میں دریافت ہوا تھا۔جس شخص کی قیادت میں فرانس کی ایک یونیورسٹی کے فاسلز ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کا پورا ڈھانچہ کھو د نکالا۔ اس کا نام ژاں لوپ ویلکم تھا ۔ ویلکم کا مجسمہ تو بلوچستان کے دارالخلافہ کے دل میں نصب ہونا چاہیے ۔ مُحسن تھا پوری سائنس کا وہ ۔
بلوچی تھیریم نامی یہ جانوربے سینگ تھا۔ یہ آٹھ میٹر(28,27فٹ) لمبا اور ساڑھے پانچ میٹر (18 فٹ)اونچا تھا۔ تقریباً دو منزلہ عمارت جتنا اونچا ۔اس کا وزن پتہ ہے کتنا تھا……..بیس میٹرک ٹن!!۔ایک میٹرک ٹن ہزار کلوگرام بنتا ہے۔ یعنی 20ہزار کلو گرام۔ افریقی ہاتھی کے باپ سے بھی بڑا ……..تصور سے بھی بڑا۔اس کی لمبی گردن اور رومن پلرز(ستون) جیسی لمبی ٹانگیں اسے جنگل چَٹ کرنے میں مدد دیتی تھیں۔(شکر ہے یہ گوشت خور جانور نہ تھا)۔ یہ کافر روزانہ دو ٹن خوراک کھاتا تھا۔ اندازہ کرسکتے ہیں کہ بلوچستان میں اس فضول خرچ بد بلا کو کھلانے کے لئے اُس زمانے میں کتنا گھنا اور بڑا جنگل ہوگا؟ ۔اُس پر طرہ یہ کہ یہ جانور ریوڑوں کی شکل میں رہتا تھا ……..
اب ذرا سا تکلیف کریں ۔کوئٹہ سریاب روڈ پر موجود جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے میوزیم کا چکر لگا آئیں۔ وہاں اس جانور کی فاسل شدہ ہڈیوں کو فرش پرآپس میں فٹ کرکے رکھا ہوا ہے۔ لگتا ہے جانور آرام فرمارہا ہے۔ اپنے بچوں کو ضرور دکھائیں۔اور اس میوزیم کا چکر لگا کر بچوں کو جب واپس لائیں، توانہیں کمپیوٹر پر بٹھا دیں اور انٹرنیٹ پر Baluchitherium سرچ کرالیں ۔ اُس کے بعد تو آپ بھی بلوچستان کے واسطے سے سائنس کی دنیا میں داخل ہو جائیں گے اورآپ کے بچے بھی جہالت سے ملینوں سال دور ہو جائیں گے۔
یہ جانورخاص جغرافیائی حالات میں بڑھوتری پا گیا تھا ۔۔۔ یہ بڑا جانور دو کروڑ اسی لاکھ سال پرانا ہے۔ یعنی ہمارا ڈیرہ بگٹی تین کروڑ سال قبل گھنے اور سرسبز بارانی جنگلات کی سرزمین تھی۔جنگلات ، نمی ، اور پانی کی فراوانی والے ایسے موزوں حالات جس میں اِن جہازی سائز کے جانوروں کا مقابلہ کرنے والا کوئی درندہ ہی موجود نہ رہا ۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ ڈائنو ساروں کو معدوم ہوئے عرصہ بیت گیا تھا ۔ لہٰذا یہ دیو جتنا بڑا جانور بغیر کسی مقابلہ اور ڈر کے مزے مزے سے درختوں کی ٹہنیوں کے بھی آخری حصے کا نرم و نازک علاقہ چرتے رہے تھے۔ ایسی بد بلا وحشتناک دیو کو درندوں سے کیا ڈر ہوگا؟۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ وہ اکیلا نہیں بلکہ ریوڑکی صورت اکٹھے رہتے تھے۔لہٰذا زبردست انداز میں ان جانوروں کی نشوونما ہوتی رہی ۔
خیال کیا جاتا ہے کہ تین کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے ( جب ابھی ابھی ہمالیہ نے ابھرنا شروع کیا تھا ) ، یہ جانور انڈین اور بقیہ ایشیا کے درمیان زمینی پلوں کو استعمال کرتے ہوئے یہاں پھیل گئے۔ یہ سارا علاقہ فاسلز سے بھرا پڑا ہے۔

فرانسیسی ماہرِ فاسلز ژاں لوپ ویلکم کے بقول ” یہ ایک پورا ریوڑ تھا۔ ان کے فاسلز آج ایک خشک شدہ مگر اُس زمانے میں ایک گہرے وسیع دریا کے bedمیں ملے۔
بلوچی تھیریم کے بارے میں سائنسی رسالہFOCUSکے دسمبر2002کے شمارے میں مسٹر سالی پالمر کا ایک مضمون چھپا تھا ۔اس کا عنوان تھا: صحرا میں ڈھانچہ ۔(www.focusmag.co.uk)۔ اِ س بہت ہی اہم سائنسی تحقیقی رپورٹ کا ترجمہ میں نے کیاہے ۔(مصنف)
کئی ملینیم سال بیتے۔ ایک شام دیوہیکل ممالیوں کا ایک ریوڑ وادی میں وسیع دریا کے قر یب جمع ہوگیا ۔ ڈا ئنوسار بہت عر صہ ہواتھاکہ معد وم تھے اور یہ والے ،ممالیے سر سبز برساتی جنگل میں پتے چرنے کوآزاد تھے ۔شکار خوردرندوں کی اکثر یت سے توان کی حفا ظت ان کی عظیم الجثہ قدقامت کرتی تھی، پھر بھی حفا ظت کی غرض سے وہ اکٹھے رہتے تھے ۔ بہت بلند ی پر درختوں کی چوٹیوں پر ، گرم مر طوب ہوامیں بندرجیسے دودھ پلانے والے جانور لیمراور اڑتی گلہر یاں پھڑپھڑا تی تھیں ، جبکہ نیچے دریا میں بہت بڑے کچھو ے جہازی سفر کرتے تھے ۔
اچانک دس میٹر لمبے مگر مچھوں نے جو کہ پانی کی سطح سے نیچے گھات لگائے ہوئے تھے ، اس ریوڑ پر حملہ کر دیا۔انہوں نے ان سبز ہ خور وں کو شاخوں سے کچلتے ہوئے نیچے پانی میں گھسیٹا ۔ یہ جدوجہد بہت مختصر تھی ، اور عظیم الجثہ ممالےے مگر مچھو ں کے زیر ہوگئے ۔
جو ں جوں سال گزرتے گئے ، اُن مگر مچھوں کی پھینکی ہوئی ہڈیاں دریا پر بچھنے والی مٹی میں ڈھپ گئیں ۔ا س سے وہ ہڈیاںہوا، روشنی ، شکاریوں اور مردار خور جا نور وں سے محفو ظ رہیں ۔ رفتہ رفتہ یہ ہڈیاں بالآخرفاسلز بن گئیں ۔ وہ وہیں تہہ کے نیچے دفن رہیں۔ جنگلا ت رفتہ رفتہ خشک جلتے صحر امیں بد ل گئے ، اور دریا خشک ہوکر معد وم ہی ہوگیا۔
اب 28 ملین(دو کروڑ اسّی) بر س بعد پیرس میںنیچر ل ہسٹری میوزیم اوریونیورسٹی آف مونٹی پلیئیر کے سائنس ڈیپا ر ٹمنٹ کے ماہرینِ فاسلز palaeontologists)) اسی وادی میں اترگئے، جوکہ اب رتیلی اور بنجرہے ۔ وہ سائنس دان اس بہت بڑے ڈھا نچے کو آخر ی صورت دےنے لگے ، جو کہ انہوں نے اسی ریوڑ کی فاسل شدہ ہڈیوں کو ترتیب سے رکھ کر بنایاتھا ۔ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ فٹے اور پیما ئشیں رکھیں ۔ ٹیم لیڈ ر ژاں لو پ ویلکم پچھلی ٹانگوں کے درمیان جھکتاہے ۔ اور اپنا ہاتھ ایک بہت بڑی کلائی کی ہڈیوں کے ساتھ رکھتا ہے تاکہ سائز معلوم کرسکے ۔ ٹیم نے انہیں جھاڑ پونچھ لیا، اِن ہڈیوں کے گرد سفید پلا سٹر کا خاکہ کھینچا۔اُس مرتب شدہ تصویر میں بچوں جیسی بات ہے جو کہ ایک مہین،بغیر سینگوں والے rhino کی طرح ہے ۔یہ پانچ میٹر سے زیادہ بلند ہے ۔اور ناک سے لے کردُم تک نومیٹر لمبا تھا ۔اور اس کاوزن بیس ہزار کلورہاہوگا جوکہ ہاتھی کے وزن سے چار گنا زیادہ ہے ۔ قریب ہی بگٹی قبیلے کے معتبرین جوکہ اس علاقے کے مالک ہیں اور جنہوں نے ان ماہرینِ فاسلز ( palaecontologists )کی حفاطت کرنے کا قول کیاتھا ، تعجب سے دیکھ رہے ہیں۔
ان زمینی دیو ہیکل ممالیوں(”بلوچی تھیریم“)کے فاسلزسب سے پہلے 1908 میں دریافت ہوئے ، جب ایک بر طا نوی ماہر ِفاسلز ڈاکٹر کلا ئیوفورسٹر کو پر ایک مہم پر بگٹی علا قے گیا تھا ۔ چند فاسلز منگو لیا اور شما لی چین میں ملے ۔
بگٹی علاقہ چمن فالٹ پہ ٹا نگیں پھیلا کر کھڑا ہے ، جو کہ ایشیا ئی اور انڈ ین پلیٹوں کو علیحد ہ کرتاہے ۔ خیال کیاجا تاہے کہ 35 ملین (تین کروڑ پچاس لاکھ )سال پہلے ، جب ہمالیہ نے ابھی ابھی ابھرنا شروع کیاتھا ،یہ جانور انڈ ین اور بقیہ ایشیا کے درمیان زمینی پلوں کو استعمال کرتے ہوئے یہاں پھیل گئے ۔ یہ سارا علاقہ فاسلز سے بھر اپڑا ہے ، اس لےے اُس زمانے کے بلوچستان کے گرم موسم نے فاسل بننے میں تلچھٹ کو موزوں بنایا۔
ویلکم 1912 کے مہم والے فاسلز سے بہت متاثر تھا۔ وہ کہتا ہے ” ہڈیاں مختلف زمانوں اور مختلف جیالو جیکل علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں ، پھر بھی اُس وقت تک کوئی بھی یہ بات ثابت نہیں کر سکتا تھا “۔اس نے کہا کہ ” ثابت کرنے کاواحد طر یقہ یہ تھا کہ اُس جگہ پر جایا جائے اور سختی کے ساتھ سائنسی طر یقوں سے کھدائی کی جائے۔ مگرچو نکہ یہ علاقہ 1914 سے شورش زدہ رہا، اس لیے ماہرین ِ فاسلز ایسانہ کرسکے“۔
”1994 میں ویلکم کو اُس بات کاموقع مل ہی گیا جس کے لےے وہ منتظر تھا ۔ ایک پاکستانی انکل سے تعلقا ت کے ذریعے وہ مقامی بگٹی قبا ئلی راہنما ﺅں سے ملا قات کے قابل ہوا۔ اُس نے بگٹی علاقے میں پڑ ے فاسلز کو جمع کرنے اور جیالوجیکل تہوں کو تلاش کرنے کی اجازت مانگی۔ یہ علاقہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے اور ایک لاقانون خطر ناک جگہ ہے ۔
” بگٹی لارڈ ، نواب محمد اکبر خان بگٹی آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ سیاسی مذ اکرات کارہے ۔اس نے ویلکم کی طرف سے پیش کردہ ریسر چ منصوبے میں بہت زیادہ دلچسپی لی ۔اس نے اپنے بگٹی قبیلے کے ذیلی فرقے کے وڈیروں کو بلایا اور بہت بحث مبا حثہ کے بعد اس نے ماہر ین ِفاسلز سے دوستی کرنے اوراُن کی حفاظت کرنے کا یقین دلاکر انہیں آنے کی دعوت دے دی۔ کسی بھی یورپی ٹیم کو یہ پیشکش اولین بارتھی ۔یہ ایک آسان فیصلہ نہ تھا ، اس لےے کہ بگٹی اپنے مہما نوں کی مکمل ذمہ داری لے لیتے ہیں ۔ اگر اُن کی پنا ہ میں کسی کو گزند پہنچے ، تو بگٹی اس کا انتقام لیتے ہیں ، اسی طرح جس طرح کہ گویاوہ مہمان انہی میں سے ہو۔ لہذا پوراعرصہ مسلح قبائلی ،ماہر ین ِفاسلز کی حفا ظت ونگہبا نی کرتے رہے ۔
ویلکم کہتا ہے۔ ” بگٹی علاقہ قدیم ترین Mastodon (بہت بڑے جانوروں)کے فاسلز کے لےے مشہور ہے “۔Mastodonجدید ہاتھیوں کے معد وم شدہ رشتے دار تھے ۔ بگٹیوں نے ٹیم کو ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ فاسلز ملنے والی جگہ بتا ئی ، اوررفتہ فتہ اگلے چھ سال کے دوران انہوں نے مختلف علاقوں کی کھدائی شروع کی ۔ مجمو عی طورپر انہوں نے بگٹی علاقے میں چالیس کلو میٹر کے علاقے میں چالیس مختلف فاسلز مقامات پہ کھدائی کی ۔ ان میں سے ایک امیر ترین علاقہ جنوب میں ” لُنڈ وچُر“نامی مقام ہے ۔ وہ بہت دشوار گزار علاقہ ہے۔
”مقامی لوگوں کی مدد سے بہت تلا ش کے بعدہم لُنڈ و کے پانی کے چشمے تک پہنچے جو کہ صحرا میں ریسرچ کرتے ہوئے ایک اہم اقد ام ہوتاہے “۔ ویلکم کہتاہے ۔ ” ابھی ہمیں کھدائی میں چند ہی دن گزرے کہ ہم نے اپنے بیس کیمپ کے بالکل قریب بلو چی تھیر یم کی ایک پوری کلا ئی ہڈی تلاش کر لی “۔
”موسمی صورتحال شدید تھی۔ دن کے وقت سایہ میں بھی درجہ حرارت52 ڈگری تک جاتا تھا ، لہٰذا ماہرین صرف صبح سویرے یا شام گئے کام کرسکتے تھے ۔ وہ کام کرتے تھے اور بگٹی مسلح گارڈ اپنی بندوقیں تھامے جلتے سورج میں پہرہ دیتے ۔ مگر ماہرین نے جلد ہی ریوڑ سے تقریباً دس کم سن بلوچی تھیریم کے بہت سے ٹکڑے ڈھونڈ نکالے۔” باقیات، اور آس پاس کے جانوروں کے ہمارے مطالعے پہ مبنی، ان کم عمر ممالےوں کو 28ملین سال قبل دس میٹر لمبے مگر مچھوں نے جھپٹ لیا تھا“۔ ویلکم کہتا ہے ” ہمیں دریا میں مگر مچھوں کے علاوہ کسی اور طاقتور شکاری جانور کے فاسل نہ ملے جنہوں نے اتنے عظیم الجثہ درندوں کو ماردیا ہو“۔
ٹیم نے ہر کھدائی کو اُس مقام پہ براعظمی امانتوںاور ذخائر کے مطالعے سے شروع کیا ۔ انڈین اور ایشیائی پلیٹوں کے ٹکراﺅ سے منسلک زلزلائی واقعات کے ایک نمایاں عجیب اجتماع، ہوا، اور پانی کا کٹاﺅ وغیرہ سب نے مل کر اس علاقے میں فاسلز کا ایک جیالوجیکل ” زینہ“ جیسا پیدا کیا، جو34 ملین سے 10ملین سالوں تک قدیم ہے ۔ زینے کا ہر قدم اپنی اپنی تہہ کے بارے میں بتاتاہے ۔
ماہرین نے بارہ مختلف تہیں دریافت کیں۔ ویلکم کا ایمان ہے کہ فاسلز کو سمجھنے کے لےے مضبوط جیالوجیکل علم بہت ضروری ہے۔ ” جب آپ ایک مخصوص تاریخ وارچوکھاٹ میں فاسل ریسرچ کررہے ہوں تو اُس علاقے کو سمجھنا لازمی ہوتا ہے “۔ وہ کہتا ہے کہ ” میرے زمانے میں ماہرین ِفاسلز جیالوجی میں بھی بہت تربیت یافتہ تھے، مگر آج کل ایسا نہیں ہے ۔ ایک فاسل جس جگہ سے نکلتا ہے وہ اس جگہ سے حقیقتاً بندھا ہوتا ہے ، لہٰذا جیالوجیکل سیاق و سباق اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا کہ خودفاسل“۔
”لُنڈوچُر میں دریافت ہونے والی ہڈیوں کی ٹھیک ٹھیک عمر معلوم کرنے کے لےے ٹیم نے دس کلومیٹر مشرق میں پالی نامی جگہ تک کا سفر کیا۔ وہاں انہیں چھوٹے ممالیوں کے مائیکرو فاسلز کو ملے جن کا ارتقا پہلے سے معلوم تھا ۔ مثلاً کھدائی کرنے والے کچھ چھوٹے جانور۔ انہیں ” مارکرز“ کہا جاتا ہے ، اور وہ جیالوجیکل تہوں کی ٹھیک ٹھیک عمر معلوم کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔ فاسلز کے لیے تقریباً سو ملین ذروں کے محنت طلب چھا ننے میں کئی ہفتے لگے جو کہ ریت کے ایک ذرے سے بڑے نہ تھے، مگرانہوں نے ریڑھ دار چھوٹے جانداروں کے فاسلز شدہ ہزاروں دانت تلاش کےے ۔ دانت اپنے ڈھانچے کی وجہ سے کسی جاندار کے دوسرے حصوں کی بہ نسبت بوسید گی کو زیادہ برداشت کرلیتے ہیں ۔
”ایک مائیکرو میمل سپیشلسٹ لارنٹ ماری واکس نے چھاننی میں چھاننے کے دوران آثار معلوم کرنے کے لےے ایک دو چشمی مائیکرو سکو پ کا استعمال کیا۔ یہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں بے انتہا توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جو کہ ایک دن میں دس بار دوہراناپڑتا ہے۔
”ہر فاسل احتیاط سے کھودا جاتا ہے اور ہر بلوچی تھیریم ہڈی کو ایک خصوصی گوند کے ذریعے دوبارہ جوڑا جاتا ہے۔ کھدائی کا ہر موسم ختم ہوتا توفاسلزکو ریکارڈ کیا جاتا ، کٹیگری بنائی جاتی اور پاکستان میں سٹور کیا جاتا ۔ ” ہم نے کئی وجوہات کی بنا پر اوریجنل مقام پہ بلوچی تھیریم کا ڈھانچہ دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا“ ۔ ویلکم نے بتایا ۔ ”ہم پہلی بار اسے حقیقی طور پر تصور کرنے کے قابل ہوئے۔ہم نے کئی نئی تفصیلات دیکھیں ۔مثلاً ہمارے تصور کے بر خلاف اگلی ٹانگ زیادہ مضبوط تھی،سرین چھوٹا تھا، اور گرد ن طویل تھی۔ ڈھانچے کی دوبارہ ترتیب نے، ہمارے محافظوں کو بھی متحرک کر دیا جو برسوں تک ہمیں دیکھتے رہے تھے کہ ہم کیا کام کررہے تھے ۔ اس سے ہم اور وہ مزید قریب آگئے“۔
”ٹیم نے ” ہڑ گئی“ نامی قریبی مقام کو بلوچی تھیریم کے ڈھانچے کورکھنے کے لےے منتخب کیا ۔ قیمتی فاسلز کو احتیاط کے ساتھ صندوقوں میں بند کیا گیا اور اونٹ کے ذریعے ٹرانسپورٹ کیا گیا جو کہ اس دشوار صحرائی علاقے میں رسل و رسائل کاواحدذریعہ تھا۔ ویلکم کی ٹیم میں چار فرانسیسی ماہرین ِ فاسل اور دس مسلح بگٹی تھے۔ اس کے علاوہ لمبے عرصے کے لیے کیمپ منظم رکھنے کے لیے دیگر سارے لوگ اور ساز و سامان تھا ۔ انہوں نے تازہ گوشت کے لےے مرغیاں اور بکریاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔
”ماہرین کو ایک بلوچی تھیریم کو جوڑنے کے لےے تقریباً پندرہ الگ الگ جانوروں کی 200 ہڈیوں کو مشقت بھرے Jigsawکرنے میں تین دن لگے ۔ ہڈ یوں کوتر تیب دینے میں ممالیہ کی اناٹومی کے بارے میں ماہرینِ فاسلز کی تفہیم کو آزمایا، اس لیے کہ ہڈیاں اپنی کئی شناختی صفات کھو چکی تھیں۔ تصویر کو واضح تر بنانے کے لےے، انہوں نے ڈھانچے کے گرداگرد ایک سفید پلاسٹرخاکہ کھینچا ، اور پانچ میٹر بلند بانس کا ایک مینار بنایا تاکہ یقین نہ کرنے والے مشاہدہ کنندگان اسے زیادہ صاف دیکھ سکیں ۔ نواب بگٹی اور اُس کے قبائلی معتبرین کام کا پرا گریس دیکھنے اور ڈھانچے کی تعریف کرنے وہاں آئے۔
”فرانس واپسی پر ٹیم فاسلز کی تصاویر ٹولاﺅس کے مقام پر واقع نیچرل ہسٹری کے میوزیم کی لیبارٹری لے گئی۔ وہاں بلوچی تھیریم کا ایک ماہر ڈاکٹر پیرے او لیویز ا نتوئین تھا جس نے اپنے پی ایچ ڈی تھیسزrhinoceros(گیند کے نسل کے موٹی جلد والے بہت بڑے جانوروں کی ) فیملی کے فاسلز پر لکھا جس سے کہ بلوچی تھیریم تعلق رکھتا ہے۔ اس نے تصویروں اور فاسلز کو ڈھانچے کا ایک ٹھیک ٹھیک سائنسی خانہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ پہلے ایک ایک کرکے ٹانگیں بنائیں اور پھر پورا جانور۔ویلکم نے بتایاکہ ” ڈھانچہ سے وہ گوشت وعضلات کا اندازہ لگانے کے قابل ہوا “ ۔
سائنس دانوں کی ٹیم، انٹوئین کے یہ خاکے واپس پیرس لے گئی اور انہیں ایک انا ٹومی کے مجسمہ سازژاں پال ریٹی کے پاس چھوڑا ۔ اس نے انہیں ایک شاندار مفصل چکنی مٹی کا ماڈل بنانے میں استعمال کیا ۔ پھر اُس نے ایک پلاسٹرسانچہ لیا، جو کہ دوسرے سارے کام کے ساتھ ایکس مشینا نامی ایک کمپنی کو لے جایا گیا ، جس نے ایک ڈیجٹل امیج سرانجام دینے کے لےے کمپیوٹر ٹیکنالوجی استعمال کی۔ وہ جوڑوں اور ٹانگوں کو دیکھ کر یہ دیکھنے کہ وہ کس طرح چلتا پھرتا ہوگا،ماڈل کوجاندار کی طرح حرکت دلانے میں کامیاب ہوئے ۔ انہوں نے ان اطلاعات کو استعمال کرکے جو کہ ماہرین ِ فاسلز نے مائیکرو فاسلز سے حاصل کےے تھے ،منظر کو ٹھیک ٹھیک بھر لیا۔
”نیچرل ہسٹری میوزیم کے استبول اور پیرس دونوں کے لےے بلوچی تھیریم کے بہت بڑے سائز کے ماڈلز کی تجویز ہے ۔ یہ ابھی تک ٹھیک ٹھیک تو معلوم نہیں کہ یہ کب تک ہوسکے گا اس لیے کہ ان کی تعمیر بہت مہنگی ہوتی ہے ۔ ویلکم اب تک کی حاصلات پر بہت خوش ہے، مگر وہ اصرار کرتا ہے کہ بگٹی علاقے میں کھدائی کے لیے ابھی بہت کچھ پڑا ہے ۔ ” ہم بلوچی تھیریم سے متعلق کئی ہزار ہڈیوں کے ٹکڑے تلاش کرچکے ہیں، مگر ہماری تحقیق تکمیل سے ابھی بہت دور ہے “۔ وہ کہتا ہے ۔” ہم بارہ ممتاز تہوں پر کام کررہے ہیں۔ ہر ایک کے اپنے جانور اور درخت و جھاڑیاں ہیں۔ ہم پہلے ہی30 ملین سال قدیم نوع کے غیر متوقع dwarf-lemur (بندر کی طرح کا ایک دودھ پلانے والا جانور )کے فاسلز دریافت کر چکے ہیں جو کہ آج صرف مڈگا سکر تک محدود ہے۔
ہمیں اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ اِس براعظم میں بھی وجود رکھتا تھا۔ اور اس کی دریافت اُس طریقے کے بارے میں ہمارے نظریات بدل سکتا ہے جس میں براعظمی پلیٹیں حرکت کرتی تھیں ۔ یہ سوچنا واقعی قابل غورہے کہ ہم نے یہاں صرف ایک فیصد علاقہ کی کھدائی کی ہے ۔ ہم مشرق کی طرف اپنی ریسرچ وسیع کرنا چاہتے ہیں جہاں ذخائر زیادہ ہیں، اور مزید مائیکرو میمل فاسلز ڈھونڈنے کی امید رکھتے ہیں۔ ایک بات یقینی ہے : اس علاقے کے مکمل علم کے لیے تقریباً50 سال کی محنت چاہیے“۔

ریفرنسز

-1 شیخ، نوید اسلم۔ پاکستان کے آثارِ قدیمہ۔2008۔ بک ہوم لاہور۔ صفحہ63
-2 بران، ڈیوڈ ۔Ancient walking whales shed light on Ancestry of Ocean Giants
http://news nationalgeographic.com/news/pf/37243652.html
3۔ گنگرِخ، فلپ اور دیگر ۔Origin of Whales from early artiodactyls
ماہنامہ ”سائنس “۔ جلد 293۔ ستمبر 2001۔ صفحہ 2239-2242

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*