ینگ بلوچ ۔۔۔ صد سالہ سالگرہ

سولائزیشن کی یازدہ ہزارسالہ تاریخ کی وراثت کے ساتھ ساتھ ہم حالیہ وقتوں میں اپنی زبردست سامراجی مزاحمتوں اور طبقاتی کشمکشوں میں انسانیت کی شان بڑھاتے رہے ہیں۔جس نے حملہ کیا سلامت نہ گیا۔ ڈنڈا تلوار کلہاڑی جو بھی حربی ٹکنالوجی مروج وموجود تھی اپنے نرخرے کی قیمت پہ غنیم کو دے ماری۔ حتیٰ کہ ایک صدی قبل ہم نے کم رفتاری میں ہی سہی، مگر قبائلی سے نکل کر ایک قومی انداز اپنالیا۔ ہم نے اسلحہ کے علاوہ شہری طرزِ تنظیم اور شہری جدوجہد بھی سیکھی۔ترقی و خوشحالی، آبادی و آزادی کی مسلسل جدوجہد کی ہماری یہ ایک سو سالہ معلوم تاریخ بہت سے ناموں، لباسوں، شناختوں سے مزین و مسجع چلی آرہی ہے۔اس شہری طرزِ جہد نے اپنی ابتدا ء سو سال قبل1920میں ”ینگ بلوچ“ نامی تنظیم سے کی۔ جو کچھ ہی عرصے میں انجمن اتحاد بلوچستان کے نام سے کام کرنے لگی۔ آل انڈیا بلوچ کانفرنس اس کا اگلا نام تھا۔اور پھر یہ انجمنِ وطن بنی، تحریک نے اگلے پڑاؤ پہ کلات نیشنل پارٹی کا پرچم پہنا، یہ 1949میں پراگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن ہوئی، پشتو ٹولی، بلوچی زبانئے دیوان، عوامی ادبی انجمن، لوز چیذغ، بلوچستان جمعہ پارٹی، بلوچستان سنڈے پارٹی اور سنگت اکیڈمی آ ف سائنسز ہوگئی۔اور۔۔۔یہ ہر دور میں، ہر نام اور شکل میں،فکری طور پر اپنے سماج کی نمائندہ اور رہنما تنظیم رہی ہے۔

ینگ بلوچ سے لے کر آج تک ہماری پوری تحریک بنیادی طو رپر ایک کسان تحریک رہی۔ سرداروں کے ٹیکسوں کے خلاف، خانِ قلات کے استبدادی قوانین کے خلاف، اورانگریز کے تسلط کے خلاف ہماری تحریک غیر مسلح سیاست اور ادب کرتی تھی۔ اس کے بانی قائدین پڑھے لکھے اور قلم بردار لوگ تھے۔تقریباً یہ سب کے سب بڑے صحافی،ادیب اور دانشور تھے۔ عربی فارسی اردو اور بلوچی ضرب الامثال، محاورے، اور مصرعے انہیں زبانی یاد تھے۔ لہذا اِن کے مضامین، اخباری بیانات، افسانے، اشعار، مصوری،قرار دادیں اور تقاریر علم اور عالیہ ادب سے منور ہوتی تھیں۔

تنظیمی طور پر یہ تحریک کبھی موٹی، کبھی لاغر اور کبھی کبھی تو بہت ہی ناتواں رہی ہے۔ حتیٰ کہ یہ تحریک اپنے نام اور حلیے میں ہر تبدیلی سے ذرا قبل بقا کے ونٹی لیٹر میں ضرورپڑی رہتی۔ بیچ بیچ میں ایک دو سالہ معدومیت بھی اُس کے حصے میں آتی رہی ہے۔ ہاں، مگر اس کی باقاعدہ فاتحہ خوانی کی چٹائی کہیں نہیں بچھی۔ یہ بغیر کسی نوٹس کے مرتی رہی اور بغیر کسی منادی کے دوبارہ جنم لیتی رہی۔ بغیر کسی تقریب و جشن کے اس کا پرچم ایک جنریشن سے دوسری جنریشن کو، ایک وارث سے دوسرے وارث، اور ایک امین سے دوسرے امین کو منتقل ہوتا رہا۔

اقتدار کی یہ منتقلیاں تو پُر امن رہیں مگر ویسے ہی،بغیر سبب اور گناہ کے،طویل جیلیں،ٹارچر اور اموات اس تحریک کی گردن دبوچتی رہیں۔تحریک کے لوگوں کا کوئی گناہ نہ تھا۔ تکالیف کی وجہ ہمیشہ ایک رہی ہے:عدو غیر معیاری تھا، حاکم جاہل تھا، فیوڈل پسماندہ تھا۔ اور اس دشمن کا ذائقہ بہت پست تھا۔۔۔ یہ بدخواہ یورپ کا تھا، شمالی وجنوبی ایشیا کا، یا پھر گوالمنڈی و میاں والی کا۔۔اور خود ہمارے اپنے وطن کے بالادست طبقات کابیگی بیگلر اور خان بہادر تھا۔

اس لیے کہ وہ کم نظرجس چیز پر ہمیں سزا دے چکا ہوتا وہی چیز اُس کا بیٹا اپنے بیٹے کو مہیا کرتا۔ چنانچہ ہماری تحریک ایک حقیر، جاہل اورلالچی مگر طاقتور فرعونیت سے ٹکراتی رہی۔ فرعونیت توفیوڈلزم اور امپیریلزم کی نشانی ہوتی ہے۔ ہماری تحریک کی عمر کا ایک بڑا حصہ اِن بیرونی قبضہ گیروں اور مقامی لارڈز سے اپنے وطن اور وطن والوں کی آزادی کی جدوجہد میں گزرا۔ اور بقیہ حصہ جمہوریت، روشن فکری اور سماجی انصاف کی خاطر لُمپن اور چِٹے بے علم ڈکٹیٹروں سے سینگ بہ سینگ رہا۔ ہم نے کہا ون یونٹ توڑ دو، انہوں نے کہا 14سال جیل۔۔۔ اور پھر بغیر کسی خجالت اور پشیمانی کے، بغیر معافی مانگے وہی ون یونٹ اپنے ہاتھوں سے توڑ دیا۔ ہم نے کہا ون مین ون ووٹ نامی پارلیمانی جمہوریت، اس نے قلی کیمپ میں ٹارچر کر کے آدھے ماردیے اور آدھے ادھ موئے کر دیے۔ مگر پھر کسی قسم کی معافی مانگے یا گناہ تسلیم کیے بغیر اپنے ہی ہاتھوں سے ون مین ون ووٹ والی، پارلیمانی جمہوریت جاری کردی۔ پھر ہم نے کہا جمہوری حکومتوں کو مداخلت کے بغیر چلنے دو، انہوں نے آئین قانون اصول سب کچھ توڑ کر حکومتیں توڑدیں۔ اور ہمیں مچ جیل کے درشن کرائے۔۔۔ سلسلہ جاری ہے، اور لگتا ہے کافی عرصے تک جاری رہے گا۔

یہ بے حس وبے مغز جانور تہذیبی طور پر سماج کا تلچھٹ ہونے کے باوجود اس دعوے پر ہمیں گلو گیر کرتا رہا کہ ”ہم تمہیں منہ دھونے کا صحیح طریقہ سکھانے آئے ہیں“۔ اس منہ دھونے کو کسی نے کلچر کہا، کسی نے اُسے اشنان کا نام دیا، کسی نے اُسے وضو کہا، کسی نے قومی غیرت کی اصطلاح اس پہ چمٹادی اور کسی نے اسے تعلیم دیناکہا۔ برطانوی لیٹروں نے تو اس قبضہ گیری کو ”سولائزنگ مشن“ کہہ رکھا تھا۔ وحشی، انسان کوا نسانیت سکھا رہا تھا۔

عوام اس سب کو ماننے سے انکاری رہے ہیں۔ وہ نہ باہر کے سامراجی سے دبے اور نہ ہی مقامی طبقاتی بالادست کی صدیوں سے جاری چابک اُنہیں پالتو بناسکا۔

ہماے عوام عالمگیر اچھائیوں کو بچانے میں خفیہ تنظیمیں بھی قائم کرتے رہے، اورتین تین روزہ آل انڈیا کانفرنسوں جیسے کھلے جلسے بھی سجاتے رہے۔ اسی لیے ہمارے عوام کا سیاسی شعور پورے خطے میں ہمیشہ بلند، نفیس اور سائنٹفک رہا۔ ہم ہمہ وقت عالمگیر نیکیوں کی بقا اور احیا کے لیے میدان عمل میں کھڑے تھے۔جبکہ باہر سے آئے جیب تراش اورہمارے (مقامی)خطاب یافتہ موروثی سربراہ اپنی حقیر جانورانہ خواہشوں کے اسیر تھے۔ ہم سیاسی، اصلاحی اور سماجی تحریک کے علمبردار تھے جب کہ وہ اِن پاک باتوں سے آشنا ہی نہ تھے۔

انسان کو اچھائی کے اپنے سفر کے دوران پتہ چلا کہ استحصال اور زورا زوری کا یہ مظہر صرف ایک جگہ ہی مروج نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک عالمی پیمانے کی بدقسمتی ہے۔ زورآور کے اتحادی،عالمی ہیں۔ اُس کے مالی و حربی مدد گار، عالمی ہیں۔اور اُس کے دانشور و شاعر عالمی ہیں۔ اور ہماری ہی طرح ہر جگہ لوگ اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس ساری ہمہ جہتی عالمی لڑائی میں انسان نے بالآخر ایک نظریہ وضع کرکے خود کو اُس سے وابستہ کردیا: مارکسزم سے۔دنیا میں عالمی سطح پر یا علاقائی و مقامی سطح پر مارکسزم ہی وہ تحریک رہی جس نے نسل انسان کی وحدت پہ زور دیا اور ”دنیا بھر کے مزدورو،ایک ہوجاؤ!“ کا نعرہ وضع کیا۔ اس نے انسان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے نجی جائیداد کی مخالفت کی۔ اور امن، جمہوریت، اوربرابری کوبنیادی انسانی حقوق قرار دیا۔ مارکسزم نے ارفع انسانی بامقصد اور پرمسرت زندگی کی حسین منزل کا راستہ دکھا یا۔

”ینگ بلوچ“اسی مارکسزم کے بلوچیائے جانے کی اولین صورت تھی۔جلد ہی اس کا نام ”انجمن اتحاد بلوچستان“ پڑ گیا۔پھر اس نے آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا نام اپنالیا۔عبدالعزیز کرد اور یوسف مگسی کے اِس بیجی دریا میں سجاد ظہیر کا سیلابی دریا ملا تو ہم 1950میں پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن بنے،ہم سیاست بھی کر تے رہے اور سیاست ہی کے بڑے اور وسیع دریا میں ادب اور کلچر کی رَو تھے۔ قلم کا غذ کتاب، سٹیج، اکٹھ اورافہام وتفہیم۔۔ ہم ایک روح سے دوسرے دل میں سرایت کرتے رہنے سے بات آگے بڑھاتے رہے۔

ہماری تحریک احترامِ آدمیت کی تحریک رہی ہے۔ انسان کی سربلندی کی تحریک۔ انسان کی عالمی برابری کی تحریک۔ تسخیر کائنات کی تحریک۔ ایک خوبصورت،حسین اور غیر استحصالی سماج کی تعمیر کی تحریک ۔

اور پھر ہمارا نام ”لوز چیذغ“ (لفظ کا مینار) پڑا۔1989میں ”لوزچیذغ“کی ایک تحریری رپورٹ میں اُس کے سیکریٹری جنرل نے تنظیم کا دائرہ وسیع کرنے کا تصور پیش کیاتھا۔ اسے صرف شعر وا دب تک محدود رکھنے کے بجائے اسے ساری سائنسز کی اکیڈمی بنانے کا خیال وہیں پیش کیا گیا تھا۔ گوکہ یہ مدہم و مبہم خیال تھا۔ اور جسے ڈویلپ کرنے کے لیے افرادی قوت بالخصوص ماہر افراد کی خاصی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ماہرین جو بورژوا خدمتگذاری کے بجائے عوامی عینک رکھتے ہوں۔

چنانچہ تنظیم ایک ایسے خطے میں زندہ رہی جس کی 99فیصد آبادی کو فیوڈل وعسکری غلامی نے ہڈی کے گُودوں تک کرپٹ کیا۔ اور جس کے اندر ایک معتبر عوامی تنظیم بنانا تو کیا، اس کے بنانے کے امکانات تک کو بھی نابود کردیا گیا۔ اس کے دانشور کو تعاقب کر کے شکار کیا گیا، مدافعاتی بنادیا گیا تاکہ وہ ہمہ وقت متزلزل رہے، غیر ذمہ دار رہے اور ہمہ وقت غیر تیار رہے۔ یہ ایک تکلیف دِہ احساس ہے۔ ایک ایسے تاریخی عہد میں ہم خود کو فرسودہ اور بیکارمحسوس کر رہے ہیں جس میں اگر عوامی کاز کے لیے کمٹڈ تنظیم موجود ہوتی تو معاشرہ کب کا سر کے بجائے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا۔ یہ ہمیشہ سے ندامت کے تپا دینے والے احساس کا لباس پہنے رہنے کے مترادف بات تھی۔

حالیہ 25برس سنگت اکیڈمی کو اپنے اندر ایک سست رفتار ٹرانسفارمیشن لانے اور ایک اکیڈمی آف سائنسز بنانے میں لگ گئے۔جی ہاں،ہم فقط ایک ”رائٹرز“ایسوسی ایشن سے ایک ”سائنسز اکیڈمی“میں ڈھلنے کے اندر ربع صدی لگا بیٹھے۔ اس پراسیس میں ظاہر ہے بہت احتیاط در کار تھی، اور بہت پلاننگ اور وژن چاہیے تھا۔ اس لیے بڑی استقامت کے ساتھ اُس کو برحق وقت دے کر بالآخر روشن فکری کی یہ تحریک اُس مقام تک آہی گئی کہ اب اس نے سماج میں باقاعدہ ایک ہمہ جہت غورو فکر کرنے کے قومی ادارے کی صورت لے لی۔

2018، کو سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے خود کو ریسرچ، اشاعت اور عوامی تنظیم کاری کے مختلف محکموں یا فیکلٹیز میں ڈھال دیا۔مگر افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے ابھی تک محض سات آٹھ فیکلٹیز کی بنیاد رکھی جاسکی۔

سنگت اکیڈمی آف سائنسز مہم جوئی نہ کرنے کی اپنی صد سالہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ مگر ہم سر بچانے کے لیے بنیادی صداقتوں سے منہ بھی موڑنے سے انکار کرتے رہے۔ ہم ا س سبب سے بہت حقیر اور گری ہوئی تنقید یں بھی سہتے رہے۔ ہم نے ون یونٹی مرکزیت اور مقامی طبقاتی فیوڈل نظام جتنی بڑی سچائی کو نظر انداز کرنے سے انکار کیا۔

ینگ بلوچ کے ”گرینڈ گرینڈ چائلڈ“کے بطور ہم 2020کے سال کو ”ینگ بلوچ“کی صد سالہ سالگرہ کے بطور منائیں گے۔ اور یہی سال سنگت اکیڈمی آف سائنسز اور ماہنامہ ”سنگت“ کی تئیسویں سالگرہ بھی ہوگا۔ ماہنامہ سنگت ہر ماہ اِن سو سالوں کے سفر کے بارے میں مضامین، مقالوں،شارٹ سٹوریز اور شاعر ی کو چھا پتا رہے گا۔ جتنی سیاسی پارٹیاں، اور علمی ادبی تنظیمیں،تحریک کی صد سالہ سالگرہ منائیں گی ہم اُن کی باعزت کوریج کریں گے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ ۔۔۔ ایڈیٹوریل

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*