سماجی امور میں آٹومیٹکی نہیں ہوتی

 

کورونا بحران سے دنیا نے حتمی طور پر نکل جانا ہے۔گوکہ اُس کی صفوں میں سے چار پانچ لاکھ لوگ کٹ چکے ہوں گے۔۔۔۔

ہم آپ نے ہارر (ڈراؤنی)فلمیں بہت دیکھی ہونگی۔ انفرادی طور پر دکھ اور بربادی سے بھی دوچار ہوئے ہوں گے۔ مگر آٹھ ارب انسانوں کے سامنے یہ ننگ دھڑنگ اور زندہ ”ہارر“ہماری زندگیوں میں پہلی بار آن کھڑی ہے۔ ایک دہشت ہے جس کے گھیرے میں پوری نسلِ انساں ہے۔موت اور موت کا خوف انسان کے پیدائشی دو دشمن ہیں۔

وبا ایک ایسی دنیا پر یلغار کر گئی جس کی ناتواں، مگر بہت بڑی اکثریت پر چند فیصد لوگ بادشاہی کر رہے ہیں۔جہاں کی اکثر قومیں غلام، نیم غلام یا محکوم ہیں۔ ایک ایسی دنیا جسے نسل پرستی، صنفی امتیاز،فرقہ واریت، انتہا پسندی اور مار دھاڑنے کھنڈر بنا رکھا ہے۔ صنعتی ترقی اور ٹکنالوجیکل ایڈوانس کے باوجود عام آدمی کوصحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

کورونا ایک ایسی دنیا پر جھپٹ پڑی ہے جہاں قدرتی وسائل صنعتی دنیا کے امیروں کے نوٹ گنتے رہنے کی بدعادتی کا نذر ہوگئے ہیں۔ درختوں کی صورت زمین کی حسین زلفیں حقارت وبے ترسی سے کاٹ کر اسے گنجا کر دیا گیا۔انڈسٹریلسٹوں کے اصراف اور خرمستیوں کی قیمت ماحولیاتی آلودگی کی صورت میں ادا کی جاتی رہی ہے۔نہ ہوا صاف رہی تھی، نہ پینے کا پانی میسرتھا اور نہ کروڑوں انسانوں کے لیے خوراک موجود تھی۔ چار پانچ سپر پاورز کے ہاتھوں UNیرغمال،WHOاپاہج،اور بین الاقوامیت لگت مال۔

آج پوری دنیا گھروں میں نظر بند ہے۔ لہذا سارے انسانوں کو بہت غورو فکر اور خود تنقیدی وخود بینی کا وافر وقت میسر ہوا ہے۔ہر انسان کو دو تین چیزوں کا پتہ ضرور چل گیا۔

دنیا کے سب سے بے شعور عوام امریکہ کے ہیں۔ مگر اِس تین ماہ کی اجتماعی نظر بندی میں امریکہ کے سادہ سے سادہ آدمی کو بھی اندازہ ہوگیا کہ انسانوں کو ڈرانے والا سپر پاورامریکہ اندر سے کھوکھلا، کمزور اور لگڑ بھگڑ سما ج ہے۔ وہ اب دنیا کا بہترین ملک نہیں رہا۔

انسان نے دیکھا کہ وبا کی لپیٹ میں آنے والوں کی تعداد حدوحساب سے بڑھ کر رہی، اوراس سے مرنے والوں کی تعداد ناقابل قبول طور پر زیادہ۔

وائرس نے بتادیا کہ اس کے لیے ”گریٹ“ برٹن کے وزیراعظم اور بارکھان کے خاکروب میں کوئی فرق نہیں۔ وائرس کے ہارڈ ڈیسک میں انسانوں کے بیچ جنس، نسل اورو قومیت کافرق کرنے کا خانہ ہی نہیں ہے۔ کپٹلزم کو پہلی بار پتہ چلا کہ موجودہ صورت میں وہ مارس و چاند تک تو جاسکتا ہے۔ مگر ایک حقیر،بے جان وبے شان وبے لباس و بے حجاب و بے کس و بے لگام وائرس چاہے تو آپ کو گھر سے بھی نکلنے نہ دے گا۔

ایک بات اور بھی کھل کر سامنے آئی کہ ریاست بالکل غیر موثر ہو کر رہ گئی۔

ہم نے دیکھا کہ ڈھائی تین لاکھ انسان مر گئے۔ لوکل بسوں سے لے کر بین البراعظمی ہوائی سفر رک گیا۔ ہوٹل، ریسٹ ہاؤسز، سکول، کالج، یونیورسٹیاں، شاپنگ مال، شراب خانے، کسینواور سینما الّو بولتے رہنے کا پیش لفظ بن چکے ہیں۔ دنیا کے عظیم ترین شہر بھی جنوں بھوتوں کے مسکن بن چکے ہیں۔ انسان ایک دوسرے سے ڈرنے لگا۔ دنیا کے کئی حصوں میں بھوک کے خوف نے سیاسی نظام کو پگھلانا شروع کردیا۔ پیسوں کی تجوریاں خالی ہوگئیں۔ تیل کی قیمتیں مفت سے بھی نیچے گر گئی ہیں۔ کلیسا کا ادارہ بے کار قرار پایا۔ امریکی ٹرمپ اور برطانوی بورس جان سن سے لے کر انڈیا کے مودی اور ہمارے عمران تک حکمرانی کے سارے چہرے، ماڈل اور ادارے ٹی وی اور ٹویٹر پہ مزاحیہ روپ بنا بنا کر،بڑکیں مار مار کر،اور پھر تیاں دکھا دکھا کر بالآخر آخری ہچکیوں تک آچکے ہیں۔ ان کا چھوٹا پن، احمق ترین کو بھی نظر آگیا۔

شہروں میں وینٹیلیٹر ختم ہو چکے۔ قبرستانوں کی سکت جواب دے گئی۔لاشیں جلانے یا انہیں بلڈوزروں سے اجتماعی کھڈوں میں ڈالنے کی قبیح کاروائی ہوئی۔

کورونا کے بعد بہت کمزور کردہ مگر زندہ انسان کو اندازہ ہوگیا کہ اس کے سامنے محض ایک گولی، بم،میزائل حتی کہ ایٹم بم جیسا کمزور دشمن نہیں بلکہ اس کو وائرس جیسے نسل اِنساں کو صفحہِ ہستی سے مٹا ڈالنے والی قوت کا سامنا ہے۔ پہلی دفعہ انسان نے گولی، میزائل،اور بم کی طرف حقارت کی مسکراہٹ ڈالی۔ پہلی دفعہ نام نہاد نظریاتی سرحدیں،دفاع، اسلحہ،اور فوج بے بس نظر آئے۔ پہلی بار ہسپتال انسان کے بچانے کا جی ایچ کیو بنے۔ اور پہلی بار ترانے ڈاکٹروں، نرسوں اور ہسپتال کے سویپرز پہ نچھاور ہوئے۔

یورپی انسان کی گال پہ کورونا وائرس کا تھپڑ لگنا لازمی ہوگیا تھا۔ مغرب کا آدمی پوری دنیا کا مقروض ہے۔ اس نے ہم سے لوٹی ہوئی دولت سے بم اور بینک تو بنوانے دیے مگر وہ اپنے ٹرمپوں ریگنوں سے عالمی ماحولیاتی سسٹم کے دفاع کو مضبوط نہ بنوا سکا۔ اس نے پیسہ کی عینک پہن کر کارپوریٹ کے مالک کے دفاتر کو بنکر بنادیا مگر اس نے انسان کی کوکھ یعنی گل زمین کو برباد کرنے والے ہاتھ نہ روکے۔

یورپی انسان کو احسا س ہی نہ تھا کہ ساری انسانی اخلاقیات آئی ایم ایف کے کھاتوں کے نیچے کراہ رہی ہے۔اُس نے اپنے ٹائم ٹیبل کے آس پاس دیکھا ہی نہیں کہ ترقی پذیر دنیا کے لیے آئی ایم ایف کے قرضے ناقابل ادائیگی ہیں۔ بے رخی دیکھیے کہ اس نے کبھی جانا ہی نہ تھا کہ قرضوں کے سبب ہماری بندرگاہیں گروی ہیں، اہم تجارتی راہیں رہن ہیں، ہم جیسے ممالک کی ساری داخلی خارجی پالیساں غلام ہیں۔

کورونا کی وبا نے انسانیت کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ انسان سب کچھ کو دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہوا۔ لہذا، اب انسان کا انسان کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کے مقبول مطالبے ہوں گے۔ ماحولیات اور نیچر کے ساتھ کچھ انسانی سلوک کرنا ہوگا۔۔

دنیا میں ہزاروں اموات بغیر حساب و احتساب نہیں جانے دیے جائیں گے۔ سسٹم سے لے کر محکموں تک اور افراد سے لے کر لیڈر تک سب ترازو میں۔ اب محض الیکشن جیتنے کی ضرورت کے نعرے نہ دیے جائیں گے بلکہ اب انسانی زندگی محفوظ کرنے کی بات اولین مقام حاصل کرے گی۔

ہمارا اندازہ ہے کہ انسانی معاشرے کو وائرسوں کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کے کی بدمستیاں ختم ہوں گی۔ اجتماعی انسانی معاملات“پرائیویٹ“ اداروں کے حوالے نہ کیے جائیں گے۔ خیراتی اداروں کے بجائے ریاست اپنے شہریوں کی ذمہ دار ہوگی۔ اور صرف ایک ریاست ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سطح کے کام کرنے پڑیں گے۔

آج دو مظاہر ہیں جو بظاہر باہم دشمن مگر مقصد میں ایک ہیں:وائرس اور کپٹلزم۔ وائرس تو اندھا ہے۔اُسے خود کو بچانے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی صلاحیت۔ وہ توبس انسان کُشی کا کام کرتا ہے۔ مگر کپٹلزم وائرس سے زیادہ خطرناک ہے۔اس لیے کہ اُسے خود کو بچانا خوب آتا ہے۔ چنانچہ وہ یہاں تک بھی جائے گا کہ بنی نوع ِ انسان کو وائرس کے حوالے کر کے خود کو بچالے۔ایسا وہ ماضی میں بار بار کرچکا ہے۔ چونکہ کپٹلزم محنت کرنے والوں کی تنظیم سے ڈرتا ہے، وہ اُن کی قوت سے ڈرتا ہے۔ اسی لیے وہ عوام کے دماغوں کودُھند و غبار کی چادر پہنانے کے لیے دوائیاں بناتا رہاہے مذہبی انتہا پسند بناتارہا ہے تاکہ عوام کی وفاداریوں کو مسخ کردے۔وہ تعلیم کو برباد کرتا رہاہے تاکہ عوام کی تخلیقیت کا گلا گھونٹ دیاجائے،وہ جنگیں کھڑی کرتا رہاہے تاکہ ہماری نفرتوں کو انسپائر کرے اور ہمارے تشدد کا احیاکرے۔کپٹلزم نسل پرستی اور مذہبی نفرتوں کی نشوو نماکرتا رہاہے تاکہ ہم اُس سے نفرت کی بجائے ایک دوسرے سے خوف کھائیں۔

وہ اب بھی اپنی بقا کے لیے یہ سب کچھ کرے گا۔حتی کہ کئی چھوٹی بڑی جنگیں تک چھڑ سکتی ہیں۔ کپٹلزم اپنے بچاؤکے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔

دو ہی صورتیں ہیں:

1۔ آٹھ کے آٹھ ارب انسان ختم نہ ہوں گے۔ وائرس بھی دوسرے دشمن وائرسوں کی طرح انسان کے ساتھ ساتھ رہے گا۔ اسی طرح بہت ہی سخت جان کپٹلزم بھی خود کو حالات کے مطابق ڈھال ڈھال کر بچالے گا۔چنانچہ ایک امکان یہ ہے کہ انسان، وائرس اور کپٹلزم تینوں بہت نزارو ضعف کے باوجود بچ جائیں۔ البتہ اِس صورت میں انسان دسمبر 2019سے قبل کا انسان نہ رہے گا۔ اب انسان زیادہ مجبور ہوگا اور کپٹلزم زیادہ سفاک۔یہ سماج مکمل بربریت والا سماج ہوگا۔

2۔دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وائرس اور انسان تو دیر تک رہیں مگر کپٹلزم خود کو نہ بچاپائے۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ یہی صورت زیادہ ممکن ہے۔بے شمار دوسرے معروضی حقائق کے ساتھ مل کر کورونا نے کیپٹلزم کے غیر ضروری پن کو بہت واضح کیا ہے۔ اس نظام نے اب اپنی قبر کشائی کرنی ہی ہے۔

مگرہم پھر خبردار کرتے ہیں کہ ایسا آٹو میٹک طور پرنہیں ہوگا۔ زنجیریں خواہ کتنی بھی گلی سٹری ہوں کبھی بھی خود نہیں ٹوٹتیں۔ نہ ہی حکمران طبقات کی طرف سے ایسا ہونے دیا جائے گا۔یاد ریکھیے سماجی سائنس میں آٹو میٹک لفظ بہت کم کار گر ہوتا ہے۔انسانی مداخلت کے بغیر کچھ نہیں ہونے والا۔سماج خود بخود ٹھیک نہیں ہوتا اسے ٹھیک ”کرنا پڑتا“ ہے۔ استحصالی نظاموں کی سکرات صدیوں تک طویل ہوتی ہے۔ ظلم اپنی موت آپ نہیں مرتا، اسے مارنا پڑتا ہے۔ انسان کو فعال طور پر فیصلہ کن اقدام کر کے زندگی کو بسر کرنے کے قابل بنانا ہوگا۔جب آگ لگتی ہے تو اس کو بجھانے میں لگ جانا چاہیے۔ وہ وقت وہاں طنبورہ بجانے، یا اشلوک پڑھنے کا نہیں ہوتا۔ موت سامنے ہوتو اصلاحات نہیں زندگی بچانے کا انقلاب کرنا پڑتاہے۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ شمارہ مئی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*