کتاب ”گندم کی روٹی“

افغانستان نژاد بلوچی ادیب عبدالستار پردلی کا لکھا گیا ناول ” سوب“ کا اردو ترجمہ واجہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے ” گندم کی روٹی“ کے نام سے کیا ہے۔ یہ ناول کسان محنت کشوں کی جدوجہد کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے جنہوں نے افغانستان میں جہد مسلسلے کے بعد کامیابی حاصل کی۔
یہ کہانی دلمراد اور اسکے ہم خیال بزگروں کے گرد گھومتی ہے ۔ دلمراد کے والد فوت ہو چکے ہیں۔ اب وہ اپنی خاندان کا کفالت خود کر رہے ہیں۔ اسکا پورا خاندان علاقے کے زمیندار حاجی خان کی جانب سے بنائی گئی جھوٹے قرضوں کے تلے دب کر رہ گئی ہے۔ حاجی خان انکو اور انکے خاندان کو طرح طرح کی تکالیف سے دوچار کرتی ہے۔ عید کے موقع پر جب انکے چھوٹے بھائی مرید، محمد خان اور چھوٹی بہن شاہ پری کو تحفے تحائف کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ حاجی خان کے پاس ادھار لینے جاتا ہے لیکن حاجی خان انہیں بنا قرضہ دیئے واپس کرتی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے والد کے قرضوں کو نہیں چکتا سکا ہے تو اسے اور قرضے نہیں ملیں گے۔ وہ ناکام واپس لوٹتا ہے۔ وہ اور اسکا خاندان اپنا عید دیگر دنوں کی طرح کی بھوک اور کسمپرسی کی حالت میں گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں وہ اور اسکے بھائی دن بھر حاجی خان کے کھیتوں پر بزگری کرتے ہیں جبکہ انکی امی اور بہن حاجی خان کے گھر روٹی پکاتی ہیں اور گھر کے دیگر کام کرتے ہیں۔ کام کرنے کے باوجود انہیں رات بھوکا سونا پڑتاہے جبکہ دن ڈھلتے ہی دوبارہ کام کرنا پڑتا ہے۔ حاجی خان کے ظلم کی انتہا ہو جاتی ہے وہ شاہ پری کی شادی اسکے بھائی اور والدہ کی مرضی پوچھے بغیر کسی بوڑھے شخص سے کرواتی ہے۔ جس پر جب دلمراد اور اسکے بھائی آواز اٹھاتے ہیں تو حاجی خان اور اسکا حواری ملکرانہیں خوب مارتے ہیں شاہ پری سے رہا نہیں جاتا ہے وہ خنجر نکال کر اپنے دل میں گھونپ دیتی ہے اور وہیں زمین پر تڑپ تڑپ کر جان دیتی ہے۔
واقعے کے بعد حاجی خان علاقے کی انتظامیہ کو لالچ دے کر دلمراد اور اسکے بھائی پر شاہ پری قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کراتی ہے جس پر دلمراد اور انکے بھائی کو 10سال قید ہوتی ہے۔ یہیں سے ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے جب دلمراد اور جیلوں میں بند قیدیوں کی ملاقات ایک اجنبی شخص گمشاد سے ہو جاتی ہے۔ جو کہ انکی زندگی میں انقلاب لانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ انکی درس و تدریس کا انتظام کرنے کے لئے کتابیں منگواتا ہے انہیں پڑھانا شروع کرتا ہے انہیں انکے حقوق سے آگاہ کرتا ہے وہ انہیں فیوڈلزم اور سامراج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی درس دیتا ہے۔ چند سالوں کے اندر ان بزگروں میں ایسی سیاسی شعور و تبدیلی آجاتی ہے کہ دلمراد خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بوڑھی ماں کو خط لکھتا ہے اور انہیں گمشاد جیسے رہنماءکی شاگردی کا داستان سناتا ہے۔ ماں کو جب یہ نوید پہنچتی ہے تو اسے اب یقین آنے لگتی ہے کہ حق کا وقت آن پہنچا ہے اور باطل مٹنے والی ہے۔
گمشاد انہیں بزگر تحریک کی تمام اکائیوں سے آگاہ کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ انہیں اپنا منزل پانے کے لئے ایک ہونا پڑے گا اور استحصال کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنا پڑے گا۔ 10سال بعد جب دلمراد، اسکا بھائی اور دیگر ساتھیوں کو جیل سے نجات ملتی ہے تو وہ ایک نئے روح اور جوش و ولولہ جو انکے دلوں کے اندر موجود ہوتا ہے اسکو لیکر میدان میں آنے کا سوچتے ہیں اور پہلی کسان اجلاس بلاتے ہیں اور پہلی کامیاب اجلاس کے بعد اپنا احتجاجی ہڑتال حاجی خان کے خلاف بائیکاٹ کی صورت میں کرتے ہیں اور انکی ابتدائی شرائط حاجی خان کو ماننے پڑتے ہیں اور یہی انکی جیت کی ابتدائی کڑی ہوتی ہے۔ دلمراد الیکشن میں حصہ لیتا ہے اور فیوڈل کے خلاف جیت جاتا ہے۔ فیوڈل کے دور میں پورا افغانستان معاشی استحصال کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور افغانستان کی خلق ڈیموکریٹک پارٹی استحکام پاتا ہے اور فوجی بغاوت کے تحت انہیں اقتدار مل جاتی ہے۔ اور محنت کشوں کے نمائندوں کو حکومت سونپی جاتی ہے۔
سورج کی پہلی کرن جیت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔اسکے بعد بزگروں کو تقویت مل جاتی ہے۔ حاجی خان اور اسکے حواریوں کو عوامی عدالت میں پھانسی کی سزا دی جاتی ہے۔ مزدور استحصالی طبقہ جیت جاتا ہے۔گمشاد کے دیئے گئے شعوری لیکچرز اور بزگروں کی اتحاد یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ حق کے لئے آواز اٹھانا ہی حق کو تسلیم کروانے کی پہلی کڑی ہے دلمراد اور اسکے ساتھیوں نے جہدِ مسلسل سے کامیابی اپنے نام کی۔
عبدالستار پردلی نے اس ناول کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے یہ جدو جہد بلوچستان میں ابھرنے والی اس تحریک سے بالکل جدا نہیں جو کہ ” ششک “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ششک نظام کے خاتمے کے لئے بلوچستان کی بزگر تحریک بھی مختلف نہیں تھی۔ جسکے تحت محنت کشوں نے اپنے خون بہائے اور زمینوں کو اس نظام سے نجات دلا دی۔ بلوچی کا ناول جسکا ترجمہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کیا ہے سنگت اکیڈمی کی جانب سے شروع کی گئی ”سنگت ٹرانسلیشن سیریز “ کی چھٹی کڑی ہے۔ اور اسے بہت ہی باریک بینی کے ساتھ بلوچی سے اردو میں ترجمہ کرکے اردودانوں تک پہنچا کر حق ادا کی گئی ہے اور انکے علم میں لانے کی کوشش کی ہے کہ بلوچی میں لکھے گئے ناول کی معیار سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرتا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*