حالیہ امریکی انتخابات

الیکشنوں کے بارے میں دنیا کے بڑے فلاسفروں نے کہہ رکھا ہے کہ  ” الیکشن اگلے پانچ سال کے لیے اپنا آقا چننا ہے“۔ فلاسفروں کے اس فقرے کی عالمگیریت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ دو سو برس قبل کا یہ فقرہ اگلے بہت سے زمانوں تک کے لیے بھی سچ رہے گا۔
بورژوا عام انتخابات، انقلاب کا متبادل ہرگز ہرگز نہیں ہوتے ۔الیکشنوں سے تو کپٹلزم کو ذرا سا ہلا نا بھی ناممکن ہے ۔ کلاس سوسائٹی اپنے سارے بنیادی تضادات کے ساتھ سلامت رہتی ہے ۔ محکوم نے محکوم رہنا ہوتا ہے ۔ اور حاکم طبقہ حاکم ہی رہتا ہے ۔ عوام الناس کے لیے وحشت کی وہی کراہیں ہیں ، وہی لب سوز آہیں ہیں۔ اور ہمیشہ کی طرح ان کی زندگی دودِ عدم سے بھی تاریک تر رہتی ہے ۔۔۔بس حکمران طبقات کے بیچ اگلے ٹرم کی باری لینے کی سمجھو قرعہ اندازی ہے ۔فارمیٹ ہی ایسا رکھا گیا ہے کہ غارت گرانِ وفا، وفا کی مسند پہ بیٹھ جاتے ہیں۔
عوام اور اس کی سیاسی پارٹی کے پاس سماجی تبدیلی کے دیگر ذرائع نہ ہوں تو الیکشنوں پر ہی گزارہ کرناہوتا ہے ۔ آج کی دنیا فی الحال تو الیکشن اور پارلیمنٹ کی دنیا ہے ۔
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ الیکشنوں کے نتیجے میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں بھی نہیں آتیں۔ الیکشنز محض ایک ”عام “واقعہ نہیں ہوتے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ دو امیدواروں کے بیچ انتخابی دنگل سے کچھ زیادہ ہی ہوتے ہیں۔
پسماندہ ممالک میں الیکشن، قبیلے میں ایک ہی آقا کے بلا مقابلہ منتخب ہونے سے شروع ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ الیکشنز سماج کو ایک ایسی جگہ پر لاتے ہیں جہاں آقا کے مدِمقابل امیدوار آ ہی جاتا ہے ۔ شروع شروع میں اُس کی اپنی فیملی کا کوئی ناراض ممبر مگر ، بعد میں ذیلی قبیلوں کے سربراہ بھی مقابلہ کرنے امیدوار بن جاتے ہیں۔ اولین ایک دو الیکشنز میں آقا اپنے مدمقابل کے خلاف بندوق کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ مگر اس بندوق بازی کے نتائج بھگتنے کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے الیکشنز میں تشدد کا آپشن کھو دیتا ہے ۔۔۔اور دو تین الیکشنوں کے بعد توصورت ایسی ہوجاتی ہے کہ ووٹر آقا کے گھر نہیں جاتے بلکہ اب آقا ووٹ مانگنے ووٹرز کے گھر ٹھوکریں کھاتا ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ سارا پراسیس انقلاب تو نہیں ہوتا۔ مگر یہ درندہ صفت فیوڈل نظام کی چولیں ضرور ہلا ڈالتا ہے۔
ترقی یافتہ مغربی کپٹلزم میں بھی الیکشنز معمولی بات نہیں ہوتے۔ وہاں بھی ہماری طرح انقلابی پارٹیاں نہیں ہیں، یا بہت کمزور ہیں ۔اس لیے مقابلہ کارپوریٹ دنیا کے اپنے ہی طاقتوروں کے بیچ ہوتا ہے۔
امریکی کپٹلزم میں ڈیموکریٹک پارٹی کے فاختہ طبیعت کے حاکم، اپنے کلاس مفادات کو برقرار رکھتے ہوئے بورژوا جمہوریت کی بقیہ باتوں پر کسی نہ کسی حد تک عمل کرتے ہیں ۔
جبکہ ریپبلکن پارٹی کے شِکرا عادت کا آدمی سمجھو”ضیاءالحق “ہوتا ہے ۔پکڑو ، سنگ و آہن مارو ۔مسخ کر دو،گم کردو ۔گالیوں کا خزانہ رکھنے والے آدمی بھرتی کرواور سکرین پہ پٹہ کھول کر انہیں عوام اور اس کے ہمدردوں پہ چھوڑ دو۔ اس سب کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا کو مکمل طور پر رائٹسٹ بنادیا جائے۔ اور نیوز پروگراموں سمیت ساری نشریات کی کمر شلائزیشن کردی جائے۔ ٹی وی پہ یہی بتاتے رہوکہ صاحب نے گرے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا ہے، یا کالی عینکیں لگائی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ وحشیانہ جرائم کی رپورٹیں عام کردو ۔ جاسوسی اور عریاں فلمیں دکھاﺅ، اور سپورٹس پروگرام زیادہ کرو۔یعنی اربوں ڈالر خرچ کر کے ”سچ کا زوال“ پیدا کردو ۔
دنیا گذشتہ چھ آٹھ سال سے اسی شِکرا گیری میں ٹرمپ، مودی اور عمران کو بھگت رہی ہے ۔ اس طرزکی حکمرانی میں امیروں اور بقیہ آبادی کے درمیان خلیج بہت بڑھتاجاتا ہے ۔ آمدنی کی سیڑھی کے زینے جتنے زیادہ فاصلے پر ہوں گے لوگ اُتنے زیادہ چڑچڑے ہوتے جائیں گے، اُن کی زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جاتی ہے ۔ مڈل کلاس نچوڑدی جاتی ہے ۔ اور اسی مڈل کلاس کے زیرِاثر ووٹرز کی اکثریت کا رخ بھی جذبات انگیز بیانات ، تقاریر ، اور راہنماﺅں کی طرف ہوتا جاتا ہے ۔اور الیکشن کے وقت یہ ووٹر جذبات انگیزی کا زیادہ ہی شکار بن جاتے ہیں۔ اور یہ جذبات انگیز راہنمااقلیتوں کو دشمن قرار دیتے ہیں، عورتوں کو کم عقل سمجھتے ہیں اور مزدوروں کے استحصال کو جائز قرار دیتے ہیں۔ یوں سارے سماج کو محکوم و کمزور طبقات کے خلاف لگا دیا جاتاہے ۔غداری اور کفر کے سر ٹیفکیٹ بڑھتے جاتے ہیں اور سماج ضرورت سے زیادہ وطن اور بنیاد پرست ہوتا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں تو یہ باتیں شناختہ سی ہیں۔ اس لیے کہ ہم تو پچھلے پچھتر برس سے اِسی تاریک وادی کے مکین چلے آرہے ہیں۔ آئیے کپٹلزم کے مہامندر ،امریکہ کی بات کرتے ہیں ۔
امریکہ میں حالیہ الیکشنز بورژوا جمہوریت کی بنیادی باتوں کو لاحق خطرات کے پس منظر میں منعقد ہوئے ۔ نچلے طبقات مایوسی کے گہرے پیندے میں پڑے ہیں۔ہزاروں لوگ بالخصوص بوڑھے لوگ فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں۔ سکول کے بچے مقروض ہیں۔ مزدور کی اجرت بہت کم ہے ۔ بلکہ اب تو کورونا وائرس اور ٹرمپ کی لائی تباہی نے لوگوں سے بڑے پیمانے پر اُن کے روزگار چھین لیے ۔ ماﺅں اور بچوں کی اموات بڑھ رہی ہیں۔ سیاہ فام امریکیوں کی زندگیاں جانوروں اور درندوں سے بھی بدتر ہیں ۔ عورتیں بالخصوص سیاہ فام عورتیں برباد شب و روز گزار رہی ہیں۔ ماحولیات کی تباہی ایک بہت بڑے بحران کے بطور ابھر کر آئی ہے۔ اسی طرح قانون کی حکمرانی ٹرمپ کے دور میں سکرات میں پڑ چکی تھی، پیسہ داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کا مرکز بن چکا گیا تھا۔ سائنس پہ یقین کو بہت پتلا اور گدلا کیا گیا تھااور حکمرانی کے پایہِ تخت میں قانون کی بجائے جھوٹ، پروپیگنڈہ اور سازش کی حکمرانی تھی۔ امریکی معاشرہ بری طرح تقسیم کاشکار ہوگیا۔
ٹرمپ کی پارٹی کا نام رپبلکن پارٹی ہے ۔ اس کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار جوبائڈن تھا۔ یہ ڈیمو کریٹک پارٹی بھی بحیثت مجموعی سنٹر کی پارٹی ہے۔ کارپوریٹ دنیا کی پارٹی۔ یہ بس ذرا سا کورونا کی وبا کے دوران مفت علاج کی بات کر کے مختلف ہو جاتی ہے ۔ ماحولیاتی بربادی سے بچنے کے لیے توانائی کے متبادل راستوں پہ سرمایہ کاری پر زور دے کر کچھ بہتر لگنے لگتی ہے ۔کچھ کچھ باتیں روزگار ، انصاف اور سیاہ فام عورتوں بچوں کی دیکھ بحال کی۔ اور کچھ کمٹ منٹ جمہوری نارمز پہ۔
امریکہ کے حالیہ الیکشنوں میں سوشلزم کا لفظ بہت استعمال ہوا۔ مثبت معنوں میں نہیں، منفی معنوں میں۔ ٹرمپ بائیڈن کو سوشلسٹ قرار دے کر ووٹر کو اپنی طرف کرنے کی مہم چلاتا رہا ۔ اور بائیڈن قسمیں کھا کھا کر ووٹرز کو اپنے سوشلسٹ نہ ہونے کا یقین دلاتارہا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی عوام سوشلزم سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔اور اُس کی وجوہات ہیں۔1917سے لے کر آج یعنی ایک سو تین سال سے امریکہ سوشلزم اور سوویت نظام کے خلاف اپنی پروپیگنڈہ مشنری مکمل طاقت وتوانائی کے ساتھ چلاتا رہا ہے۔ فلمیں، کارٹون ، بچوں کے وڈیوگیمز ، خبریں، لطیفے ، پینٹگز ، اور ڈرامے لاکھوں کے حساب سے بنائے گئے ۔اُن میں سوشلزم کو ایک شیطانی نظام کے بطور پیش کیا جاتا رہا ہے۔
اس کے علاوہ امریکی سماج میں یہ تصور بہت گہری جڑوں کے ساتھ موجود ہے کہ سفید فام برتر نسل ہیں۔ کالے اور رنگدار انسان ہر لحاظ سے کمتر ہیں۔ اور دشمنی کی حد تک اُن پہ ظلم کرنا جائز ہے ۔ اسی طرح عورت سے نفرت بھی گہرائی میں موجود ہے ۔
ٹرمپ نے اِن جذبات سے بھرے زہر میں مزید اضافہ کیا ۔ اور وہ بڑی مطلق العنانی اور وہ  بے پرواہی سے اِن جذبات کو ابھارتا رہا۔
الیکشنوں میں ریکارڈ تعداد میں ووٹرز نے ووٹ ڈالا ۔ حیرت ہے کہ ٹرمپ کی نسل پرستی ، عورت دشمنی، سفید فام بالادستی، مذہبی منافرت اور بے لگام حکمرانی کوکل ساڑھے 14کروڑ ووٹوں میں محض پچاس لاکھ ووٹوں سے ردکیاجاسکا۔ اور ڈیموکریٹ امیدوار بائڈن کو بہت معمولی ووٹوں سے فتح ملی۔یعنی جس ٹرمپ نے کروڑوں امریکن وبا کے سامنے پھینک دیے اور یوں لاکھوں کو قتل کیا، وہ نہ صرف یہ کہ الیکشن لڑنے کی جرات کرسکا بلکہ سات کروڑ ووٹ بھی لے گیا۔
ہم امریکہ کو سامراج کہہ کر بالکل ٹھیک بات کررہے ہوتے ہیں۔ مگر غلط بات یہ ہوگی اگر یہ سمجھا جائے کہ صرف اِس ملک کا صدر اور اِس کی فوج سامراجی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہاں کے عوام کی بہت بڑی اکثریت بھی سامراج نواز ہے۔ وہ الیکشنزمیں سامراجی قیادت ہی کومنتخب کرتے ہیں۔ اُس سماج کا اندرون بہت زیادہ گلا سڑا ہے۔ امریکہ خواہ مخواہ اور فرمائشی طور پر سامراج نہیں ہے ۔ بلکہ وہ اپنی اندرونی سڑاند کی وجہ سے ایسا ہے ۔
خود بائیڈن کا ماضی عالمی سطح پر ایک جنگباز کی رہی ہے ۔ وہ بھی بورژوازی کی خدمت کرتا رہا ہے۔سوچ اور نظریے کے حوالے سے وہ بھی کپٹلزم کو پسند کرتا ہے ۔ اُس کے کوئی لمبے چوڑے اصول نہیں ہیں ۔ وہ بھی اصل میں پوری امریکی آبادی کے محض اُس ایک فیصد کی خدمت کرتا ہے جو پورے سٹاک مارکیٹ کے آدھے حصے پر قابض ہے۔
اب یہ بائڈن جیت گیا ۔مگر اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ اس لیے کہ امریکی سپریم کورٹ کے رائٹسٹ ترین جج ٹرمپ کے بھرتی کردہ ہیں۔ سینٹ میں ٹرمپ ہی کی رائٹسٹ پارٹی کی اکثریت ہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امریکہ کے آدھے لوگوں نے بائڈن کے مخالف کو ووٹ دیے۔
آج کے امریکہ میں حالات اس قدر خراب ہیں کہ محض ڈیموکریٹ ہونا کافی نہیں ،محض رائٹسٹ نہ ہونا کافی نہیں، محض فاشزم مخالف ہونا کافی نہیں، محض نسل پرست نہ ہونا کافی نہیں، اور محض عورت دشمن نہ ہونا کافی نہیں۔ امریکہ عالمی پاور ہے۔ اُسے نہ صرف اپنے عوام کے مندرجہ بالا معاملات سے نمٹنا ہے ۔ بلکہ دنیا بھر میں ہلاکت خیز عناصر کا راستہ بھی روکنا ہے ۔
مگر اس سب کے باوجود ٹرمپ اور بائڈن کی حکمرانی میں دن اور رات کا فرق ہوگا ۔ بائڈن کے دور میں لوگ سانس لے سکیں گے ۔اُس کے دور میں لوگ بول سکیں گے۔ اُس کی حکمرانی کے اندر کوئی قانون، کوئی اصول ، اورکوئی استدلال بہر حال موجود رہے گا۔ اُس کے دور میں سوشلزم تو نہیں آئے گا،مکمل جمہوریت بھی نہیں ملے گی ۔ مگرٹرمپ دورجتنا گھپ اندھیرا بھی نہیں ہوگا ۔ وہاں عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہیں گی مگر سفید فام پولیس والے کالوں کی گردن پہ گھٹنا رکھ کر انہیں قتل کرکے دندنائیں گے نہیں ۔ دوسرے ممالک سے امیگرنٹس کی آمد آسان تو نہ ہوگی ۔ مگر اب بچے، دوسرے ملکوں کے بچوں کو گلاب کے پھولوں اور بلّی کے بلونگڑوں کی تصاویر دوبارہ پوسٹ کرسکیں گے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*