بلوچستان۔۔صحبت پور ضلع کی الیکشنی سیاست

 

1988سے جو بھی انتخابات ہوئے وہ کم بیش ہمارے حافظے میں محفوظ ہیں۔۔ قومی اسمبلی میں تو پہلے یہ ضلع نصیرآباد اور جعفرآباد کے ساتھ تھا اب جعفرآباد کے ساتھ ہے، چونکہ قومی اسمبلی اعلی’ قانون ساز ادارہ ہے اور اس ادارے میں یہاں کے نمائیندوں نے اپنا کردار کس انداز میں ادا کیا ہے اور صحبت پور ضلع کے لئے کیا پیکیج لینے میں کامیاب ہوئے اس کے متعلق ہر عقل سلیم رکھنے والا بندہ جانتا ہے۔۔ ہمارا فوکس صحبت پور ضلع اور متعلقہ صوبائی اسمبلی کا حلقہ اور منتخب نمائیندے کی کارکردگی ہے۔۔
1988 میں یہاں سے میر ظہور حسین کھوسہ بلوچستان نیشنل الائینس کے ٹکٹ پہ ایم پی اے منتخب ہوئے جو بعد میں نواب بگٹی کی سرکار میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی بھی بنے۔۔
1990 میں میر ظہور حسین کھوسہ جمہوری وطن پارٹی کے ٹکٹ پہ ایم پی اے منتخب ہوئے ۔
1993 میں بھی میر ظہور حسین کھوسہ جمہوری وطن پارٹی کے ٹکٹ پہ ایم پی اے بنے۔
1997 میں میر ظہور حسین کھوسہ چوتھی مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے جماعت تھی جمہوری وطن پارٹی۔۔
2002 کے مشرفی الیکشن میں بی اے کی ڈگری نے تسلسل توڑا اور اسی خاندان کے سلیم خان کھوسہ جمہوری وطن پارٹی کے ہی ٹکٹ پہ ایم پی اے منتخب ہوئے اور اکبر خان کی شہادت کے بعد جلد ہی مشرف کے ق لیگ کو پیارے ہوگئے۔۔اس کے لئے میر صاحبان نے حیردین کے قریب اپنی رہائش گاہ پہ ایک بڑے جلسے کا انتظام کیا تھا۔۔
2008 میں سلیم خان کھوسہ ق لیگ کی ٹکٹ پہ پیپلز پارٹی کے دوران خان کھوسہ سے محض 275 ووٹوں کی فرق سے جیت گئے اور صاحب موصوف اسلم رئیسانی کی سرکار میں کئی محکموں کے وزیر رہے۔
2013 میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پہ اسی خاندان کا اظہار حسین کھوسہ پیپلز پارٹی کے دوران خان کھوسہ کو ہرا کر ایم پی اے اور پھر کئی محکموں کے وزیر رہے۔
2018 میں پھر سلیم خان کھوسہ روایتی انداز میں پارٹی بدل کر بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے قریب ترین حریف دوران خان کھوسہ تھا جس کے پاس اس مرتبہ نیشنل پارٹی کا ٹکٹ تھا۔۔
یہ تھا اب تک کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کا سرسری جائزہ۔ اب آتے ہیں انتخابات کے نتائج پہ اسٹیبلشمنٹ کے اثر انداز ہونے کے طرف۔
بلوچستان کا وہ حصہ جو انگریز راج میں برٹش بلوچستان کہلاتا تھا اس کا بلوچ آبادی پہ مشتمل علاقے سبی اور نصیرآباد روز اول سے سرکار، طاقت اور اسٹیبلشمنٹ کے اتحادی اور حمایتی رہے ہیں۔ انگریز کے جانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور اثر کم نہیں ہوا بلکہ انداز بدل اس میں مزید اضافہ ہوا اور اس بے لگام مداخلت کا اندازہ ہر الیکشن میں ہر کوئی آسانی سے لگا سکتا ہے۔
صحبت پور کے بزرگ سیاستدان حاجی سہراب خان کھوسہ کے مطابق پہلے یہاں نتائج پہ” بگٹی اسٹیبلشمنٹ ” اثر انداز ہوتا تھا اور اب "اصل اسٹیبلشمنٹ ” اثر انداز ہوتا ہے۔ میں اس میں مزید اضافہ کرتا ہوں۔ پہلے "بگٹی کھوسہ اسٹیبلشمنٹ ” تھا اور اب ” اصلی اسٹیبلشمنٹ ” نتائج پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ جسکی مثال 1988 سے لیکر 2002 تک کے انتخابات کے نتائج ہیں۔ ان انتخابات میں کھوسہ بگٹی(نبی بخش کھوسہ اور اکبر خان بگٹی) ملکر انتخاب جیتتے تھے حالانکہ پارٹی وابستگی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کا امیدوار اپنی ہی پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حمایت کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے سید عنایت شاہ اور دیگر الیکشن جیت نہ سکے۔۔
میر نبی بخش کھوسہ کی وفات اور اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد یہ اسٹیبلشمنٹ غیر موثر ہوکر "اصلی اسٹیبلشمنٹ ” کی جدید شکل میں نمودار ہوا۔۔ اب پورے بلوچستان میں بالعموم نصیرآباد ریجن میں بلخصوص یہی اسٹیبلشمنٹ الیکشن کے نتائج کا فیصلہ کرتا ہے۔۔ رہی بات سیول اسٹیبلشمنٹ کا وہ تو پہلے بھی اور اب بھی سہولتکار کا کردار ادا کرتا ہے۔۔ جس طرف اشارہ ہوتا ہے ریاستی مشینری سے اس کا پلڑا بھاری کردیا جاتا ہے۔۔
پہلے ادارے لوگوں کو خریدنے کے لئے پیسے خرچ کرتے تھے اور اب لوگ خود پیسے خرچ کرکے خود کو بیچ دیتے ہیں۔۔
اسٹیبلشمنٹ کے اثر کے باوجود یہاں پیسے کا بھی بھرپور استعمال ہوتا ہے۔ تمام امیدوار بخوبی جانتے ہیں کہاں کہاں پیسہ دینا ہوتا ہے۔ کہاں سفارش اور دھمکی سے کام نکالا جاسکتا ہے اور کہاں کون سا حربہ کارگر ہوسکتا ہے۔ کیلکیولیٹر استعمال کرنے کے بعد "اصلی طاقت سے اصلی مدد طے شدہ شرائط کے ساتھ ” لی جاتی ہے۔۔۔
المختصر ضلع صحبت پور کی الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت "اٹل حقیقت ” ہے۔ اس مداخلت کو روکنے کے لئے حقیقی سیاسی جماعتوں کو اپنا حقیقی سیاسی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ووٹ چوری کو روکنے اور ووٹ کی اہمیت کی شعور کو فروغ دینا ہوگا۔ تب جاکے یہاں کسی بھی مداخلت کے بغیر لوگ اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*