سنگت پوہ وزانت

 

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی نشست پوہ و زانت کا اجلاس اتوار 29 نومبر2020 کی صبح گیارہ بجے پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوا ۔ نشست کی صدارت سنگت اکیڈمی کے مرکزی جنرل سیکرٹری جاوید اخترنے کی۔ نظامت کے فرائض سیکرٹری پوہ و زانت نجیب سائر نے ادا کیے ۔

اکبر ساسولی نے سکندر جیلانی کا مضمون پڑھاجس کا عنوان تھا ”مظلوم طبقے کا بیانیہ پی ڈی ایم کا بوجھ“۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک طے شدہ تجربہ رہا ہے جس پررائے زنی ممکن ہے کہ کسی جماعت کا تھوکا ہوا ایلیکٹ ایبل دوسری جماعت ہی چاٹے گی، چاہے جتنے ہی چارٹر نما بارٹر ان بڑی جماعتوں کے بیچ طے پائیں۔ چارٹرا ٓف ڈیموکریسی بھی دو جماعتی تھالیکن اس پر عملدرآمدکا راگ صرف چھوٹی جماعتیں ہی الاپتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ وہی دونوں جماعتوں کو یاد دلاتی رہتی ہیں کہ اس کاغذ پر عملدرآمد کیا جائے جس کے آپ دستخطی ہیں۔ اب بھلا جاگیردار اور سرمایہ دار بھی کسی چارٹر کو ماننے لگے؟۔یہ طبقہ اتحاد نہیں بنائے گا اور اس سے منسلک بھی اس وقت تک رہے گا جب تک مرکز قریب قوتیں اس کو خطرہ نہیں سمجھتیں۔
انہوں نے مزید کہاہمارے ہاں جماعتیں سیاسی ہو ں گی لیکن عوامی بالکل نہیں ہیں۔ مرکزی جماعتوں کا کوئٹہ جلسہ اپنی طرز کا انوکھا جلسہ تھا جس میں مسنگ پرسنز کے نمائندوں نے شرکت کی۔بس اس اتحاد کی گارنٹی اگلے الیکشن تک کے اعلان کی دیر تک ہے۔ جو حکومت تک پہنچا وہ بھول جائے گا کہ کسی اتحاد کا حصہ تھااور جو اپوزیشن میں رہا وہ حکومت سے اس اتحاد کے نکات پر عملدرآمد کی آڑ میں بندوق بردار کے ذریعے مسلسل ڈرانے والی تلوار بے نیام رکھے گا۔ مرکزی جماعتوں کے پاس انصاف، برابری اور غربت کے خاتمے کا کوئی پلان نہیں۔ اور اس اتحاد کے نتیجے میں عوامی ابھار کا کوئی جماعتی متبادل نہیں۔ اس لیے اس ابھار نے مستقبل میں ایک نئے طرز سیاست کی بنیاد رکھنی ہے جو موجودہ سیاسی جماعتوں کی بنیاد بنے گا۔

عابدمیر کا مقالہ نجیب سائر نے پڑھا جس کاعنوان تھا ”بیسویں صدی کے ایک بلوچ دوست سے ملاقات“ ۔مضمون کا آغاز اس شعر سے تھا۔
تم کو خفی عزیز ہے ہم کو جلی عزیز
عارض کا گل تمھیں، ہمیں دل کی کلی عزیز
لفظ بلوچ مہر و وفا کا کلام ہے
معنی ہیں اس کلام کے، یوسف علی عزیز
بلوچ کو مہرووفا کا پیکر بتانے والے یہ مولانا ظفر علی خان، اقبال کے سیالکوٹ سے محض چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وزیرآباد نامی قصبے میں دفن ہیں،یہ ہمیں عمر کے اڑتیسویں برس میں اس وقت معلوم ہوا، جب ہم چند پنجابی احباب کی معیت میں اسلام آباد سے سمبڑیال کی جانب رواں تھے۔ہم ہرنئے قصبے کے ساتھ ہی میزبانوں (اکمل شہزاد گھمن، فاروق ملانا،عزیر احمد، زاہد کاظمی ) سے وہاں کی مشہور شخصیت پوچھتے۔ سو‘وزیرآباد سے متعلق ہمارا پہلا سوال تھا؛ یہاں کی مشہور شخصیت کون سی ہے؟ فوری جواب ملا؛ ’مولانا ظفر علی خان‘۔ ہم ایک دم چونک اٹھے کہ انھیں توہم لاہور سے متعلق سمجھ رہے تھے۔ یہ یہاں کہاں نکل آئے!۔ ہمارے میزبان البتہ ان سے کچھ زیادہ متاثر نہ تھے۔ چوں کہ اکثریت صحافیوں کی تھی۔اب میں انھیںبھلا کیسے سمجھاتاکہ اس مولانا نے ہم حرماں نصیب بلوچوں کو اتنا کچھ دیا ہے کہ جس کا احسان ہماری نسلیں بھی شاید نہ اتار پائیں۔
دعا کو رُکے۔ اس مقبرے کے پہلو میںہی خستہ حال ڈاک بنگلے کی طرز پر ایک عمارت ہے۔ مقبرے کے متولی نے بتایاکہ یہ مولانا کی رہائش گاہ ہواکرتی تھی۔ میں نے دل کی آنکھ سے جھانکا تو مجھے لگا کہ جیسے یوسف عزیزمگسی، محمد حسین عنقا و دیگر اکابر مولانا ظفر علی خان کے ساتھ بیٹھے بلوچ وطن پہ سامراج کی چالاکیوں اور عیاریوں پہ محو گفتگو ہوں۔
ہمارے میزبانوں کے لیے یہ تجسس کا معاملہ تھا۔ وہ اپنے پہلو میں واقع اس عالم انسان کی اس خوبی سے، بلوچوں سے ان کی روابط و احسانات سے قطعاً بے خبر تھے۔مجھے بتانا پڑا کہ آج سے ٹھیک سو برس قبل بلوچستان میں عقل، علم، روشن خیالی، خرد افروزی کی جو شمع ہمارے بزرگوں نے جلائی، اسے روشن رکھنے میں مولانا کا بڑا حصہ تھا۔ اُس زمانے میں بلوچستان میں اخبار کی اشاعت ناممکن تھی، جس سے اخبار برآمد ہوتا، وہ جیل جاتا۔ ایسے میں ہمارے بزرگوں نے سیاست و ادب میں علم و قلم کو اپنا ہتھیار بنایا تو مولانا ظفر علی خان ہی تھے، جنھوں نے اپنے اخبار کا کندھاانھیں فراہم کیا۔ اُس زمانے میں ان کا ’زمیندار‘ اخبار تو گویا بلوچ کا ترجمان بن گیا تھا۔ بلوچستان کی سیاست میں ہلچل مچا دینے والی یوسف عزیز مگسی کی اولین تحریر(فریادِ بلوچستان) سے لے کر ‪1932-33‬ءکی بلوچ کانفرنسوں کی مکمل روداد اسی اخبار کے توسط سے ہم تک پہنچی۔ یہ اخبار نہ ہوتا تو ہماری تاریخ کی اہم کڑی غائب ہو جاتی۔ مولانا ظفر علی خان کا ’زمیندار‘ ہماری سیاسی تحریک کے لیے گویا اُس زمانے کا فیس بک تھا، ٹوئٹر تھا۔ ’زمیندار‘ نہ ہوتا تو ’فریادِ بلوچستان‘ کہیں دب جاتی، بلوچ کانفرنس تاریخ کا حصہ نہ بنتی۔ الغرض مولانا نہ ہوتے ہمیں باعلم ہونے میں جانے اور کتنی دَہائیاں لگ جاتیں۔ یوسف عزیز مگسی کی سربراہی میں جتنے اخبار چھپے، وہ گویا مولانا کے ’زمیندار‘ ہی کا بلوچ ورژن تھے۔ مولانا کا یہ تعارف ہمارے میزبانوں کے لیے بھی نیا ثابت ہوا۔ انھوں نے طے کیا کہ آئندہ یہاں سے گزرتے ہوئے رکیں یا نہ رکیں، مولانا کے مقبرے کی جانب منہ کر کے ان کے لیے ایک دعا ضرور مانگیں گے۔

اس کے بعد جئیند جمالدینی نے اکتوبر2020 کے سنگت شمارے پہ اپنا تبصرہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ سنگت کا کارواں اشاعت کے 23سالوں سے فکری و نظریاتی کام سرانجام دے رہا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان میں یہ واحد نظریاتی جریدہ ہے جو باقاعدگی کے ساتھ قائدانہ کردار ادا کررہا ہے۔کرونا اور لاک ڈاﺅ ن کا اثر سنگت پہ پڑا اور اس کے شمارے سکڑنے لگے۔ مگر اکتوبرکا جریدہ کچھ منفرد نظر آیااس گھٹن اور تاریکی کے دور میں ایک روشنی کی کرن کی طرح۔ رسالے کا ٹائٹل ہی پیغام سے شروع ہوتا ہے۔ ٹائٹل پلٹتے ہی ہمیں50 کی دہائی میں لکھی گئی گل خان نصیر کی نظم ملتی ہے جس میں آج کا دور نظر آتا ہے۔ اداریہ نے تو بین الاقوامی سیاسی اور معاشی حالات سے لے کر ملکی سطح تک کے معاشی اور سیاسی حالات بیان کر رکھے ہیں۔ بہت ہی خوبصورتی سے عوام کو ان حالات سے باخبر رکھنے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ آگے ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مضامین و تراجم، ’فاصلوں سے ماورا‘ پہ ڈاکٹر قیصر عباس کا تبصرہ،کشور ناہید کی نظم،نواز کھوسہ کا مضمون،نجیب سائر کی پوہ و زانت رپورٹ اور سینٹرل کمیٹی میٹنگ کی روداد،شمارے کے آخری ٹائٹل ورق کی اندرورنی طرف نسیم سید کی نظم اور بیک پہ فیض احمد فیض کی ’دعا‘ سے اس شمارے کا اختتام کیا گیا ہے۔المختصر ایک خوبصورت شمارہ۔

اس کے بعد جمیل بلوچ نے قراردادیں پیش کیں، جن کی منظوری اکثریتی رائے سے دی گئی۔
1۔ یہ اجلاس معروف روشن فکر اور ترقی پسند ادبا اشفاق سلیم مرزا اورقاضی جاوید کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتا ہے۔
2۔ یہ اجلاس بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ براہوئی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی کے اغوا کی پرزور مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ انہیں فی الفور بازیاب کرایا جائے۔
3۔ پاکستان اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کو بیک جنبشِ قلم برطرف کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔
4۔ مہنگائی و بے روزگاری کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کے لیے حکومت اقدامات کرے۔
نجیب سائر نے بتایا کہ سنگت اکیڈمی کی نئی کتابیں آچکی ہیں۔ تراجم سیریز میں ’سپارٹیکس‘ کا نیا ایڈیشن، عشاق کے قافلے سیریز میں’ہوچی من‘ اور ’یوسف عزیزمگسی ‘ شائع ہوچکی ہیں۔ پیش کیے گئے مضامین پر بحث ہوئی۔آخر میں صدرِ مجلس پروفیسرجاوید اختر نے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ پیش کیے گئے مقالوں پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ شاندار مضامین سننے کو ملے۔سکندر نے اچھے سوالات اٹھائے ہیں۔ مولانا ظفر علی خان اور یوسف عزیز مگسی ساتھ ساتھ رہے۔ عابد میر کا مضمون معلوماتی تھااور جیئند جمالدینی نے جو تبصرہ کیا اس روایت کو آگے بھی جاری رکھا جائے گا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*