ایک بلوچ دوست سے ملاقات

 

تم کو خفی عزیز ہے ہم کو جلی عزیز
عارض کا گل تمھیں، ہمیں دل کی کلی عزیز
لفظ بلوچ مہر و وفا کا کلام ہے
معنی ہیں اس کلام کے، یوسف علی عزیز

بلوچ کو مہرووفا کا پیکر بتانے والے یہ مولانا ظفر علی خان، اقبال کے سیالکوٹ سے محض چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وزیرآباد نامی قصبے میں دفن ہیں،یہ ہمیں عمر کے اڑتالیسویں برس میں اس وقت معلوم ہوا، جب ہم چند پنجابی احباب کی معیت میں اسلام آباد سے سمبڑیال کی جانب رواں تھے۔ ۔۔۔۔آپ حیران نہ ہوں۔ حیرت تو ہماری آئندہ نسل کو ہو گی جب وہ خود کو عالم فاضل سمجھنے والی ہماری نسل کی جہالت کا عالم ملاحظہ کریں گے!
اکمل شہزاد گھمن اردو ‘پنجابی کے ادیب اور ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر ہیں۔ فاروق ملانا اِن کے کولیگ ہیں۔ عزیر احمد پی ٹی وی کے سینئر پروڈیوسر ہیں۔ ہزارہ کے زاہد کاظمی کتابوں کے رسیا ایک یکتا و یگانہ شخص ہیں۔ یہ وہ قافلہ تھا، جس کی مسافت میں ہم اکمل شہزاد کے آبائی گاو ¿ں سمبڑیال کی جانب رواں تھے۔ اس اتفاق سے لا علم کہ اس سفر میں ہماری پہلی ملاقات ہمارے اکابرین کے ایک بزرگ سے ہونے والی ہے۔
اسلام آباد سے جی ٹی روڈ پر چلنا شروع کریں،تو تقریباً 176کلومیٹر بعدگجرات کے پاس مشرق کی جانب ایک سڑک دائیں ہاتھ کو مڑ جاتی ہے۔اور یہاں سے محض اٹھارہ، اُنیس کلو میٹر کے فاصلے پر پہلی گنجان آبادی وزیرآباد کے نام سے آتی ہے۔ لگ بھگ تین لاکھ کی آبادی پر مشتمل ضلع گجرات کی یہ تحصیل چناب کے کنارے واقع ہے۔ یہ پنجاب کے مرکز لاہور سے محض سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی وجہ شہرت کٹلری کا سامان یعنی چھری کانٹے اور چمچوں وغیرہ کی وسیع پیداوار ہے۔ (یہ ہمیں بعض ازاں گوگل سے پتہ چلا)۔
ہم البتہ ہرنئے قصبے کے ساتھ ہی میزبانوں سے وہاں کی مشہور شخصیت پوچھتے۔ سو ‘وزیرآباد سے متعلق ہمارا پہلا سوال تھا؛ یہاں کی مشہور شخصیت کون سی ہے؟ فوری جواب ملا؛ ’مولانا ظفر علی خان‘۔ ہم ایک دم چونک اٹھے کہ انھیں توہم لاہور سے متعلق سمجھ رہے تھے۔ یہ یہاں کہاں نکل آئے! ۔ ہمارے میزبان البتہ ان سے کچھ زیادہ متاثر نہ تھے۔ چوں کہ اکثریت صحافیوں کی تھی ، اور ’میڈیا منڈی‘ نامی معروف کتاب کے مصنف اکمل شہزاد گھمن کا خیال تھا کہ مولانا چوں کہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے معاملے میں نہایت لاپرواہ واقع ہوئے تھے، اس لیے وہ ان سے خاص ہمدردی نہیں رکھتے۔
اب میں انھیںبھلا کیسے سمجھاتا کہ ملازمین کو تنخواہیں نہ دینے والے اس مولانا نے ہم حرماں نصیب بلوچوں کو اتنا کچھ دیا ہے کہ جس کا احسان ہماری نسلیں بھی شاید نہ اتار پائیں…. سو بس نہایت لجاجت سے عرض کی ‘کیا ہم ان کے مزار پہ دو پل کو رک سکتے ہیں؟ ۔ میزبانوں نے یہ فرمائش یوں بھی مان لی کہ ان کا مزار سرِ راہ ہی واقع ہے۔ سو‘ ہم نے گاڑی سڑک کنارے لگائی اور نیچے اتر کر ایک مختصر آہنی جنگلے سے مزار کے احاطے میں داخل ہو گئے۔
اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پہ کسی صوفی کے دربار کی مانند ایک شیشے کے شیلف میں مولانا کی تمام کتابوں کے قدیم نسخے رکھے گئے ہیں۔ بائیں جانب کی دیوار پر نقش گری کی گئی ہے اور ان کی معروف حمد و نعت اور قومی نظمیں تحریر کی گئی ہیں۔ پانچ، چھ ہزار فٹ پر مشتمل اس احاطے میں آگے بڑھیں تو مختصر سی راہداری کے دائیں بائیں سبزہ ہے اور اس کے بالکل ساتھ ہی عین وسط میں مقبرہ نما۔ اندر داخل ہوں تو عین وسط میں مولانا ظفر علی خان کا مقبرہ ہے۔دائیں بائیں ان کی زوجہ، اور بچوں کی قبریں ہیں۔
ہم جونھی دروازے سے اندر داخل ہوئے، مجھے لگا کہ میرے کندھوں پہ جیسے کوئی بھاری بوجھ آ ن پڑا ہو۔ میں اس بوجھ سے دوہرا ہو کروہیں مولانا کی قبر کے پیروںمیں بیٹھ گیا۔ اچانک بلاارادہ میری آنکھوں سے زاروزار اشک بہہ چلے۔ گویا اپنی نااہلی کا مداوا چاہتے ہوں۔ مولانا کے ہماری نسلوں پر احسانات کے بدلے ہم نے بس کچھ اشکوں کے نذرانے ان کی تربت پہ رکھے اور اسی خاموشی سے وہاں سے نکل آئے۔
اس مقبرے کے پہلو میںہی خستہ حال ڈاک بنگلے کی طرز پر ایک عمارت ہے۔ مقبرے کے متولی نے بتایاکہ یہ مولانا کی رہائش گاہ ہواکرتی تھی۔ اب بھی اسی حالت میں موجود ہے۔ میں نے دل کی آنکھ سے جھانکا تو مجھےلگا کہ جیسے یوسف عزیزمگسی، محمد حسین عنقا و دیگر اکابر مولانا ظفر علی خان کے ساتھ بیٹھے بلوچ وطن پہ سامراج کی چالاکیوں اور عیاریوں پہ محو گفتگو ہوں۔ میں نے نہات عقیدت بھری نظروں سے اس عمارت کو دل کے آئینے میں سمویااور ہم وہاں سے نکل آئے۔
ہمارے میزبانوں کے لیے یہ تجسس کا معاملہ تھا ۔ وہ اپنے پہلو میں واقع اس عالم انسان کی اس خوبی سے ، بلوچوں سے ان کی روابط و احسانات سے قطعاً بے خبر تھے۔مجھے بتانا پڑا کہ آج سے ٹھیک سو برس قبل بلوچستان میں عقل، علم، روشن خیالی، خرد افروزی کی جو شمع ہمارے بزرگوں نے جلائی، اسے روشن رکھنے میں مولانا کا بڑا حصہ تھا۔ اُس زمانے میں بلوچستان میں اخبار کی اشاعت ناممکن تھی ، جس سے اخبار برآمد ہوتا، وہ جیل جاتا۔ ایسے میں ہمارے بزرگوں نے سیاست و ادب میں علم و قلم کو اپنا ہتھیار بنایا تو مولانا ظفر علی خان ہی تھے، جنھوں نے اپنے اخبار کا کندھاانھیں فراہم کیا۔ اُس زمانے میں ان کا ’زمیندار‘ اخبار تو گویا بلوچ کا ترجمان بن گیا تھا۔ بلوچستان کی سیاست میں ہلچل مچا دینے والی یوسف عزیز مگسی کی اولین تحریر(فریادِ بلوچستان ) سے لے کر 1932-33ءکی بلوچ کانفرنسوں کی مکمل روداد اسی اخبار کے توسط سے ہم تک پہنچی۔ یہ اخبار نہ ہوتا تو ہماری تاریخ کی اہم کڑی غائب ہو جاتی۔ مولانا ظفر علی خان کا ’زمیندار‘ ہماری سیاسی تحریک کے لیے گویا اُس زمانے کا فیس بک تھا، ٹوئٹر تھا۔ ’زمیندار‘ نہ ہوتا تو ’فریادِ بلوچستان‘ کہیں دب جاتی، بلوچ کانفرنس تاریخ کا حصہ نہ بنتی۔ الغرض مولانا نہ ہوتے ہمیں باعلم ہونے میں جانے اور کتنی دَہائیاں لگ جاتیں۔
’زمیندار‘ سے شہہ پا کر ہی یوسف عزیز نے اپنا اخبار نکالنے کا تہیہ کیا۔ اس کے تکنیکی امور میں بھی مولانا کی مشاورت شاملِ حال رہی۔ بعدازاں یوسف عزیز مگسی کی سربراہی میں جتنے اخبار چھپے، وہ گویا مولانا کے ’زمیندار‘ ہی کا بلوچ ورژن تھے۔
مولانا کا یہ تعارف ہمارے میزبانوں کے لیے بھی نیا ثابت ہوا۔ انھوں نے طے کیا کہ آئندہ یہاں سے گزرتے ہوئے رکیں یا نہ رکیں، مولانا کے مقبرے کی جانب منہ کر کے ان کے لیے ایک دعا ضرور مانگیں گے۔
یہ سن کر مجھے لگا کہ مولانا کے احسانات کا ہماری نسلوں پر جو بوجھ تھا، اس کا کچھ وزن میرے کندھوں سے جیسے کم ہو گیا ہو گویا!

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*