غزل

 

لہو سے میں نے سینچی ہے جو سوچی بھی نہیں تو نے
جو دنیا میں نے دیکھی ہے وہ دیکھی ہی نہیں تو نے

دکھائی دینے لگتے ہیں وہ منظر جو نہیں منظر
فلک کی نیلی چادر کیا کبھی کھینچی نہیں تو نے

بہت اوپر سے مجھ کو دیکھتا ہے پاس آکر دیکھ
فقط مٹی سہی مٹی مگر چکھی نہیں تو نے

سنی بھی میں نے سیکھی بھی، پڑھی بھی اور پڑھائی بھی
وہ بھاشا تیری بھاشا تھی مگر سمجھی نہیں تو نے

محبت، ساز، بارش، گیت، کوئل، مورنی سب ہوں
کہانی ایک بھی ایسی کبھی لکھی نہیں تو نے

’’الف‘‘ سے ’’میم‘‘ تک کیا سب مکمل کر لیا میں نے
بہت دن سے میری جانب وحی بھیجی نہیں تو نے

جلے تو چاند سورج شرم سے چھپ جائیں کونوں میں
کیوں اتنی روشنی قندیلؔ میں رکھی نہیں تو نے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*