خودی

میری ذات ذرہ ذرہ
میری ذات کرچی کرچی
مجھے یوں ہے جو بکھیرا
کہ سمٹ گیا جسم میرا
زباں جو لب کشا ہوئی تو
دن میں رات بین کرتی
جو میں موندھ لوں یہ آنکھیں
رات اندھیرے میں مچلتی
اری سیاہ کار او بے خبر
بنے تو جو میری چارہ گر
جو سمیٹی تو نے سیائی ہے
میرے رستے دل کا
،وہ خون ہے
جس کی لالی جگ نے چرائی ہے
مجھے دن کی آس نہیں رہی
وفا سیاہ بخت رات
بھی نہ کر سکی
کہ وہ مقید،ہے اک چاند،کی
مگر میں ہوں آس
اماوس کی
میں جو ہنس پڑوں
تو نمی گرے
اس نمو کو جو نہ سہ سکے
دھرتی بانجھ ہوکر جل مرے
یہ جو چشم ہیں کشاں کشاں
جیے اب ہیں
اسود کی کالک لیے
سمیٹتے ہوئے ان گنت یہ پاپ
جو جگ نے جگ جگ جگا کیے
نہ کوئی منزل نہ کوئی نشاں
نہ کوئی راہ نہ ہی راستہ
جو پگڈنڈیاں میں بنا چلی
اُٹھی دھول وہ بے راہ رو ہوئیں
اگر ہوتا یہ ایک صحرا
تو گمان تھا اک سراب کا
مگر یہ تو،ہے ایک زندگی
کئی دھڑکنوں سے جڑی ہوئی
وہ جو دھڑکنیں عزیز ہیں
وہ میری ہی اپنی رقیب ہیں
گونج نہ سنوں گر ان کی میں
مروں پل دو پل میں بار بار
نہ امید ہے نہ کوئی یاس ہے
نہ ہی راہبر کی اب تلاش ہے
جس کے ہاتھ میں ہیں ڈوریاں
وہ خود ہی ان میں الجھ گیا
اب یہی بچا ہے اک حل اے دل بیقرار
کہ قرار تجھ کو دلاؤں خود
جا کر اس کو جگاؤں میں
پکڑ ہاتھ اس کے میں جدا جدا
خود کی ڈوریاں ہی سلجھاؤں میں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*