حملہ

شب کے شب خون میں اک تیرہ شبی کا خنجر
دہر کے سینہِ بیدار میں حسبِ معمول
وار بھرپور تھا ؛ پیوست ہوا قبضے تک
رو کے خاموش ہوئی گنبدِ مسجد میں اذان
میوزیم میں کہیں اوندھی گری گوتم کی شبیہہ
نے شکستہ ہوئی ؛ نوحے تھے نہ نغمے باقی
جام زہراب کا یونان کے دانا نے پیا
ایک ماں گرجے کے دروازے کے آگے آکر
کوڑے میں ڈال گئی اپنے گناہوں کا حساب !۔

شہر کی لاش کو ڈھانپا تھا سیہ چادر نے
روحِ انسان پہ چھائی ہوئی تاریکیِ قبر
ہر طرف پھرنے لگے درد کے تنہائی کے دیو
شہر کی گلیوں کو سنسان سمجھ کر آئے
کتنے ویرانی و خاموشی کے چور اور ڈاکو
سرد اور تیز ہوا دیتی ہے در پر دستک
کوئی انساں ہو تو ہو شہر کے ماتم میں شریک
یا کوئی چیخ جو ہو جشنِ جہنم میں شریک
ٹوٹتا تھا در و دیوار پہ چْپ کا جادو
اپنے ہی گوشت کو خود نوچتے پاگل کْتے
بیوہ چورنگی پہ استادہ تھا اندھا سگنل

چاپ قدموں کی نہ جانے کہاں تھی سوئی ہوئی
جانے دم توڑ گئے چوڑیوں کے راگ کہاں
کتنے سینوں میں کہاں بجھ گئیں دل کی شمعیں
چشمے آنکھوں کے خدا جانے کہاں سوکھ گئے

چشمے آنکھوں کے خدا جانے کہاں خشک ہوئے
نہ کہیں حسن حقیقت ،. نہ کہیں سوز نہ ساز
ہار سنگھار چتاؤں میں جلے راکھ ہوئے
اور خدا جانے کہاں گم ہوئے اس شہر کے لوگ
کس جگہ تھم گئے رقاصہ کے مدہوش قدم
مضطرب رقص کہاں ، جاگتے سوتے ہنستے
کب سسکتے ہوئے کس قید میں خاموش ہوئے
جاگتے رنگ کہاں سو گئے ، کس سے پوچھیں
ہْوا خوشبو کا جگر چاک کہاں ، کون بتائے

شاہراہوں پہ کہیں تیز گٹر کی بدبْو
ایسا دوزخ کا اندھیرا ہے کہ دم گھٹتا ہے
چشم ساقی میں خدا جانے کہا ں اشک بھر آئے
کس نے ایسے میں خدا جانے کہاں جام اْلٹا
رات جلّاد تھی پیتی ہی رہی خونِ شراب
رات قاتل بھی تھی ، مردود بھی تھی ، قہر بھی تھی
رات ظالم بھی تھی سفّاک بھی تھی زہر بھی تھی
رونے والا نہ کوئی اشک بہانے والا
تھا کوئی شہر کی میت نہ اْٹھانے والا !۔

غسل اس لاش کی میت کو اب آکر دے کون
کون اس لاش پہ اب ڈالے غلافِ کعبہ
کون اس لاش کا سنگھار کرے پیار کرے
کون اس لاش کا دیدار کرے آخری بار
سرد رخسار سے کون اس کے ہٹائے زلفیں
کون اس کے سِرِ بالیں پہ جلائے لوبان
کون ہو مرثیہ خواں ،کون کرے غم اس کا
آخری سجدہِ تعظیم بجا لائے کون
ہوگا اس شہر کا بھی ہمدم و ہمراز کوئی
ہوگا اس شہر کا بھی مْونس و دمساز کوئی
کوئی اس شہر کا دلبر کوئی ہوگا محبوب
کچھ تو اس شہر کا حسن ، اس کی جوانی ہوگی
کچھ تو اس شہر کے عاشق کی نشانی ہوگی

ہوگا اس شہر کے بچے کا تبسّم ہوگا
ہوگا اس شہر کی لوری کا ترنّم ہوگا

سرد اور تیز ہوا دیتی ہے در پر دستک
کوئی ہے بھی کہ ہو اس شہر کے ماتم میں شریک
چیخ ہی کوئی سہی جشنِ جہنّم میں شرک

درِ زنداں ہوا آہستہ سے وا آخر کار
زرد مہتاب اْٹھا ، تاروں کی زنجیر کٹی
ہوئے افلاک کے پھر دارورسن آویزاں
پھر کہیں یاد کے تابوت میں اْترا ہے ذہن

دل کے بغداد کو تاتاریوں نے لوٹ لیا
مانگ میں سندھ کے خطرے کی مچی چیخ و پکار
مست آنکھوں کی جمیلا کا تبسّم تھا نہ اشک
خون میں سرخ تھا سینے کا مقدّس کانگو
ہیروشیما میں ہوئے ایٹمی دجّال آباد
آرزؤوں کی ثریا کا مقدّر تھا طلاق
بخت کا شوخ کنیڈی ہوا گولی کا شکار
تاج محلوں کے کنول روئے سویروں کے لیے

ہر گنہگارِ محبت کا ہے انجام یہی
ہر طرفدارِ صداقت پہ یہی ہے تہمت
ہر وفادارِ محبّت پہ ہے الزام یہی !۔

( سندھی سے ترجمہ )

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*