ایک سندیسے کی آس میں

ایک سندیسے کی آس میں ۔۔۔  علی بابا تاج

منڈیروں پہ پنچھی جب سے

چلنا بھول گئے

اڑنا بھول گئے

اجلے دن میں دیر تلک کیا رہنا تھا

اک منظر جو آنکھ میں اترا بے شکلی میں

اک آواز تھی بوسیدہ وقت کے پہلو میں

سو وہ بھی سورج پار گئی

اک منڈیر پہ پنچھی آتے

گاتے

اک سندیسہ روز وہ لاتے

آن کی آن میں خوشبو بھر کے لاتی

دامن اپنا رنگوں سے

ہم پنچھی کو بھول نہ جاتے

پنچھی ہم کو

شہر ہمارا خوشیوں کو

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*