آنے والا کل

”ایک بھی آواز نہیں ………… بچے کو کیا ہوا؟“

 

زرد شراب کا پیالہ ہاتھ میں لیے سرخ ناک والے کُنگ نے یہ کہتے ہوئے اگلے گھر کی طرف سر کو جھٹکا دیا۔ نیلی کھا ل و ا لے آ ہ و و نے اپنا پیالہ نیچے رکھا اور د و سرا بھر لیا۔

”آہ“۔  اس نے بھاری آواز میں کہا”پھر جذباتی ہورہا ہوں!“

بہت دور دراز واقع ہونے کی وجہ سے  لوچن نسبتاً  پرانی فیشن کا تھا۔ لوگ گھڑیال کی پہلی آ و از سے پہلے اپنے دروازے بند کرلیتے اور سونے چلے جاتے۔ نیم شب تک صرف د و مکان جا گتے رہتے۔ شراب خانہ جہا ں چند  شرابی شراب پر پیسہ اڑاتے تھے، اور ساتھ والا گھر جہاں چوتھے شان کی بیوی رہتی تھی۔ وہ دو سال قبل بیوہ ہوگئی تھی۔ اس کے پاس ایک کپاس کاتنے کے چرخے کے  علاوہ کچھ بھی نہ تھاجس پر وہ کپاس سے دھاگہ بنا کے اپنا اور اپنے تین سالہ بیٹے کا گزارہ کرتی تھی۔ اسی لیے وہ بھی دیر سے سوتی تھی۔

یہ حقیقت ہے کہ کئی دن سیکپاس کاتنے کی کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ لیکن چونکہ د و ہی مکان آ د ھی ر ا ت تک جا گتے تھے اس لئے جب چوتھے شان کی بیوی کے گھر سے کوئی آواز آ تی تو بھی فطری طو ر پر بوڑ ھا کُنگ اور د یگر ہی سن سکتے تھے۔ اور اسی طرح انہی کو معلو م ہو سکتا تھا کہ وہاں سے کو ئی آواز نہیں آرہی۔

ٹُن ہونے کے بعد بوڑھے کُنگ نے ایک فوک گیت گانا شروع کیا۔

اسی دوران چوتھے شان کی بیوی اپنے بستر کے کنا رے پر بیٹھی تھی۔ پاؤ ارھ ………… اس کا لال، اس کے بازوؤں میں تھا اور اس کا چرخافرش پر خاموش کھڑا تھا۔ لیمپ کی روشنی پاؤ ارھ کے چہرے پر پڑ تی تھی جو کہ ایک بخار والی سرخی میں دھکتانظر آتا تھا۔

”میں نے عبادت گاہ کے سامنے بہت سجدے کئے“، وہ سوچ رہی تھی۔ ”میں نے دیوتاؤں سے قربانی کاعہد کیا۔ اگر اب بھی وہ صحت یاب نہیں ہو تا تو میں کیا کر سکتی ہوں؟۔ میں ا سے ڈ اکٹر ہو سیاوسین کے پاس لے جاؤ ں گی۔ مگر ممکن ہے پیاؤ ارھ کی حالت صرف رات کو ابتر ہوتی ہو۔اور جب کل سورج نکلے تو ہوسکتا ہے اس کا بخار چلا جائے اور وہ دوبارہ آرام سے سانسیں لے لے۔ بہت سی بیماریاں اس طرح ہوتی ہیں“۔

چوتھے شان کی بیوی ایک سادہ عورت تھی۔ وہ نہیں جانتی کہ ”لیکن“  کا لفظ کس قدر وہشتناک ہوتا ہے۔ اسی”لیکن“کی برکت سے کئی بُری چیزیں بہتر ہوجاتی ہیں، کئی اچھی چیزیں بُری بن جاتی ہیں۔

گرمیوں کی رات مختصر ہوتی ہے۔ جونہی بوڑھے کُنگ اور دوسروں نے گانا بند کردیا آسمان مشرق سے چمکنے لگا اور جلد ہی کھڑکی کی درزیں صبح صادق کی رو پہلی روشنی چھان کر اندر بھیج رہی تھیں۔

صبح ہونے کا انتظار چوتھے شان کی بیوی کے لئے  اتنا سادہ معاملہ نہ تھا جتنا کہ دوسروں کے لئے تھا۔ وقت بہت سست رفتاری سے گھسٹ رہا تھا۔ لگتا تھاپاؤ ارھ کی ہر سانس  ایک سال تک چلے گی۔ مگر اب با لآخر صبح ہو گئی تھی۔ صا ف شفا ف دن کی روشنی لیمپ کی روشنی کو نگل گئی تھی۔ پاؤ ارھ نے جب سانس کے لیے ہوا کھینچی تو اُس کے نتھنے لرز اٹھے۔

چو تھے شا ن کی بیو ی کی چیخ نکلی اس لئے کہ ا ُسے معلو م تھا یہ بیما ری کی انتہاہے۔ مگر وہ کیا کر سکتی تھی؟۔وہ حیران تھی۔واحد امید یہ تھی کہ ا سے ڈاکٹر ہوؔ کے پاس لے جا یا جائے۔ وہ سادہ عورت تو ہوگی مگر وہ ارادے کی بہت پکی تھی۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی، الماری تک گئی اور اپنی ساری پونجی اٹھا لی۔ اسے جیب میں رکھا، دروازے پر تالا لگایا اور جتنا ممکن تھا تیز رفتاری سے پاؤ ارھ کو ڈاکٹر ہوؔ کے گھر کی طرف لے گئی۔

گو کہ ابھی بہت سویر تھی مگر وہاں پہلے ہی چار مریض بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے 40سکے رجسٹریشن سلپ کے لئے دے دیے اور اس طر ح پاؤ ارھ  پانچواں مریض بنا۔ ڈاکٹرؔ ہونے  بچے  کی نبض د یکھنے کے لئے دو  انگلیاں پھیلائیں۔ چو تھے شا ن کی بیو ی د ل میں سو چ رہی تھی”یقیناً میرا پاؤ ارھ زندہ رہے گا“۔ مگر وہ بہ یک وقت بے چین بھی تھی اور ہیجانی انداز میں خو دکو پو چھنے سے نہ روک سکی:

”آنت بند ہوگئی ہے“۔

”کیا یہ خطرناک بیماری ہے؟ کیا وہ …………؟“

”شروع تو اِن دو دوائیوں سے کرو“

”وہ سانس نہیں لے سکتا۔ اس کے نتھنے جھٹکے کھا تے ہیں“۔

”آگ کا عنصر دھات کے عنصر پر قابو پا تا ہے …………“(یعنی دل کی تکلیف نے پھیپھڑوں کو متاثر کیا ہے)

اپنا فقرہ نا مکمل چھوڑ کر ڈاکٹر ؔہونے آنکھیں بند کیں، اور چوتھے شان کی بیوی نے مزید کچھ نہ کہنا چاہا۔ ڈاکٹر کے سامنے تیس برس کا ایک اور شخص بیٹھا تھا جس نے نسخہ لکھ لیا۔

”یہ پہلی دوا بچے کو بچانے کی ہے“۔ اس نے اسے بتا یا۔ ”یہ  تمہیں صرف چِن خاندان کی دکان پر ملے گی“۔

چو تھے شان کی بیوی نے کاغذ اٹھالیا اور جا تے ہو ئے سو چنے لگی۔ وہ سادہ عورت تو ہوگی مگر وہ جانتی تھی کہ ڈاکٹر ؔہو کا گھر،  چِن خاندان کی دکان اور اُ س کا  اپنا گھر ایک تکو ن بناتے ہیں، اس لئے بلا شبہ پہلے دو ائی خریدنی ہے اور پھر واپس جانا ہے۔ وہ جس قدر تیز چل سکتی تھی، اُس تیزی سے دکان تک گئی۔ دکاندار نے احتیاط سے نسخہ پڑھا اور دوائی پیک کرنے لگا۔ پاؤ ارھ کو بانہوں میں رکھے چوتھے شان کی بیوی انتظار کرتی رہی۔ اچانک پاؤ ارھ نے ایک میں ہاتھ ذرا کچھاؤ پیدا کیا اور اپنا بالوں کا ڈھیلا گچھا سختی سے پکڑ لیا۔ اس نے ایسا پہلے کبھی نہیں کیا تھا، اور ماں دہشت زدہ ہوگئی۔

سورج اب اچھا خاصا نکل آیا تھا۔ بچہ بازوؤں میں  اور ہاتھ میں دوائی کا پیکٹ لیے وہ جتنا چلتی جاتی وزن بڑھتا لگتا۔ بچہ بھی ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا جس نے راستے کو مزید لمبا بنا دیاتھا۔ اسے راستے میں ایک بڑے گھر کے دروازے پر کچھ دیر سستانے کے لئے بیٹھنا پڑا۔ اسے اندازہ ہوا کہ پسینے سے اس کے کپڑے بھیگ چکے ہیں۔ مگر پاؤ ارھ گہری نیند میں لگتا تھا۔ جب وہ دوبارہ چلنے کے لئے اٹھی تو اسے پھر لگا کہ بچہ بہت بھاری ہے۔ اس کے قریب سے آواز آئی:

”چوتھے شان کی بیوی، لاؤ میں اٹھاتا ہوں“ یہ نیلی کھال والے آہ وو کی آواز تھی۔جس کی آنکھیں نیند سے اب بھی بوجھل تھیں۔

گو کہ چو تھے شان کی بیوی سخت منتظر رہی تھی کہ کوئی فرشتہ اس کی مدد کو آئے، مگر وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ فرشتہ آہ و و ہو۔ مگر آہ وو تو  ضدی تھا، اس لئے کہ اس نے اس کی مدد کرنے پر سخت اصرار کیا، اور بالآخر، کئی بار انکار کے بعد وہ ہار مان گئی۔ جب اُس نے اپنے بازو اس کے سینے اور بچے کے درمیان پھیلائے، اور ہاتھ نیچے کرکے پاؤ ارھ کو سنبھالا تو چوتھے شان کی بیوی نے سینے کے ساتھ ساتھ گرمی کی ایک لہر محسوس کی۔ وہ کانوں تک سرخ ہوگئی۔

وہ ساتھ ساتھ چلتے رہے، ڈھائی فٹ کے فاصلے سے۔ آہ وو نے کچھ جملے کہے جن کا  چوتھے شان کی بیوی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ ابھی دور نہ گئے تھے کہ اس نے بچہ یہ کہہ کر و ا پس دے د یا کہ ا سے ایک دوست کے پاس کھا نے پہ جا نا ہے۔ چو تھے  شان کی بیوی نے بچہ واپس لے لیا۔ خوش قسمتی سے اب فاصلہ کم رہ گیا تھا اور دور سے اُسے گلی کے نکڑ پر بیٹھی نویں چچی وانگ نظر آئی۔ اس نے آواز دی:

”چوتھے  شان کی بیوی، بچے کا کیا حال ہے۔ کیا تم نے ڈاکٹر کو دکھایا ہے؟“

”ہاں نویں چچی وانگ۔ آپ تو تجربے کار ہیں۔ آپ ذرا اُسے دیکھیں اور بتائیں یہ کیسا ہے؟“

”اچھا۔۔۔۔“

جب نویں چچی وانگ نے پاؤ ارھ  کا معائنہ کیا تو اس نے دوبار سرکو اثبات میں ہلایا اور پھر دو دفعہ انکار میں۔

جب تک پاؤ  ارھ نے دو الی تو دوپہر ہوچکا تھا۔ چوتھے شان کی بیوی اسے غور سے دیکھ ر ہی تھی۔ وہ ا چھا  خا صا پر سکو ن لگ ر ہا تھا۔ عصر کے و قت  اس نے اچانک آنکھیں کھو لیں اور پکارا”ماں!“۔ پھر اس نے آنکھیں دوبارہ بند کیں اور لگتا تھا جیسے سو رہا ہو۔ ابھی اسے سو ئے زیا دہ وقت نہیں گزرا تھا کہ اس کے ماتھے اور ناک پر پسینے کے قطرے نظر آئے۔ اور ماں نے ہاتھ لگایا تو یہ پسینہ گوند کی طرح اس کی انگلیوں سے چپک گیا۔ لرزہ میں اس نے اس کے سینے کا معائنہ کیا اور ہچکیاں لے کر رونے لگی۔

اس کی سانس مکمل طور پر رک چکی تھی۔ ہچکیوں کے بعد اس نے زور سے ماتم کرنا شروع کیا۔جلد ہی لوگوں کے گروہ اکٹھے ہونے لگے۔ کمرے کے اندر نویں چچی وانگ، نیلی جلد والا آہ وو اور دیگر، باہر شراب خانہ کے مالک اور سرخ ناک والا کانگ۔ نویں چچی وانگ نے                فیصلہ سنایا کہ کاغذی نوٹ کا ایک فیتہ بنا کر جلایا جائے۔ پھر اس نے دو کرسیاں اور کپڑوں کے پانچ ٹکڑ ے ضمانت پر لے کر  چوتھے شان کی بیوی کو دو ڈالر قرض دیے تاکہ اُن سب کے لئے کھانے کا بندوبست ہو جو مدد کررہے ہیں۔

پہلا مسئلہ تابوت کا تھا۔ چوتھے شان کی بیوی کے پاس چاندی کی بالیوں کا ایک جوڑا بچا تھا  جو اس نے شراب خانہ کے مالک کو دیا تا کہ وہ نیم نقد نیم قرض پر تابوت خریدلائے۔ نیلی جلد والے آہ وو نے ہاتھ کھڑا کر کے مدد کے لئے اپنی رضا مندی دکھائی مگر نویں چچی وانگ نے اس کی بات سنی ا ن سنی کر دی۔ اس نے ا سے صرف یہ کر نے دیا کہ وہ اگلے د ن تا بو ت لے جا ئے۔ ”بوڑھی کتیا“ اس نے دل میں اسے گالی دی۔شراب خانے کا مالک واپس آیا اور بتایا کہ یہ تابوت کل صبح تک تیار ہوسکے گی۔

باقی مدد گار کھانا کھا چکے تھے۔ اور لوچن پرانے طرز کاتھا  اس لئے وہ  سب گھڑیال کی پہلی آواز پر سو گئے۔ صرف آہ وو شراب خانے میں شراب پی رہا تھا اور بوڑھا کُنگ ایک گانا غرّا رہا تھا۔

اس دوران  چوتھے شان کی بیوی چار پائی کے کونے پہ بیٹھی رو رہی تھی۔ پاؤ ارھ بستر پر رکھا ہوا تھا اور چرخافرش پر کھڑا تھا۔ بہت وقت بعد چوتھے شان کی بیوی کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ تھے۔ اس نے اپنی آنکھیں پوری کھولیں اورحیرت سے آس پا س نظر دوڑائی۔ یہ سب نا ممکن تھا!”یہ محض ایک خواب ہے“ اس نے سوچا”یہ سب ایک خواب ہے۔ میں کل صبح جاگوں گی تو بسترمیں لیٹی ہوں گی اور پاؤ ارتھ میرے پہلو میں گہری نیندسویا ہوگا۔ پھر وہ جاگ جائے گا اور پکارے گا”ماں“ اور کھیلنے کو ایک کمسن شیر کی طرح اچھل کر نیچے اترے گا“۔

بوڑھا کُنگ بہت وقت ہوا گانا ختم کر چکا تھا اور شراب خانے کی بتیاں بجھ چکی تھیں۔ چوتھے شان کی بیوی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی مگر اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگیا۔ ایک مرغے کی اذان کی آواز آئی، آسمان مشرق کی طرف روشن ہوتا گیا  اور کھڑکی کی درزیں صبح کی روشنی کو چھان کرکے اندر لارہی تھیں۔

درجہ بدرجہ صبح کی روشنی بڑھتی گئی اور سورج افق پر چمک رہا تھا۔ چوتھے شان کی بیوی کھلی آنکھوں کے ساتھ بیٹھی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، تب وہ دروازہ کھولنے گئی۔ ایک اجنبی نے کندھے پر  ایک چیز اٹھا رکھی تھی اور اس کے پیچھے نویں چچی وانگ کھڑی تھی۔

آہ،یہ تو تابوت تو جو وہ لایا۔

اس شام تک کہیں جا کر تابوت کا ڈھکنا بند ہوسکا تھا اس لئے کہ چوتھے شان کی بیوی روتی رہی،اور جب بھی تابوت کا ڈھکن بند ہوتے دیکھتی تو اور چیخ مار کر رونے لگتی۔ خوش قسمتی سے نویں چچی وانگ انتظار کرتے کرتے تھک گئی، اٹھی، اُسے گھسیٹ کر ایک طرف کر لیا اور لوگوں نے جلدی جلدی تابوت بند کردیا۔

چوتھے شان کی بیوی سے جو کچھ ہو سکا تھا اس نے پاؤ ارھ کے لئے کیا تھا۔ گذشتہ روز اس نے اس کے لئے کرنسی نوٹوں کا ایک فیتہ جلایا تھا، آج صبح اس نے  بدھ مت کے ذکرکی 49 کتابیں جلائی تھیں، اور تابوت میں ڈالنے سے قبل اسے نیا نویلا لباس پہنایا تھا اور اس کے سرہانے کے ساتھ اس کے پسندیدہ ترین کھلونے رکھ دیئے جن میں مٹی کا ایک بُت، دو لکڑی کے پیالے، دو شیشے کی بوتلیں تھیں۔ گو کہ نویں چچی وانگ احتیاط  سے اپنی انگلیوں پر گن رہی تھی، مگر وہ بھی کوئی ایسی چیز نہ بتا سکی جو وہ کرنا بھول چکی ہوں۔

چونکہ نیلی جلد والے آہ وو نے سارا دن شکل نہ دکھائی،شراب خانہ کے مالک  نے چوتھے شان کی بیوی کی طرف سے قبر کھودنے اور تابوت وہاں تک  لے جانے کے لئے210 سکّوں کے عوض دو مزدور کر لئے۔ نویں چچی وانگ نے ہر اُس شخص کے لئے کھانے کا انتظام کرنے میں اس کی مدد کی جس نے ایک انگلی تک مدد کے لئے ہلائی ہو۔ جلد ہی سورج نے اعلان کیا کہ وہ ڈوبنے کو ہے، اور مہمانوں نے واضح کر دیا کہ وہ واپس جانے والے ہیں۔۔۔۔۔ وہ سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

چوتھے شان کی بیوی کا پہلے تو سر چکرایا، مگر کچھ آرام کے بعد وہ ذرا سا بہتر ہوئی۔اچانک اس نے محسوس کیا کہ چیزیں عجیب ہو گئی تھیں۔ ایک ایسی چیز جو اس  کے ساتھ پہلے کبھی نہ ہوئی تھی اور جو اس کا خیال تھا کہ کبھی واقع نہ ہو گا، ہو چکا تھا۔ وہ جتنا زیادہ سوچتی اتنا زیادہ حیران ہوتی جاتی۔ اور دوسری چیز جو اُسے عجیب لگی وہ یہ تھی کہ کمرہ اچانک بہت خاموش ہو چکا تھا۔

جب وہ اٹھی اور لیمپ جلایا تو کمرہ مزید خاموش ہو گیا۔ وہ ڈگمگاتے ہوئی گئی، دورازہ بند کیا اور چارپائی پر بیٹھ گئی۔چرخا فرش پر خاموش رکھا تھا۔ اس نے حواس مجتمع کرنے شروع کیے مگر وہ نہ تو بیٹھ سکتی تھی اور نہ کھڑی ہو سکتی تھی۔ کمرہ محض بہت خاموش نہ تھا، وہ بہت وسیع بھی ہو گیا تھا اور اس میں موجود چیزیں بہت خالی تھیں۔ یہ بہت زیادہ وسیع کمرہ  اُسے ایذا دے رہا تھا، اور چاروں طرف خالی  پن اس پہ بھاری گزر رہا تھا، وہ مشکل سے سانس لے پا رہی تھی۔

وہ اب جانتی تھی کہ اس کا پاؤ ارھ واقعی مر گیا ہے، اور وہ  اس کمرے کو دیکھنا نہ چاہتی تھی۔ اس نے پھونک مار کر لیمپ کو بجھا دیا اور رونے اور سوچنے کے لئے  لیٹ گئی۔ اسے یاد آ یا کہ جب وہ چرخا کاتتی تھی تو کس طرح پاؤ ارھ مُنگ پھلیاں کھاتے ہوئے  اس کے پاس بیٹھتا تھا۔ وہ اپنی چھوٹی کالی آنکھوں سے غور سے ماں کو دیکھتا تھا اورغور کرتا تھا۔”ماں“ وہ اچانک پکارتا ”والد نے ریڑھی بیچ دی‘ جب میں بڑاہوں گا تو میں بھی ریڑھی لگاؤں گا اور بہت سارا پیسہ کماؤں گا۔۔۔۔ اور یہ سارا تمہیں دے دوں گا“۔

ایسے وقتوں میں اس کے کاتے ہوئے  دھاگے کا ایک ایک انچ  قیمتی اور زندہ لگتا تھا۔ اب اور کیا سوچ سکتی تھی؟  وہ تو صر ف یہ جا نتی تھی کہ یہ کمر ہ بہت زیا دہ خاموش ہے، بہت زیا دہ بڑا ہے اور بہت زیا د ہ خا لی ہے۔

گو کہ چوتھے شان کی بیوی ایک سادہ عورت تھی،مگر اتنا ضرور جانتی تھی کہ مُردے دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتے، اوراب وہ دوبارہ اپنے پاؤ ارھ کو نہیں دیکھ سکے گی۔ اس نے گہری آ ہ بھر ی اور کہا ”پاؤ ارھ، تم ابھی بھی یہیں کہیں ہو گے۔ تم میر ے خو ا ب میں آجاؤ“۔ پھر ا س نے اپنی آنکھیں بند کرلیں، اس ا مید میں کہ فور اً سو جائے گی تاکہ پاؤ ارھ کو خواب میں دیکھ سکے۔ اس نے اپنی سخت سانس کی آواز واضح سنی۔۔۔۔خاموشی میں، وسعت میں، خالی پن میں۔

بالآخر چو تھے شان کی بیوی پر نیند غا لب آر ہی تھی اور سارا کمرہ بہت خامو ش تھا۔ سرخ ناک والے کُنگ کالوک گیت بہت وقت پہلے ختم ہوچکا تھا۔ اور وہ شراب خانے سے باہر ڈگمگاتا ہوا ایک لوک گیت بڑ بڑا رہا تھا:

”میں تم پر تر س کھا تا ہوں ………… میری محبوبہ ………… تن تنہا…………“

نیلی کھال وا لا آہ وو‘ بوڑھا کُنگ اور دوسرے جا چکے تھے۔شراب خانے کا دروازہ  بند ہوچکا تھا۔ لوچن مکمل خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ صرف رات، صبح میں بدلنے کو بے تاب خاموشی میں سفر کررہی تھی۔۔۔۔ اور، تاریکی میں چھپے کچھ کتے بھونک رہے تھے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*