امن کا نوحہ

 

اُداس نظمیں
اُداس غزلیں
اُداس مطلعے
ُُاُداس مقطعے
اداس لوگوں کی داستانیں
سُنا رہے ہیں…..
کہ کس گلی میں ہے کس کو مارا
کہاں ہوا کون کون زخمی
یہ میری سادہ سی نظم جس کا
ہر ایک مصرع
سس ک سس ک کر بتا رہا ہے…..۔

کہ نظمِ انسان میں کب کہاں پر بگاڑ آیا
کہ گولیوں کی وہ تڑتڑاہٹ
وہ بم دھماکوں کی گونج کیا تھی
کے جس میں نوبیل کی صدائیں بھی کھو گئی ہیں….۔
جو امن کی کھوج میں تھا نکلا
کہ نام ہونٹوں پہ جس کا آئے
تو امن کی فاختہ کے نازک
پروں کی کانوں میں پھڑپھڑاہٹ
سنائی دینے لگے اچانک

یہ میری سادہ سی نظم جس کا
ہر ایک مصرع
مجھے یہ نوحہ سنا رہا ہے

کہ گولیوں کی جو تڑتڑاہٹ
سنائی دیتی ہے سب کو اکثر
بس ایک بارود کی ہی بدبوں نہیں عزیزو
اب اُس میں اپنوں کی بو ہے شامل
وہ جس کو ہم ناگوار
کہتے ہوئے بھی جھجکیں
یہ میری سادہ سی نظم جس کا
ہر ایک مصرع
مجھے یہ نوحہ سنا رہا ہے

دکانِ دہشت کی چھابڑی میں
بد امنی بے حد ہے جنسِ ارزاں
ہر ایک جس کو ذخیرہ کر لینے کی غرض سے
خریدنے میں جُٹا ہوا ہے
مگر دُکاں ساتھ والی مُدت سے بند یوں ہے
کہ اس کا تالا بھی زنگ آلود ہو چکا ہے
بتا رہا تھا کوئی یہ ا ک دن
جو بند ہے بس اُ سی دکاں میں
ذخیرہِ امن سڑ رہا ہے
دُکاں کے در پر جو گھونسلا تھا
وہ اب ہے خالی

کہ فاختہ اس میں تھی جو پہلے
کسی بھی گمنام سرزمیں پر چلی گئی ہے
نہ جانے اب کس چمن میں ہوگی
یہ میری سادہ سی نظم جس کا
ہر ایک مصرع
مجھے یہ نوحہ سنا رہا ہے….۔

دکانِ دہشت کی چھابڑی سے
بد امنیاں جو خریدنے میں جُٹے ہوئے ہیں
کہ ہے یہ دنیا میں جنسِ ارزاں
یہ جنسِ ارزاں کے سارے تاجر
کسی زمانے میں امنِ عالم
کے خُوشہ چیں تھے
کبھی یہ سب امن کے امیں تھے
یہ میری سادہ سی نظم جس کا
ہرایک مصرع
مجھے یہ نوحہ سنا رہا ہے
کہ فاختہ گھونسلے سے اُڑ کر
کسی بھی گمنام سر زمیں پر چلی گئی ہے

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*